سوئٹزر لینڈ سے واپسی پر میں ایک دن کے لیے پیرس رکا‘ شماعیل میرا بیٹا بھی میرے ساتھ تھا‘ ہم نے پورا دن ایک دوسرے کے ساتھ گزارہ‘ ایرانی کھانا کھایا‘ کافی پی‘ شانزے لیزے پر بارش میں واک کی اور مدت بعد ایک دوسرے کے ساتھ کمرہ شیئر کیا‘ ہم ایک دوسرے کی کمپنی میں رہے اور آپ یقین کریں یہ ہماری زندگی کے بہترین دنوں میں سے ایک دن تھا۔
پیرس اس بار مکمل طور پر مختلف تھا‘ فرانس بھی یورپ کے دوسرے ملکوں کی طرح توانائی کے خوف ناک بحران کا شکار ہے‘ میں نے پٹرول پمپس پر چار‘ چار کلومیٹر لمبی لائنیں دیکھیں‘ لوگ پٹرول خریدنے کے لیے دو دو گھنٹے گاڑیوں میں بیٹھے رہتے ہیں اور جب ان کی باری آتی ہے تو پتا چلتا ہے پٹرول ختم ہو چکا ہے۔
پیرس کی سڑکیں ویران ہوتی چلی جا رہی ہیں‘اب ٹریفک بلاک نہیں ہوتی‘ سال کے شروع میں شانزے لیزے سے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ کا فاصلہ سوا گھنٹے میں طے ہوتا تھا‘ یہ اب سمٹ کر 20 منٹ رہ گیا ہے‘ پارکنگ کے لیے بھی پانچ پانچ چکر لگانے پڑتے تھے لیکن اب آپ کسی بھی پارکنگ میں چلے جائیں آپ کو جگہ مل جائے گی‘ ریستوران‘ کافی شاپس‘ بارز اور ڈسکوز بھی ویران ہوتے جا رہے ہیں۔
پیرس کے آدھے سے زیادہ ریستوران بند ہو چکے ہیں اور حکومت سنجیدگی سے دن بارہ بجے سے دو بجے تک دو گھنٹے لوڈ شیڈنگ یا انٹرنیٹ بند کرنے کی پلاننگ کر رہی ہے‘ حکومتی سروے کے مطابق لنچ ٹائم کے وقت لوگ دفتروں میں کمپیوٹر اور لائیٹس آن چھوڑ جاتے ہیں جس سے بجلی کے نظام پر دباؤ پڑتا ہے لہٰذا اگر بارہ سے دو بجے تک لوڈ شیڈنگ کر دی جائے تو بجلی کی 30فیصد بچت ہو جائے گی۔
دوسرا ساڑھے سات کروڑ آبادی کے گھروں میں ساڑھے تین کروڑ انٹرنیٹ ڈیوائسز ہیں‘ حکومت اگر دن میں دو گھنٹے کے لیے انٹرنیٹ بند کر دے تو بھی بجلی کی 40 فیصد بچت ہو گی کیوں کہ اس دوران انٹرنیٹ ڈیوائسز‘ ٹیلی ویژنز اور اسمارٹ فونز بند ہو جائیں گے اور یوں بجلی بچ جائے گی‘ حکومت 2022 کی سردیوں کو خوف ناک سردی بھی ڈکلیئر کر رہی ہے۔
کیوں؟ کیوں کہ اس سال حکومت عوام کو گیس فراہم نہیں کر سکے گی اور یوں آدھے ملک کے ہیٹنگ سسٹم بند ہو جائیں گے‘ ملک میں اس وقت جلانے کی لکڑی‘ الیکٹرک بلینکٹس‘ مٹی کا تیل اور موم بتیاں ناپید ہو چکی ہیں‘ لوگوں نے احتیاطاً ٹارچز خرید لی ہیں‘ خوراک کا ذخیرہ بھی کیا جا رہا ہے اور لوگ گھروں میں ایسے کمرے بھی بنا رہے ہیں جہاں سردی سے زیادہ سے زیادہ بچاجا سکتا ہے۔
بجلی‘ گیس اور پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشا اضافہ ہو چکا ہے‘عام چھوٹے سے گھروں میں بجلی کا بل 40 یورو سے دو سو یورو اور گیس 60 یورو سے 150 یوروز ہو چکی ہے‘ ریستوران بند ہو رہے ہیں اور فاسٹ فوڈ کے بزنس میں اضافہ ہو رہا ہے‘ ٹماٹر 90 سینٹ سے ساڑھے تین یورو کلو گرام ہیں‘ آٹا اور کوکنگ آئل مل نہیں رہا‘ پرائیویٹ ٹرانسپورٹ کے کرائے تین گنا بڑھ چکے ہیں۔
پبلک ٹرانسپورٹ پر دباؤ میں اضافہ ہو گیا ہے اور گاڑیوں کی خریدوفروخت تقریباً بند ہو چکی ہے‘ بینکوں نے بھی گھروں اور کمرشل پراپرٹیز کے لیے لون دینا بند کر دیے ہیں‘ بے روزگاری بھی بڑھ رہی ہے‘ کمپنیوں نے آدھے سے زیادہ ملازمین نکال دیے ہیں‘ اسٹریٹ لائیٹس اور ہائی وے کی لائیٹس بند رہتی ہیں اور سرکاری دفاتر بھی اندھیرے میں ڈوبے رہتے ہیں لیکن آپ قوم کا کمال دیکھیں‘ حالات کی اتنی خرابی کے باوجود ملک میں کسی جگہ مظاہرہ ہوا اور نہ کسی نے حکومت کی ٹانگ کھینچی‘ لوگ حالات کی نزاکت کو سمجھ رہے ہیں اور یہ بھی انڈرسٹینڈ کر رہے ہیں یہ عالمی ایشو ہے اور اس میں حکومت کا کوئی قصور نہیں‘ دوسرا یہ حکومت کی ہر ہدایت پر عمل کر رہے ہیں۔
حکومت نے عوام کو بجلی میں دس فیصد بچت کا حکم دیا اور لوگوں نے فالتو بتیاں بجھا کر 15 فیصد بچت شروع کر دی‘ حکومت نے سردیوں کی تیاریوں کی ہدایت کی اور لوگوں نے اگست میں گھروں کو گیس کے بغیر گرم کرنے کا بندوبست کرنا شروع کر دیا‘ لوگ سردیاں گرم علاقوں میں گزارنے کے منصوبے بھی بنا رہے ہیں۔
یہ مراکو‘ تیونس اور مصر میں گھر کرائے پر لے رہے ہیں‘ یہ فیملیز کو وہاں شفٹ کررہے ہیں تاکہ توانائی کی بچت ہو سکے لیکن یہ حکومت کے خلاف احتجاج نہیں کر رہے‘ آپ یقین کریں پاکستان میں آج بھی یورپ کے مقابلے میں مہنگائی‘ پٹرول‘ گیس اور بے روزگاری کم ہے‘ ری سیشن نے جتنا یورپ کو تباہ کیا ہم اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے لہٰذا اللہ کا شکر ادا کریں اور صبر کریں یہاں کم از کم لائنیں نہیں لگی ہیں جب کہ یورپ میں ٹیکسی کے لیے بھی لمبی قطاریں شروع ہو چکی ہیں۔
میں شماعیل کو رخصت کرنے کے لیے چارلس ڈیگال ایئرپورٹ آیا‘ پی آئی اے جارڈن سول ایوی ایشن کا جہاز چارٹر کر کے پیرس سے پندرہ دن بعد ایک فلائیٹ چلا رہی ہے‘میں وہاں پہنچا تو لوگ ایئرپورٹ پر کھڑے ہو کر سول ایوی ایشن کے سابق وفاقی وزیر غلام سرور خان اور موجودہ وزیر خواجہ سعد رفیق کو بددعائیں دے رہے تھے‘پی آئی اے کو بھی گالی پڑ رہی تھی۔
غلام سرور خان نے 24 جون 2020 کو قومی اسمبلی میں فرمایا تھا ’’پاکستان کے 30 فیصد پائلٹس کی ڈگریاں اور لائسنس جعلی ہیں اور ان میں سے زیادہ تر نے اپنے فلائنگ آورز بھی پورے نہیں کیے‘‘اس بیان نے پی آئی اے اور پاکستان سول ایوی ایشن کا جنازہ نکال دیا تھا‘ یورپ‘ برطانیہ اور امریکا نے فوری طور پر پی آئی اے کی فلائیٹس پر پابندی لگا دی‘پاکستان کے تمام پائلٹس کو بھی گراؤنڈ کر دیا گیا‘ آج اس پابندی کو دوبرس اورچارماہ ہو چکے ہیں‘ برطانیہ سے ہر ماہ دس لاکھ مسافر پاکستان آتے تھے۔
ہر ہفتے 23 اور ماہانہ 92 فلائیٹس تھیں‘ پیرس سے بھی ہفتے میں تین فلائیٹس آتی تھیں‘یہ روٹ بھی دو اڑھائی لاکھ مسافر استعمال کرتے تھے مگر غلام سرور خان کے ایک خودکش حملے نے پی آئی اے تباہ کر دی‘ آپ کسی دن اگر صرف ایک سوال کا جواب تلاش کر لیں ’’ہمارے وزیر کے بیان کا کس کو فائدہ ہوا؟‘‘ تو آپ ساری کہانی سمجھ جائیں گے‘ غلام سرور خان کے خودکش بیان کا فائدہ ترکش ایئر لائین‘ قطر ایئر ویز اور ایمریٹس نے اٹھایا تھا‘ ایک بیان نے پاکستان کے تمام مسافر ایک ہی دن میں ان ایئر لائینز کی جھولی میں گرا دیے اور یہ ایئر لائینز اب منہ مانگے دام لے کر بھی مسافروں کو ذلیل کررہی ہیں اور فاصلے بھی بڑھ رہے ہیں۔
پی آئی اے جو ٹکٹ لاکھ روپے میں دیتی تھی یہ ایئرلائینز وہ ٹکٹ اڑھائی تین لاکھ روپے میں بیچ رہی ہیں اور چھ گھنٹے کا سفر بھی چودہ گھنٹوں میں طے ہوتا ہے لہٰذا فائدہ کس کو ہوا؟ سول ایوی ایشن اور پی آئی اے کو اربوں روپے کا نقصان ہو گیا لیکن ہم نے غلام سرور خان کو بلا کر پوچھنے کی جسارت تک نہیں کی‘ پی آئی اے نے دن رات ایک کر کے ای اے ایس اے (یورپین ایوی ایشن سیفٹی ایجنسی) کے 99 فیصد اہداف پورے کر لیے ہیں مگر معاملہ سول ایوی ایشن کے ہاتھوں میں پھنسا ہوا ہے۔
یہ آج تک اپنے ایس او پیز فائنل نہیں کر سکی‘ شاید خواجہ سعد رفیق کے پاس اتنا بھی وقت نہیں کہ یہ یورپ میں اچھا وکیل ہی کر لیں‘یہ اپنے سفارت خانوں ہی کو ایکٹو کر لیں یا پھر ذاتی منت ترلے سے یہ پابندی اٹھوا دیں تاکہ قومی سرمایہ بھی بچ جائے‘ مسافر بھی سکھ کا سانس لیں اور ملک کے منہ پر لگا داغ بھی دھل جائے‘ ہم آخر کب تک دوسرے ملکوں کے پرانے جہاز کرائے پر لے کر گزارہ کرتے رہیں گے‘ میں نے 15 اکتوبر کو اپنی آنکھوں سے ایئرپورٹ کی حالت دیکھی‘ فرانس نے ہمیں ٹرمینل تھری پر پھینک دیا ہے‘ یہ انتہائی غریب ملکوں کی غریب ترین ایئرلائینز کی آخری آرام گاہ ہے‘ جارڈن ایوی ایشن کا جہاز اور عملہ دونوں فارغ تھے۔
جہاز نے شام پانچ بجے اڑنا تھا لیکن جہاز کا ٹائر خراب نکلا اور مسافر پانچ گھنٹے ایئرپورٹ اور جہاز میں خوار ہوتے رہے اور اس کے بعد فلائیٹ کینسل ہو گئی‘ مسافروں نے ایئرپورٹ پر شور شروع کر دیا‘ پی آئی اے کا عملہ فرار ہو گیا‘ اگلے دن صبح نو بجے کی فلائیٹ اناؤنس ہوئی‘ مسافر صبح سات بجے دوبارہ ایئرپورٹ آئے لیکن کاؤنٹرز پر اسٹاف ہی نہیں تھا یوں یہ فلائیٹ بھی ساڑھے بارہ بجے روانہ ہوئی۔
اس فلائیٹ کے ذریعے اسلام آباد سے بھی مسافروں نے پیرس آنا تھا لہٰذا یہاں بھی صورت حال پیرس سے ملتی جلتی تھی چناں چہ آپ خود اندازہ کیجیے‘ کیا ان حالات میں ملک چل سکتا ہے؟میری خواجہ سعد رفیق سے درخواست ہے آپ غلام سرور خان کے خلاف غیر جانب دار انکوائری شروع کرائیں اور یورپ میں بیٹھ کر پی آئی اے سے یہ پابندی بھی ختم کرائیں‘ یورپ میں بے شمار بااثر محب وطن پاکستانی موجود ہیں‘ یہ ایم پی بھی ہیں اور اعلیٰ سرکاری ملازمتوں پر بھی ہیں۔
آپ ان کی مدد لیں‘ کیس لڑیں‘ یورپین سول ایوی ایشن کی شرائط پوری کریں اور یہ پابندی ختم کرائیں‘ ملک ان داغوں کے ساتھ سروائیو نہیں کر سکے گا اور اگر یہ ممکن نہیں تو پھر پی آئی اے کو ہمیشہ کے لیے دفن کر دیں تاکہ یہ روز روز کی بک بک ختم ہو۔
میری ایک اور درخواست بھی ہے‘ فرانس میں لوئی پاسچر ریسرچ سنٹر ہے‘ یہ ہر سال سیکڑوں امراض پر ریسرچ کرتا ہے‘ پاکستان میں ہر قسم کے امراض خوف ناک حد کو چھو رہے ہیں‘ ہم اگر پاکستان میں لوئی پاسچر انسٹی ٹیوٹ کی برانچ کھول لیں تو ہم انٹرنیشنل ریسرچ کا حصہ بھی بن سکتے ہیں اور امراض پر بھی قابو پا سکتے ہیں۔
انڈیا میں 1907میں پاسچر انسٹی ٹیوٹ بنا تھا لہٰذا بھارت اپنی ضرورت کی ادویات خود تیار کر رہا ہے‘ ہم بھی بڑی آسانی سے یہ کر سکتے ہیں‘ فرنچ ایمبیسی ان معاملات میں بہت ہمدرد ہے‘ یہ پاکستان میں کام کرنا چاہتی ہے‘ آپ اس کی مدد لیں اور ملک میں لوئی پاسچر انسٹی ٹیوٹ بنائیں‘ آخر یہ کام بھی تو کسی نے کرنے ہیں‘ کیا ان کے لیے بھی ہمیں نیا ملک بنانا پڑے گا اور دوبارہ جنم لینا ہوگا۔