چانئا میڈیا گروپ نے چائنا ریڈیو انٹرنیشنل کے ایشیا افریقہ ڈویژن کے دس شعبوں یعنی دس زبانوں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کیلئے چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کا براہ راست مشاہدہ کرنے کیلئے ۱۹ تا ۲۶ جون صحافتی دورے کا اہتما م کیا ۔اس صحافتی وفد میں میرے علاوہ بنگلہ دیش، بھارت، افغانستان، نیپال،جاپان، ایران، تنزانیہ، نائجیریا اور تھائی لینڈ کے صحافی شامل تھے۔ اس دوران ان صحافیوں نے سنکیانگ کے مختلف علاقوں کادورہ کیا اور وہاں کی تاریخ موجودہ حالات ، ثقافت، لوگوں کے معیار زندگی اور روزگار کی حالت ، مقامی ثقافتوں اور لوگوں کے رسم ورواج ، طرز حکمرانی، ترقی کی حالت ،مذھبی آزادی، ماحول کے تحفظ ، سیا حت ،انفراسٹرکچر اور دیگر حقائق کا مشاہدہ اور جائزہ لیا ۔ اپنے تاثرات اور مشاہدات آپ کو مضا مین کے اس سلسلے کے زریعے پہنچانے کی کوشش کررہاہوں۔ آج سنکیانگ کے بارے میں میرا دوسرا مضمون پیش خدمت ہے۔
چین کے سنکیانگ ویغور خود اختیار علاقے کا قزاق خود اختیار پریفیکچر ییلی اپنے قدرتی حسن اور نظاروں کے لیے پورے چین اور سنکیانگ میں مشہور ہے۔یہاں سیاحت کی صنعت کو فروغ دیا گیا ہے جس سے مقامی لوگوں کو روزگار ملا ہے اوران کی آمدنی میں خوب اضافہ ہواہے۔ سیاحت کیلئے حسین وادیوں میں سیاحوں کے قیام کے لیے ہوٹلز کے بجائے قزاق طرز کے خیمے اور اقام گاہیں بنائی گئی ہیں جن میں قزاق روایتی کھانے پیش کیے جاتے ہیں۔
یہاں سیاحوں کیلئے بڑا دلچسپ ماڈل متعارف کرایا گیا ہے یہاں کے مقامی لوگ زیادہ تر گلہ بانی کرتے تھے اور ان کی آمدنی بہت کم تھی ۔ اسکے علاوہ سخت موسم اور حالات کی وجہ سے بھی ان کا روزگار متاثر ہورہا تھا ۔یہاں کے لوگوں کی آمدنی بڑھانے کیلئے اور سیاحوں کے قدرتی ماحول سے زیادہ قریب سے لطف اٹھانے کیلئے اور مقامی ثقافت کا تجربہ حاصل کرنے کیلئے ان ہوٹل کا قیام عمل میں لا یا گیا ہے ۔ ان اقام گاہوں کو بی اینڈ بی یعنی بیڈ اینڈ بریک فاسٹ کہا جاتا ہے جہاں سیاح رات کو قیام کرتے ہیں اور انہیں ناشتہ بھی فراہم کیا جاتاہے ۔اس علاقے میں مقامی حکومت نے اس طرز کے ہوٹل چلانے کیلئے 85 مرتبہ تربیتی کورسز کا انعقاد کیا ہے اور ساتھ 10 کوآپریٹوز بنائے ہیں جو بی اینڈ بی خدمات ، گھڑ سواری اور کڑھائی سے متعلق ہیں۔ آمدنی بڑھانے کے ذریعہ ، مقامی حکومت نے ایک مقامی ثقافت مرکز اور یلی یون ژؤ لی ٹورازم ڈویلپمنٹ کارپوریشن بھی قائم کیا ہے۔
یرشان گاوں میں اسی طرح کی اقام گاہ چلانے والے شالیق نے ہمیں بتایا کہ وہ گاوں میں رہتے تھے جہاں حلات مشکل تھے اور موسم کی بھی غیر یقینی صورتحال تھی وہ بھیڑ چراتے تھے ۔ انہو ں ںے کہا کہ اس وقت آمدنی بہت کم تھی اور حالات زندگی بھی اچھے نہیں تھے انہوں نے کہا کہ سیاح مئی سے آنا شروع ہوجاتےہیں اور اکتوبر تک آتے رہتے ہیں انہوں نے کہا کہ اس سے ان کی آمدنی میں خوب اضافہ ہوا ہے اور اب وہ اور اس کے خاندان والے اچھی زندگی گزار رہے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ سردیوں میں برف باری اور ٹھنڈے موسم کی وجہ سے ہم یہ ہوٹل بند کردیتے ہیں اور واپس اپنے گاوں میں چلے جاتے ہیں۔ اور جب موسم کھلتاہے تو دوبارہ ان ہوٹل کو چلانا شروع کردیتے ہیں۔اس علاقے میں یہ ماڈل عام ہے ۔ جب سیاحت کا سیزن عروج پر ہوتاہے ہے تو سیاحوں کو کمرے ملنا مشکل ہوجاتاہے۔لوگ پہلے سے آن لائن بی اینڈ بی سروس کا اہتمام کرتے ہیں۔ ان خیموں میں روایتی کھانوں کے ساتھ ساتھ یہاں کے مقامی فنکار روایتی موسیقی بھی پیش کرتے ہیں ۔ اس طرح سیاحوں کو قزاق ثقافت کو دیکھنے اور تجربہ حاصل کرنے کا بھر پور موقع ملتاہے ۔
انٹرنیٹ پلس کے کاروباری نمونہ سے روزگار سے مقامی بی اینڈ بی سروس بزنس کو ترقی دی گئی ہے ۔ ہم نے ایک گاوں یرشان کا دورہ کیا جہاں اب 1500 رہائشی سیاحت سے وابستہ مختلف کاروبار میں مشغول ہیں ، ان میں سے 300 بی اینڈ بی کا کاروبار کر رہے ہیں۔ اس اقدام سے فالتو مزدور قوت اور غربت زدہ گھرانوں کے روزگار کے مسائل کامیابی کے ساتھ حل کیا گیا ہے اور اس طرح یہاں کے دیہاتوں میں رہنے والوں کو سیاحت کی صنعت سے خاطر خواہ فائدہ پہنچ رہا ہے ۔
پاکستان کے شمالی علاقوں میں حکومتی سرپرستی کے ساتھ یا اس کے بغیر مقامی کواپریٹیوز بنا کر اس ماڈل کو ا پنا یا جاسکتاہے۔جس سے مقامی روزگار اور سیاحت کو فروغ مل سکتاہے ۔