برتر احساس رکھنے والی اکثریت کے ساتھ اقلیت کیسے رہے؟

اقلیتیں ایک ایسی اکثریت کے ساتھ رہتی ہیں جو احساسِ برتری کے جذبات رکھتی ہے.

پاکستان میں مذہبی اقلیتوں کے مسائل کے پر بات کرنے سے پہلے مردم شماری کے اعدادوشمار آپ کے سامنے رکھنا چاہتا ہوں۔ 1998 کی مردم شماری کے مطابق ملک میں 3.7 فیصد مذہبی اقلیتیں بستی ہیں۔ جن میں ہندو، مسیحی، بہائی، پارسی، احمدی اور یہودی شامل ہیں۔ ان میں سے کئی مذاہب کی اس سرزمین سے جڑی ایک مکمل تاریخ ہے جس کی وجہ سے ان مذاہب کے ماننے والوں کا پاکستان کے ساتھ عقیدت کا تعلق بھی ہے۔

آئین میں اقلیتوں کے حقوق پر کلام موجود ہے۔ اس میں کئی آرٹیکلز اقلیتوں کو درپیش مسائل کے بارے میں ہیں جن میں سے بعض کا تعلق بالعموم انسانی حقوق سے ہے جبکہ 36 آرٹیکلز ایسے ہیں جو اقلیتوں کے مخصوص حقوق کے بارے میں ہیں۔ اکثریتی مذہب اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے بھی شقیں الگ سے مذکور ہیں۔ مسلمان کی تعریف بھی بیان کی گئی ہے۔ اسلام کو سرکاری مذہب اور نظریہ اسلام کو نظریہ پاکستان کہا گیا ہے ۔اس کے علاوہ بھی کئی حوالوں سے بات کی گئی ہے۔ اس آئین کا مسلم وغیرمسلم دونوں حلف اٹھاتے ہیں۔ آئین مذاہب اور فرقوں کو قانونی طور پر تسلیم کرتا ہے حالانکہ آئین کا یہ کام نہیں کہ وہ شہریوں کے عقائد بتائے۔

اقلیتوں کو درپیش مسائل کے حوالے سے بات کی جائے تو سب سے پہلی بات یہ ہے کہ یہاں اقلیتیں ایک ایسی اکثریت کے ساتھ رہتی ہیں جو احساسِ برتری کے جذبات رکھتی ہے۔ وہ اپنی ذات کو حقیقت میں بالا اور بہتر خیال کرتی ہے۔ اس کے ساتھ ریاست کا رویہ بھی برتری کا ہے کہ وہ بھی اقلیت کی اصطلاح کے مفہوم سے آگے جاکر اس طبقے کو حقوق میں بھی اقلیت سمجھ بیٹھتی ہے۔ ریاست کئی بار کہتی ہے کہ ہمیں ہزاروں کلومیٹر دور بستے فلسطینیوں اور کشمیریوں کے حقوق کا علم ہے لیکن کس قدر افسوس کی بات ہے کہ اسے ریاست کے اندر موجود ایک طبقے کے مسائل کا علم نہیں ہوتا۔

بلاشبہ ملک میں کئی دیگر طبقات بھی ہیں جنہیں مسائل کا سامنا ہے لیکن مذہبی اقلیتوں کے مسائل زیادہ گھمبیر اور حل طلب ہیں۔

یہ تو اکثریت اور اقلیت کا تناظر ہے جبکہ اقلیت کے اندر بھی کچھ اقلیتیں ہیں جو الجھن کا شکار ہیں۔ مثال کے طور پر کچھ عرصہ قبل ایکسپریس ٹربیون میں بجلی کے نرخ بڑھنے کے پس منظر میں ایک کارٹونسٹ نے کارٹون بنایا جس میں ایک شخص صلیب پر لٹکا دکھایا گیا ہے۔ ہمارے ایک دوست نے اس پر اعتراض کیا کہ اس میں مسیحیت کی مذہبی علامت صلیب نہیں ہونی چاہیے تھی۔ حالانکہ پوری دنیا میں یہ رواج ہے کہ ظلم کی عکاسی کرنے کے لیے صلیب کا استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے ہی بہت سارے مسیحی ایسے ہیں جو اکثریت کی طرح اپنے تمام مسائل میں مذہبی حوالہ تلاش کرنے کی کوشش میں لگے رہتے ہیں۔ یہ دراصل ان میں موجود احساس کمتری کا اظہار ہے جو سماجی ناہمواری کو جنم دیتا ہے۔

اقلیتوں کے اندر اجنبیت کا احساس بھی زور پکڑ رہا ہے۔ وہ سماج میں جڑنے کی بجائے اس سے کٹتے جارہے ہیں۔ یہ لوگ اپنے لیے اور ریاست کے لیے بھی مسائل میں اضافے کا باعث بن سکتے ہیں۔ اگر یہ طبقہ اپنے حقوق کے لیے آواز نہیں اٹھائے گا اور توانائی محسوس نہیں کرے گا تو ریاست کے لیے بھی مسائل پیدا کرنے کا باعث بنے گا۔ جب اقلیت اتنی زیادہ کمزور ہوجائے گی تو ریاستی اصلاحات کی متحمل بھی نہیں رہے گی۔

