2017 کی مردم شماری کے مطابق عیسائیت پاکستان کا تیسرا بڑا مذہب ہے- آبادی کے لحاظ سے صوبہ پنجاب میں تقریبا 1.88 فیصد ,سندھ میں 0.85 فیصد, پاکستان کے دارالحکومت اسلام آباد میں 4.34 فیصد, خیبر پختونخواہ میں 0.15 فیصد, بلوچستان میں 0.27 فیصد جبکہ نادرا ریکارڈ کے مطابق گلگت بلتستان میں مسیحی برادری سے تعلق رکھنے والے افراد کی تعداد صرف 284 ہے جو عرصہ دراز سے یہاں رہائش پذیر ہیں۔ پاکستان میں اقلیتوں کے حقوق کے لیے موجود قوانین پر عمل درآمد نہ ہونے کے باعث اقلیتیوں کے حقوق کی پامالی کے واقعات آئے روز دیکھنے کو ملتے ہیں ایسی ہی کچھ پامالیاں گلگت میں دیکھی گئیں جن کا ذکر گلگت میں موجود مسیحی برادی کی زبانی بتایا جا رہا ہے۔
گلگت میں مسیحی برادری کو درپیش مسائل:
پادری نثار رحمت مسیح جوٹیال گلگت میں رہتے ہیں اور وہ شیخوپورہ سے آ کر یہاں آباد ہوئے ہیں- نثار کا خاندان 1988 میں گلگت منتقل ہوا اور ان کے والد تیس سال تک گلگت سرینا ہوٹل میں اپنے خدمات سرانجام دیتے رہے نثار نے پاسٹر کا کورس کیا اور پھر گلگت بلتستان میں کرسچن کمیونٹی کے لیے خدمات سرانجام دینے لگے۔اس لئے وہی یہی کے ہو کر رہ گئے- نثار مسیح چرچ نہ ہونے کے باعث سونیکوٹ گلگت میں ایک عام گھر کو عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرتے رہے۔
جہاںکرسچن کمیونٹی کئی مشکلات کا شکار رہی ہیں اور پھر مقامی آبادی نے بھی گھر خالی کرنے کا حکم دے دیا گیا۔ اس کے بعد ان کو کوئی ایسی جگہ میسر نہ آ سکی جہاں کرسچن کمیونٹی کے لوگ اپنی عبادات کر سکتے- نثار کے مطابق گلگت میں کرسچن کمیونٹی معاشی طور پر اتنی مستحکم نہیں تھی کہ وہ چرچ تعمیر کر سکتے اور اپنی عبادات ادا کرتے۔ ان مسائل کو دیکھتے ہوئے نثار مسیح پنجاب آ گئے لیکن تین سال بعد ہی وہ واپس گلگت چلے گئے۔
گلگت بیوٹیفل چرچ کے قیام میں درپیش مسائل:
مسیحی برادری کیلئے باقاعدہ چرچ کے قیام کے لیے زمین خریدنا اور چرچ تعمیر بڑا چیلنج ثابت ہوا۔ گلگت سکوار کے مقام پر مسیحی برادری نے چرچ کیلئے زمین خریدتے وقت معلوم ہوا کہ یہاں جرگہ اس بات کا فیصؒہ کرتا ہے کہ آیا آیا غیر مسلموں کو عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے زمین دینی ہے یا نہیں؟
نثار مسیح کے مطابق ہر چھ ماہ یا سال کے بعد جرگہ کے کچھ تحفظات سامنے آتے تاہم کئی سال کی کوششوں کے بعد مسیحی برادری چرچ کیلئے زمین خریدنے میں کامیاب ہوئی اور چرچ کی تعمیر کا آغاز ہوا تاہم نثار مسیح کے مطابق مقامی آبادی کے ساتھ ان کے تعلقات بہت اچھے ہیں لیکن جرگہ اور حکومتی ادارے اس معاملے میں سست دکھائی دیتے ہیں-
حکومت کی طرف سےاین او سی کا معاملہ:
زمین کی خرید اور انتقال کے بعد چرچ کی تعمیر بھی مکمل ہو چکی ہے لیکن تاحال اس چرچ کو ضلعی انتظامیہ کی جانب سے عبادت گاہ کے طور پر استعمال کرنے کی این او سی جاری نہ ہو سکا نثار مسیح کے مطابق انہوں نے گلگت ضلعی انتظامیہ کو این او سی کے لیے درخواست دی لیکن تمام تر لوازمات پورے ہونے کے باوجود تاحال این او سی جاری نہ ہو سکا۔
نثار مسیح کا کہنا ہے کہ سکور میں مقیم تمام مسیحی برادری ڈپٹی کمشنر گلگت سے مطالبہ ہے کہ ہمیں ہماری عبادت گاہ کی تعمیر کیلئے این اوسی بھی فراہم کی جائے تاکہ وہ اپنے مذہبی رسومات کی ادائیگی کے عمل کو ممکن بنا سکیں-
قبرستان کے سلسلے میں درپیش مسائل :
مانوئل مسیح کا خاندان چالیس برس سے گلگت بلتستان میں رہائش پذیر ہے۔ گزشتہ سال ان کے والد کی موت پر ان کی میت کی تدفین کے لئے مناسب جگہ ہی میسر نہیں آئی۔ قبر کی تعمیر اتنی مشکل جگہ میں عمل میں لائی گئی جس کو مکمل کرنے میں کم از کم 8 سے دس گھنٹے لگے- مانوئل کے مطابق جس طرح مسلمان اپنے پیاروں کو دفنانے کے لیے ایک مخصوص جگہ کا تعین کرتے ہیں اور یہ سہولت مقامی حکومت کی طرف سے فراہم کی جاتی ہے لیکن ہمیں یہ سہولت حاصل نہیں ہے۔ حکومت اور انتظامیہ سے ہمارا یہ مطالبہ ہے کہ ہمیں بھی قبرستان کی سہولت میسر کی جائے تاکہ ہم اپنے مردوں کی تدفین آسانی سے کر سکیں۔
جی ایم سی (گلگت میٹروپولیٹن کارپوریشن) میں بھرتیوں میں تفریق:
گلگت بلتستان میں سینٹری ورکرز مسیحی برادری سے ہیں اور صفائی کی تمام تر ذمہ داری انہی کی ہے تاہم اگست 2016 میں وزیر اعلی گلگت بلتستان کی جانب سے 20 رکشے اور بیس چھوٹی گاڑیوں کا ایک منصوبہ جی ایم سی کے حوالے کیا گیا۔ ان رکشوں اور گاڑیوں کے ذمہ کوڑا اکٹھا کر کے ٹھکانے لگانا ہے۔ اس منصوبے کے تحت 110 نئے لوگوں کو بھرتی کیا گیا جس میں مسیحی برادری کو مکمل طور پرنظر انداز کرتے ہوئےمقامی لوگوں کو بھرتی کیا گیا۔ حالانکہ حکومت نے صفائی کی تمام تر ذمہ داری مسیحی برادری کو سونپ رکھی ہے لیکن ایک اچھے منصوبے میں انہیں محروم رکھا گیا۔