ایک دفعہ ابوظہبی کے کراؤن پرنس شیخ محمد بن زید بن سلطان النیہان نے پاکستان کی ایک بہت طاقتور شخصیت سے کہا کہ آپ کے ہم وطن ہمارے ملک میں ہر ناممکن کو ممکن بنا دیتے ہیں اور ناقابلِ یقین کامیابیاں حاصل کرتے ہیں، کیا وجہ ہے کہ یہی پاکستانی اپنے وطن میں ایسی کامیابیاں حاصل نہیں کر پاتے؟
یہ سوال سن کر پاکستان کی طاقتور شخصیت نے مسکراتے ہوئے کہا کہ آپ اپنے ملک میں صرف ایک کراؤن پرنس ہیں، آپ کے ہر حکم کو قانون کا درجہ حاصل ہے اور آپ کی حکم عدولی کے بارے میں کوئی سوچ بھی نہیں سکتا لیکن پاکستان میں تو ہر کوئی اپنے آپ کو کراؤن پرنس سمجھتا ہے لہٰذا آپ کے حالات اور ہمارے حالات میں بہت فرق ہے۔
دوسرے الفاظ میں پاکستان کی اس اہم غیرسیاسی شخصیت نے ابوظہبی کے کراؤن پرنس کو یہ سمجھانے کی کوشش کی کہ آپ کے ملک میں بادشاہت ہے اور پاکستان میں جمہوریت ہے۔ یہ وہ فرق ہے جو ہمارے سیاسی حکمرانوں کو ابھی تک سمجھ نہیں آیا اور ان کا رول ماڈل ابھی تک سعودی عرب کے کراؤن پرنس محمد بن سلمان ہیں۔
محمد بن سلمان کا طرز حکومت سعودی عرب کیلئے بہت اچھا ہو سکتا ہے لیکن ان کے طرز حکومت کو پاکستان میں رول ماڈل نہیں بنایا جا سکتا کیونکہ پاکستان میں پارلیمانی جمہوریت ہے۔ یہاں مرکز میں تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کی حکومت بھی چلتی ہے اور سندھ میں پیپلز پارٹی کی حکومت بھی چلتی ہے۔
یہاں وزیراعظم اور وزیر قانون مل کر سپریم کورٹ کے کسی جج پر مقدمہ بنانا چاہیں تو ایف آئی اے کا سربراہ انہیں وہ آئین یاد دلاتا ہے جس کے تحت پاکستان کو چلایا جاتا ہے۔ جب وزیراعظم اور وزیر قانون اس جج کے خلاف ایک ریفرنس تیار کرکے صدر مملکت کے ذریعہ سپریم جوڈیشل کونسل کو بھیجتے ہیں تو سپریم کورٹ اس ریفرنس کو مسترد کر دیتی ہے۔ حکومت کے سیاسی مخالفین الزام لگاتے ہیں کہ وزیراعظم کے حکم پر نیب ان کے خلاف انتقامی کارروائیاں کر رہی ہے۔
نیب بار بار قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کو گرفتار کرتی ہے اور عدالتیں ہر بار شہباز شریف کو رہا کر دیتی ہیں لیکن کراؤن پرنس بننے کی خواہش کم ہونے کی بجائے بڑھتی ہی چلی جاتی ہے۔ جیسے جیسے یہ خواہش بڑھتی ہے تو پاکستان میں سیاسی کشیدگی بھی بڑھتی چلی جاتی ہے۔ ایک ایسے وقت میں جب دنیا کورونا وائرس سے لڑ رہی ہے ہم پاکستانی ایک دوسرے سے لڑ رہے ہیں۔
اس طرز فکر کے بارے میں سوچئے جس نے کورونا وائرس کے مقابلے کیلئے حکومت اور اپوزیشن کو اکٹھا کرنے کی بجائے یہ حکم دیا ہوگا کہ جاوید لطیف کو غداری کے الزام میں گرفتار کرلو۔ میڈیا میں جو بھی حکومت پر کھل کر تنقید کرے اسے گرفتار کرانے کی خواہش پاکستان کو آگے نہیں پیچھے لیکر جائے گی۔ پاکستان کسی کراؤن پرنس نے نہیں بنایا تھا بلکہ ایک سیاست دان قائداعظم محمد علی جناحؒ نے بنایا تھا۔
پاکستان کو صرف اور صرف قائداعظم کے طرز فکر کے تحت چلایا جا سکتا ہے۔ ہم پاکستان کو قائداعظمؒ کا نہیں بلکہ محمد بن سلمان کا پاکستان بنانا چاہتے ہیں۔
محمد بن سلمان ہمارا دوست ہے۔ ہم ایک دوست کے طور پر ان کی بہت قدر کرتے ہیں لیکن ہم پاکستان میں بادشاہت کو قبول نہیں کر سکتے۔ پاکستان کے مسائل کا حل نہ آمریت ہے، نہ بادشاہت ہے۔ پاکستان کے مسائل کا حل مزید جمہوریت ہے۔ پہلے ہمیں پاکستان کے مسائل حل کرنے ہیں، اس کے بعد ہی ہم دنیا کے مسائل بھی حل کر سکتے ہیں۔ ستم ظریفی دیکھئے کہ ہم پاکستان میں ایک دوسرے کےساتھ دست و گریباں ہیں لیکن کبھی سعودی عرب اور ایران کی صلح کرانے نکلتے ہیں اور کبھی افغان طالبان اور امریکہ کے درمیان مذاکرات کروا رہے ہوتے ہیں۔
افغانستان میں امن کی خواہش بہت اچھی ہے لیکن پاکستان کو یہ کردار غیرجانبداری سے ادا کرنا چاہئے۔ پاکستان کبھی افغان طالبان کا اتحادی بن جاتا ہے، کبھی امریکہ کا اور پھر ہم سنتے ہیں کہ اشرف غنی کے ساتھ معاملات طے کرنا تو بڑا آسان ہے لیکن طالبان کے ساتھ معاملات چلانا بہت مشکل ہے۔
جب سے طالبان نے استنبول کانفرنس میں شرکت سے انکار کیا ہے تو پاکستان اور دوحہ میں موجود طالبان قیادت کے درمیان تعلقات کافی متاثر ہوئے ہیں۔ افغان طالبان کا موقف ہے کہ انہوں نے امریکہ کے ساتھ طویل مذاکرات کے بعد ایک معاہدے پر دستخط کئے تھے جس کے تحت امریکہ کو یکم مئی 2021 تک افغانستان سے اپنی فوج کو نکالنا تھا لیکن بائیڈن انتظامیہ نے یکم مئی کی بجائے گیارہ ستمبر تک فوج نکالنے کا اعلان کیا ہے۔
طالبان کے خیال میں یہ ایک تحریری معاہدے کی خلاف ورزی ہے لہٰذا انہوں نے استنبول کانفرنس میں شرکت سے انکار کر دیا جو 24 اپریل سے شروع ہونے والی تھی۔ اس کانفرنس کا مقصد طالبان کو ایک مخلوط حکومت میں شرکت پر راضی کرنا تھا۔
طالبان کا خیال ہے کہ وہ پچھلے اکیس سال سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کے خلاف اس لئے مزاحمت نہیں کر رہے تھے کہ آخر میں انہیں ایک مخلوط حکومت میں شامل ہونا ہے، وہ سب کو ساتھ لےکر چلنے کیلئے تیار ہیں لیکن وہ اپنی حکومت قائم کرنا چاہتے ہیں۔ ان کی طرف سے غیرلچکدار رویہ غیرمتوقع نہیں ہے۔
پاکستان نے گیارہ ستمبر 2001 کے بعد جب طالبان کے بارے میں پالیسی تبدیل کی تو افغان سفیر ملا عبدالسلام ضعیف کو برہنہ کرکے امریکہ کے حوالے کیا گیا۔ ملا ضعیف نے کئی سال امریکی قید میں گزارے اور رہائی کے بعد ایک کتاب لکھی جس میں کہا کہ پاکستان کے طاقتور اداروں پر کبھی اعتبار نہ کیا جائے۔
پاکستان نے 2018 میں طالبان رہنما ملا عبدالغنی برادر کو آٹھ سال کی قید کے بعد رہا کیا اور یہ توقع کر لی کہ یہ قیدی اب امریکہ کے ساتھ مذاکرات کرے گا اور امریکہ کی شرائط پر افغانستان میں امن قائم کرائے گا۔ پاکستان کو طالبان کا ’’گاڈ فادر‘‘ بننے سے گریز کرنا چاہئے تھا۔
پاکستان کے اہل اختیار نہ طالبان کے گاڈ فادر بن سکے اور نہ پاکستانیوں کے کراؤن پرنس بن سکے۔ اب طالبان سے کہا جا رہا ہے کہ امن مذاکرات میں واپس آئو ورنہ ہم سے برا کوئی نہ ہوگا۔ وہ جواب میں کہتے ہیں کہ ہم سپرپاور کی دھمکیوں میں نہیں آئے تو آپ کی دھمکی میں بھی نہیں آئیں گے۔ ہمیں طالبان کو شہباز شریف، آصف زرداری اور جہانگیر ترین نہیں سمجھنا چاہئے کہ دو چار مقدمے بنائو، جیل بھیجو اور سب ٹھیک ہو جائے گا۔
کراؤن پرنس بن کر آپ اپنی اپوزیشن کو نہیں سنبھال سکتے تو طالبان کو کیسے سنبھالیں گے؟ لہٰذا ہاتھ جوڑ کر گزارش ہے کہ کراؤن پرنس بننے کی کوشش نہ کریں، پاکستان کے مسائل جمہوری انداز میں حل کریں، صرف طالبان ہی نہیں پورے افغانستان کیلئے رول ماڈل بننے کی کوشش کریں۔