اقلیت کے اندر بھی کچھ اقلیتیں ہیں جو الجھن کا شکار ہیں

جبری بے گار(forced labour) اگرچہ ملک کا عموی مسئلہ ہے۔ بچوں سے کام لینا اور مزدوری کرانا غیرقانونی ہے۔ اس مسئلے کا سامنا بلاتفریق سب کو ہے لیکن جب کوئی مزدور اقلیت سے ہو تو پھر مشکلات مزید بڑھ جاتی ہیں۔ اجتماعی جائیدادوں کے مسائل بھی ہیں۔ ایسی جائیدادیں جو مذہبی اقلیتوں کی تھیں، ان کا بہتر تحفظ ممکن نہیں بنایا جاتا، بالخصوص عبادت گاہیں وغیرہ۔ اقلیتیں خواندگی میں بھی پیچھے ہیں۔ آزادی کے بعد مسیحی برادری ملک کی بڑی تعلیم یافتہ کمیونٹی تھی لیکن 1998کے اعداد و شمار کے مطابق پتہ چلا ہے کہ اس کمیونٹی میں محض ایک تہائی مسیحی تعلیم یافتہ ہیں، جبکہ ہندو اس سے بھی کم، صرف ایک چوتھائی پڑھے لکھے ہیں۔

نصاب میں باقاعدہ نفرت پر مبنی مواد موجود ہے۔ اخلاقیات کا اختیاری مضمون شاملِ نصاب ہونے کے باوجود اقلیتوں کو اسلامیات پڑھائی جاتی ہے۔ مسلم طلبہ کو حفظِ قرآن کے اضافی نمبر دیے جاتے ہیں جن سے غیرمسلم طلبہ محروم رہتے ہیں۔ اہانتِ مذہب کی تلوار ہمیشہ ان پر لٹک رہی ہوتی ہے۔ بلوچستان کے ہندو ہجرت کرکے سندھ کی طرف چلے گئے ہیں۔ ایک وقت تھا کہ خیبر پختونخوا میں طالبان نے سکھوں سے جزیہ لینا شروع کردیا تھا۔ ریاست اقلیتوں کو بہتر تحفظ دینے میں کامیاب نہیں ہوسکی۔ ریاست کو مذہب کا استعمال نہیں کرنا چاہیے۔ کچھ عرصہ قبل میں نے بھارت، پاکستان اور بنگلہ دیش کے سماج کا مذہبی مطالعہ کیا تھا جس میں واضح ہوا کہ ان تینوں کے ہاں مذہبی حالت ایک جیسی ہے حالانکہ ان کا ریاستی ڈھانچہ مختلف ہے۔

اقلیت کو ہر طرح کا تحفظ دینا ریاست کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ 1987 سے 2017 تک اہانتِ مذہب کے 1549 مقدمات رپورٹ ہوئے۔ ان میں سے 1138 پنجاب میں رپورٹ ہوئے، بلوچستان اور گلگت میں سب سے کم شرح رہی۔ اور جو لوگ مارے گئے ان میں 39 مسلمان تھے، 23 مسیحی، 2 ہندو مذہب سے تعلق رکھتے تھے جبکہ 2 کا مذہب معلوم نہیں ہوسکا۔

اس ساری صورت حال کو سامنے رکھتے ہوئے ضروری ہے کہ ایک ایسا جمہوری وتکثیریت پسند معاشرہ تشکیل دیا جائے جس میں ان انسانی حقوق کا تحفظ ہو اور اقلیتوں کو مکمل تحفظ ملے۔ فوری طور پر ایسے اقدامات کرنے کی ضرورت ہے جن سے مسائل کے حل کی طرف بڑھا جاسکے۔ ایک تجویز جسے سپریم کورٹ کی تائید بھی حاصل ہے، وہ یہ کہ ملک میں ’نیشنل کونسل فار مناریٹیز‘ قائم کی جائے تاکہ ریاستی امور میں جس طبقے کی نمائندگی نہیں ان کے مسائل مضبوط طریقے سے حل کیے جاسکیں۔

اس کے علاوہ یہ کہ کچھ اچھے اقدامات بھی عمل میں لائے گئے ہیں جیساکہ اقلیت کو تعلیمی اسکالرشپ دی جارہی ہے، دہشت گردی کے متأثرین کو امداد ملی ہے۔ تاہم ابھی بھی مزید اقدامات کی ضرورت باقی ہے تاکہ ان کی مشکلات کو کم کیا جاسکے۔

پیٹر جیکب (’سنٹر فار سوشل اسٹڈیز‘ کے ڈائریکٹر اور سماجی کارکن ہیں۔ نوٹرے ڈیم یونیورسٹی سے ہیومن رائٹس لا ءمیں ایل ایل ایم کیا ہے)

بشکریہ : تجزیات

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے