کرونا سے متاثرہ ٹرانس جینڈرز کیلئے خدمات سرانجام دینے والی صاحبہ جہاں

کرونا وائرس نے جہاں دیگرشعبہ ہائے زندگی کی طرح پاکستان بھر کے ٹرانس جینڈرز بالخصوص جنوبی پنجاب کے ٹرانس جینڈر کو بھی بری طرح متاثر کیاہے۔ گورنمنٹ آف پاکستان کی ویب سائٹ کے مطابق 3ستمبر2021ء تک پاکستان میں ایک کروڑ 79لاکھ 31ہزار 365افراد کے کرونا ٹیسٹ کئے گئے جن میں سے 11لاکھ 71ہزار 587افراد میں کرونا ٹیسٹ پازیٹو آئے،10لاکھ 55ہزار 467افراد کا کرونا ٹیسٹ نیگیٹو آیاجبکہ 26ہزار 11افراد کرونا کی وجہ سے زندگی کی بازی ہار گئے۔ 5606افراد کی حالت تشویش ناک ہے۔ٹرانس جینڈرز چونکہ عمومااپنی شناخت چھپاتے ہیں، انکے شناختی کارڈ بھی زیادہ تر اُن کے اصلی ناموں سے بنے ہوئے ہیں اور وہ معاشرے میں اُنہیں اپنے منتخب کردہ مخصوص ناموں سے پہچانا جاتاہے اِس لئے ابھی تک ٹرانس جینڈرز کا علیحدہ سے حکومتی سطح پر یا محکمہ صحت کے پاس کوئی مستند ڈیٹا نہیں ہے لیکن یہ بھی بات واضح ہے کہ ملک بھر میں کرونا سے ٹرانس جینڈرز بھی بری طرح متاثر ہوئے ہیں۔ COVID-19کی وباء کے دوران جہاں فرنٹ لائن پر ڈاکٹرز،نرسز نے فرنٹ لائن پر بہترین خدمات دی ہیں وہاں دیگر شعبوں سے تعلق رکھنے والے افراد کے علاوہ ٹرانس جینڈرز کی کردار بھی کرونا سے متاثرین کی امداد کے حوالے سے قابل تحسین ہے۔

صاحبہ جہاں کاجنوبی پنجاب کی ٹرانس جینڈرز کمیونٹی کی چند ایک بڑی گرو میں شمارہوتاہے۔ کرونا وائرس کے دوران صاحبہ جہاں نے جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع بہاولپور، بہاولنگر، رحیم یارخان، ملتان، مظفر گڑھ، وہاڑی، لیہ، راجن پور، خانیوال اور دیگر علاقوں میں کرونا سے متاثرہ ٹرانس جینڈرز کے لئے بلا شبہ ایک فرنٹ لائن ٹرانس جینڈر کے طورپر اپنا بھرپور کردار ادا کیا۔ صاحبہ جہاں نے انٹرویو کے دوران بتایا کہ کرونا نے جہاں دیگر شعبہ ہائے زندگی کومتاثر کیاوہیں شادی ہالز اور ریسٹورانٹس بند ہوگئے، شادی کی بیاہ کی تقریبات محدود ہوگئیں۔ کرونا کے خوف اکثر لوگوں نے شادی بیاہ کے فنگشن محدود کردئیے جس کا بہت بڑا نقصان ٹرانس جینڈرز کو بھی اٹھانا پڑا۔ کئی سالوں کی جمع پونجی ایک دو ماہ میں ہی ختم ہوگئی۔ کرونا کی لہر کے دوران بہت زیادہ خوف کا عالم تھا ہمارے لوگ یعنی ٹرانس جینڈرز اپنے ڈیروں یا کرائے پر لئے ہوئے گھروں میں محدود ہوکر رہ گئے۔ اکثر ٹرانس جینڈرز کرونا کا ٹیسٹ کرانے سے ڈرتے تھے کہ کہیں اُن کا کرونا ٹیسٹ پازیٹو آگیا تو ڈیرے پر موجود تمام چیلوں اور گرو کو محکمہ صحت والے اُٹھا کر لے جائیں گے۔ صاحبہ جہاں نے بتایا کہ اِس مشکل وقت میں وہ مختلف ٹرانس جینڈرز کے گروؤں کے گھر گئیں اور انہیں اعتماد میں لیکر کر بہت سے ٹرانس جینڈرز کو سمجھایا کہ وہ کرونا کا ٹیسٹ کروائیں تاکہ بروقت علاج معالجہ کی سہولت انہیں جو کہ حکومتی سطح پر دستیاب ہے وہ مل سکے۔ اِس طرح مختلف ٹرانس جینڈرز کے ٹیسٹ کروائے۔ چند ایک کے ٹیسٹ پازیٹو آئے تو محکمہ صحت کے افسران کے ساتھ مل کر اُس گھر یا ڈیرے پر موجود باقی ٹرانس جینڈرز کے ٹیسٹ کروائے۔

کرونا کے دنوں میں ٹرانس جینڈرز کے لئے سب سے بڑا معاشی مسئلہ تھا۔ اُن کے پاس کھانے پینے اور روزمرہ ضروریات کے لئے پیسے تک نہیں تھے۔ صاحبہ جہاں نے اپنے انٹرویو میں بتایا کہ اللہ کا دیا ہوا میرے پاس بہت کچھ ہے۔ میں نے کرونا کی پہلی اور دوسری لہر میں اپنی مدد آپ کے تحت اپنے چیلوں کے ساتھ لے کر مختلف علاقوں میں آباد ٹرانس جینڈرز کو راشن جس میں آٹا، گھی، چینی، دالیں وغیرہ شامل تھیں وہ پہنچایا تاکہ وہ اس مشکل وقت میں ٹرانس جینڈرز خود کو تنہا نہ سمجھیں۔ کرونا کی تیسری اور چوتھی لہر کے دوران محکمہ سوشل ویلفیئر اور مخیر حضرات کے تعاون سے مختلف اضلاع کے ٹرانس جینڈرز کے لئے نہ صرف کھانے پینے کی اشیاء فراہم کیں بلکہ انہیں ادویات بھی فراہم کی گئیں۔ اس کے علاوہ مختلف علاقوں میں گروؤں کو ملا کر ہر ہفتے کی ادویات اور محکمہ صحت کے تعاون سے چند ایک مقامات پر ٹرانس جینڈرز کے COVID-19 ٹیسٹ کروائے گئے۔ اکثر ٹرانس جینڈرز نے کرونا وائرس کی پہلی لہر کے دوران ہی اپنے آپ کو اپنے گھروں تک ہی محدود کرلیا تھا جس کی وجہ سے بہت کم تعداد میں ٹرانس جینڈرز کے کرونا ٹیسٹ پازیٹو آئے اور الحمداللہ حکومت کے تعاون سے اُنہیں علاج معالجہ کی بہترین سہولتیں ملیں اور وہ جلد صحت یاب ہوگئے۔ صاحبہ جہاں نے کہا کہ میں کرونا کے دنوں میں جنوبی پنجاب کے مختلف اضلاع میں کرونا کے حوالے سے علاج معالجہ، کرونا ٹیسٹ اور راشن کی تقسیم کا کام کیا۔ کافی تعداد میں ٹرانس جینڈرز کی کرونا ویکسی نیشن بھی کرائی اور سچی بات ہے مجھے یہ سب کرکے دِلی طورپر اطمینان کا احساس ہوا۔

کرونا وائرس کے دِنوں میں جہاں ساری دنیا کانظام درہم برہم ہوکر رہ گیا ٹرانس جینڈر گروصاحبہ جہاں کا کردار نہ صرف قابل تحسین ہے بلکہ قابل تقلید بھی ہے۔ صاحبہ جہاں کو دیکھ کر دوسرے ٹرانس جینڈرز میں بھی یہ احساس زور پکڑ رہاہے کہ مشکل وقت میں وہ سب ایک دوسرے کی مدد کو اپنی زندگی کا اولین مقصد سمجھیں گے تاکہ کوئی خود کو تنہا اور بے سہارا نہ سمجھے بلکہ اتفاق و اتحاد کیساتھ ہرایک دوسرے کامضبوط سہارا بن کر زندگی میں امید کی کرن ثابت ہوسکے۔

(یہ مضمون اکاؤنٹیبلٹی لیب کے کرونا وائرس سوایکٹس مہم کا حصہ ہے، اکاؤنٹیبلٹی لیب کا مضمون نگار کی آراء سے متفق ہونا ضروری نہیں)

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے