خوراک کے ضیاع کو کیسے روکیں

چین بہ سے بہترین کی پالیسی پر گامزن رہتے ہوئے تمام شعبوں میں اصلاحات اور بہتری کی مسلسل کوششیں کررہاہے ۔ تجارت سے لے کر ماحولیات تک بیرونی دنیا کے ساتھ تعلقات سے لے کر عوامی زندگی تک تمام میدانوں کو مثالی بنانے کیلئے جہد مسسلسل جاری ہے ۔ صدر شی جن پھنگ شجرکاری اور ماحول کو بہتر بنانے کی مہم کی خود قیادت کررہے ہیں ، ملک سے انتہائی غربت کے مکمل خاتمے کے مشن کو کامیابی کے ساتھ مکمل کرلیاگیاہے ۔ وبا پر نہ صرف مو ثر انداز میں قابو پالیاگیاہے بلکہ ایسے اقدامات اختیار کیے گئے ہیں کہ وبا بڑے پیمانے پر دوبارہ نمودار نہ ہو ، مواصلات کو وقت کے ساتھ ساتھ مزید باسہولت اور جدید بنایا جارہاہے اور بدعنوانی کیخلاف قوانین سخت کیے جارہے ہیں ۔ اس کے ساتھ ساتھ عوام کی زندگی میں نظم لانے کیلئے مختلف اقدامات اٹھائے جارہے ہیں۔ اب کھانے کے ضیاع کو روکنے کیلئے ایک نیا قانون نافذ کردیاگیاہے۔

اس قانون کے تحت ایسے افراد کو سز ا دی جائے گی جو کھانا ضائع کرتے ہیں۔ اس کے علاوہ وہ کیٹرنگ سروسز جو صارفین کو زیادہ کھانے کے آرڈر کیلئے گمراہ کرتے ہیں اور وہ افراد جو ضرورت سے زیادہ کھانے کی ویڈیو بناتے ہیں بھی قانون کی گرفت میں آئیں گے۔اشیائے خوردونوش کے ضیاع کو روکنے سے متعلق قانون میں کہا گیا ہے کہ ایسے ریسٹورانوں کو دس ہزار یوآن تک جرمانے کا سامنا کرنا پڑے گا جو صارفین کو ضرورت سے زیادہ کھانا آرڈر کرنے کیلئے گمراہ کرتے ہیں ، کھانا ضائع کرتے ہیں اور مارکیٹ کی نگران ایجنسیوں کے انتباہ کے باوجود مسئلے کو سدھارنے سے انکار کرتے ہیں۔ قانوان میں کھانے سے متعلق پروگراموں یا ویڈیوز پر پابندی کو واضح کرتے ہوئے کہا گیا ہے کہ ایسے خلاف ورزی کرنے والے جو سائبر اسپیس انتظامیہ کی یاد دہانی کے باوجود اپنے طرز عمل کو درست نہیں کرتے پر ایک لاکھ یوآن تک جرمانہ عائد کیا جائے گا۔

حکومتوں کو یہ بھی ہدایت کی گئی ہے کہ وہ اپنی نگرانی کی ذمہ داری کو احسن طریقے سے ادا کریں۔ نہ صرف عوامی سطح پر پیش کیے جانے والے کھانوں پر توجہ دیں ، بلکہ کھانے پینے کے سامان فراہم کرنے والوں ، ریستورانوں ، کینٹینوں ، اسکولوں ، سیاحتی آپریٹرز ، بازاروں اور شاپنگ مالز کے طرز عمل کو بھی قائدے کے مطابق بنائیں۔

یاد رہے نیشنل پیپلز کانگریس ، چین کی اعلی قانون ساز اسمبلی کی قائمہ کمیٹی نے ۳۲ آرٹیکل پر مشتمل قانون کو دو جائزوں کے بعد منظور کیا ، جس کے بعد یہ فوری طور پر نافذالعمل ہوگیا۔این پی سی کی قائمہ کمیٹی کے قانون سازی امور کمیشن کے ایک عہدیدار ، یوان جی نے کہا کہ سخت سزائیں اور کھڑی نگرانی اس قانون کا اہم حصہ ہے ، جس کا مقصد اس مسئلے پر قابو پانا ہے ۔یاد رہے کہ صدر شی جن پھنگ 2012 میں چین کی کمیونسٹ پارٹی کی 18 ویں قومی کانگریس کے بعد سے کھانے کے ضیاع کو روکنے کی ضرورت پر زور دیتے چلے آرہے ہیں۔پچھلے سال اگست میں ، شی جن پھنگ نے کھانے کے ضیاع کو روکنے کیلئے قانون سازی کو بہتر بنانے ، نگرانی کو مستحکم کرنے اور موثر اقدامات کے ذریعے طویل مدتی حل پر زور دیا تھا۔

قانون کے نفاذ کے سلسلے میں کاؤنٹی سطح سے اوپر کی حکومتیں عوام کی کھانے کے ضیا کو روکنے میں رہنمائی کریں گی ۔ امید کی جارہی ہے کہ قانون ایک صحت مند ، معقول اور سبز طرز زندگی میں مدد گار ثابت ہوگا۔چین کی بنیادی روایتی قدر کی حیثیت سے کھانے پینے کے ضیاع کی روک تھام کو نہ صرف آئین میں شامل کیا گیا ہے بلکہ اس سال کے آغاز میں نافذ ہونے والے شہری ضابطہ اخلاق کا بھی حصہ بنایا گیاہے۔

اس قانوں کے پس منظر پر نظر ڈالتے ہوئے سنہ 2014 میں ، مرکزی حکام نے اسراف اور عوامی فنڈز کے ناجائز استعمال کے خلاف وسیع تر کوششوں کے ایک حصے کے طور پر سرکاری استقبالیوں، ضیافتوں ، آفس کینٹینوں اور ریستورانوں میں خوراک کے ضیاع کو روکنے سے متعلق ایک رہنما اصول جاری کیا تھا۔

اسلامی تعلیمات میں بھی کھانے کے ضیاع اور رزق کی ناقدری سے روکا گیاہے ۔ چین کے اس طرح کے قوانین بنیادی انسانی اخلاقی قدروں کی نمائندگی کرتے ہیں اس سے نہ صرف خوارک کے وسائل کی بچت ہوگی بلکہ صحت پر ضرورت سے زیادہ کھانے کے نقصانات سے بچاجا سکے گا ۔ ہمیں بھی اس طرف توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ یہ قانون پاکستان سمیت کھانے کا ضیاع کرنے والے تمام ممالک کو نہ صرف بہترین رہنمائی فراہم کرسکتاہے بلکہ اس کے نفاذ کے دوران چین کے قیمتی تجربات سے استفادہ بھی کیا جاسکتا ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے