کبھی سوچا بھی نہ تھا کہ سائنس اور ٹیکنالوجی کے اِس دور میں انسان سڑکوں اور فٹ پاتھوں پر ایڑیاں رگڑ رگڑ کر مرتے نظر آئیں گے۔ اور جو اُکھڑی سانسوں کے ساتھ اسپتال پہنچ جاتا ہے اُسے آکسیجن مشکل سے ملتی ہے اور بچ نہ پائے تو قبرستان میں جگہ بھی مشکل سے ملتی ہے۔
یہ سب دنیا کے کسی دور دراز خطے میں نہیں بلکہ ہمسایہ ملک بھارت میں ہو رہا ہے۔ میڈیا کہہ رہا ہے کہ کسی نے جہنم دیکھنی ہے تو بھارت کو دیکھو جہاں کورونا وائرس کی نئی لہر نے تباہی مچا دی ہے۔
ٹائم میگزین کے مطابق بھارت میں کورونا وائرس سے روزانہ مرنے والوں کی تعداد دس ہزار تک پہنچ چکی ہے اور اس صورتحال کی ذمہ داری وزیراعظم نریندر مودی اور ان کے کچھ طاقتور وزراء پر عائد کی گئی ہے جو کچھ دن پہلے تک بڑی بڑی الیکشن ریلیوں سے خطاب کر رہے تھے۔
پاکستان کی طرف سے خیر سگالی کے طور پر بھارت کو امداد کی پیشکش کی گئی ہے اور ہمدردی کے اس جذبے نے سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کےساتھ اظہار یکجہتی کو فروغ دیا ہے۔
بھارت کی اس انتہائی تشویشناک صورتحال میں اہل پاکستان کے سیکھنے کے لئے بہت کچھ ہے۔ سب سے پہلے تو یہ سمجھنا بہت ضروری ہے کہ بھارت کچھ عرصہ پہلے تک کورونا وائرس کی ویکسین بطور امداد بانٹ رہا تھا۔ بھارت نے یہ ویکسین افریقہ تک بانٹی لیکن پاکستان کو ایک ڈوز بھی نہ دی۔ کورونا وائرس کی پہلی لہر ختم ہونے کے بعد مریضوں کی تعداد کچھ کم ہوئی تو بھارتی حکومت نے اس وائرس کو شکست دینے اور دنیا کے سب سے بڑے کمبھ میلے کا اعلان کردیا۔
کمبھ میلہ ہر بارہ سال کے بعد ہوتا ہے۔ آخری کمبھ میلہ 2010 میں ہوا تھا لیکن کچھ ہندو جوتشیوں نے مشورہ دیا کہ کمبھ میلہ 2022 کی بجائے 2021 میں منعقد کر لیا جائے کیونکہ یہ سال علم فلکیات کے حساب سے بہت اچھا ہے۔
جوتشیوں کے کہنے پر اُتراکھنڈ کے وزیراعلیٰ تیراتھ سنگھ راوت نے ہریدوار کمبھ میلہ2021 میں منعقد کرنے کا اعلان کیا۔ طبی ماہرین نے اس اعلان پر اپنے تحفظات ظاہر کئے اور وزیراعظم مودی سے اپیل کی کہ یہ میلہ 2021 میں نہ ہونے دیں، اس سے کورونا وائرس پورے ملک میں پھیل جائے گا لیکن مودی جی بھی جوتشیوں کو ناراض نہیں کرنا چاہتے تھے، اپریل 2021 میں کمبھ میلہ شروع ہوا۔ لاکھوں افراد نے دریائے گنگا میں ڈبکیاں لگائیں اور یہاں سے کورونا وائرس کا انفیکشن لے کر پورے بھارت میں پھیل گئے۔
ہندوئوں کے مذہبی جذبات کے لئے تمام تر احترام کیساتھ عرض یہ کرنا ہے کہ بھارت میں کورونا وائرس کی حالیہ لہر ایک مذہبی تہوار سے پھیلی ہے اور جب صورتحال قابو سے باہر ہوئی تو وزیراعظم مودی نے اپنے لوگوں کو احتیاط کے مشورے دینا شروع کر دیے۔
ادھر پاکستان میں بھی آہستہ آہستہ حالات بگڑ رہے ہیں۔ کورونا وائرس سے مرنے والوں کی تعداد بڑھ رہی ہے۔ ہمارا ایک مذہبی تہوار بھی قریب آ رہا ہے۔ رمضان المبارک کے اختتام پر مسلمان عید الفطر مناتے ہیں۔
مساجد میں جا کر نماز ادا کرتے ہیں اور ایک دوسرے کو گلے لگا کر عید مبارک کہتے ہیں۔ بھارت کی صورتحال سے سبق سیکھتے ہوئے ہمیں بہت زیادہ احتیاط کی ضرورت ہے۔ بھارت کے پاس اسپتالوں میں آکسیجن نہیں اور پاکستان کے پاس وافر مقدار میں ویکسین نہیں ہے۔ کورونا وائرس کی پچھلی لہر صرف بڑے شہروں تک محدود تھی لیکن نئی لہر پاکستان کے دیہاتی علاقوں تک پھیل چکی ہے۔ سرکاری اسپتالوں کی صورتحال بہت اچھی نہیں۔ سرکاری اسپتال میں داخلے کا مطلب ہے جان سے ہاتھ دھونا، اس لئے بہتر ہے کہ ہم بار بار صابن سے ہاتھ دھوئیں اور ماسک استعمال کریں۔ ویکسین لگوا لیں تو اور بھی اچھا ہے۔
پاکستانیوں کی طرف سے بھارت والوں کے ساتھ ہمدردی اور یکجہتی کا اظہار بہت اچھی بات ہے لیکن اس سے بھی اچھی بات یہ ہوگی کہ ہم بھارت سے سبق سیکھتے ہوئے احتیاطی تدابیر پر زیادہ توجہ دیں۔
وزیراعظم عمران خان نے بھارتی عوام سے یکجہتی کا اظہار کرتے ہوئے کہا ہے کہ انسانیت پر حملے آور اس آفت کا ہمیں مل کر مقابلہ کرنا چاہئے۔
ان کی کابینہ کے کئی وزراء نے بھی ایسے ہی بیانات دیے ہیں اور یہ بیانات ایک ایسے وقت میں دیے جا رہے ہیں جب انٹرنیشنل میڈیا میں پاکستان اور بھارت کے درمیان بیک ڈور ڈپلومیسی کے دوبارہ آغاز کی خبریں شائع ہو رہی ہیں۔ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے ان خبروں کی تردید کی ہے لیکن دیگر مصدقہ ذرائع نے تصدیق کی ہے کہ دسمبر 2020 میں بھارت کی طرف سے پاکستان کے ساتھ رابطہ کیا گیا۔
یہ رابطہ ایک خفیہ ادارے نے دوسرے خفیہ ادارے کے ساتھ کیا اور بات چیت کا آغاز ہوا۔ وزیراعظم عمران خان کی تائید سے شروع ہونے والے مذاکرات میں متحدہ عرب امارات سمیت کسی تیسرے ملک کا کوئی کردار نہ تھا۔ البتہ کچھ ملاقاتیں دبئی میں ضرور ہوئیں اور ان ملاقاتوں کے نتیجے میں فروری 2021 میں دونوں ممالک نے لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کا معاہدہ کیا۔
اس معاہدے کے بعد بات چیت زیادہ آگے نہیں بڑھی اور وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے واضح کردیا ہے کہ بھارت 5 اگست 2019 کا اقدام واپس لے تو باقاعدہ بات چیت شروع ہو سکتی ہے۔
پاکستان اور بھارت میں بات چیت ضرور ہونی چاہئے لیکن اس معاملے میں بہت احتیاط کی ضرورت ہے۔ فروری 2019 میں بھارت نے پاکستان پر فضائی حملہ کیا اور اس کا پائلٹ پاکستان نے گرفتار کرلیا۔ پاکستان نے خیر سگالی کے جذبے کے تحت اس پائلٹ کو رہا کردیا اور یہ اُمید کی گئی کہ اب پاک بھارت مذاکرات شروع ہو جائیں گے۔
مذاکرات تو شروع نہ ہوئے لیکن بھارت نے 5اگست 2019کو مقبوضہ جموں و کشمیر میں کرفیو لگا کر دفعہ 370 اور 35 اے ختم کردی۔ پھر پاکستان نے بھارتی جاسوس کلبھوشن جادیو کو بھی سہولتیں دیں لیکن بھارت نے مذاکرات شروع کرنے کی بجائے پیغام بھجوایا کہ کلبھوشن کو ختم کردو یا پھانسی لگا دو۔ دسمبر 2020 میں بھارت نے اچانک مذاکرات کی خواہش ظاہر کی۔
عام خیال یہ ہے کہ اس پر چین کا دباؤ ہے لیکن جوتشیوں کے مشوروں سے چلنے والی حکومت پر اعتبار نہیں کیا جا سکتا۔ لائن آف کنٹرول پر سیز فائر کے بعد سے مقبوضہ کشمیر میں بھارتی فوج کی کارروائیاں اور بلوچستان میں دہشت گردی بڑھ چکی ہے۔
کشمیریوں کو اعتماد میں لئے بغیر اور انہیں مذاکرات میں شامل کئے بغیر بھارت سے تعلقات معمول پر نہیں آسکتے۔ یہ تاثر نہ ملے کہ پاکستان مذاکرات کے نام پر سرنڈر کررہا ہے۔ کورونا وائرس کی نئی لہر سے بھی ہوشیار رہیں اور جوتشیوں کے مشوروں پر چلنے والوں کے ساتھ مذاکرات میں بھی ہوشیار رہیں۔
بشکریہ جنگ