لفافہ اعظم؟

دنیا کے مطلوب ترین شخص کی کلائی پر بندھی گھڑی میری توجہ کا مرکز بن چکی تھی ۔

یہ 1998ء کا موسم گرما تھا، اسامہ بن لادن نے امریکہ پر حملوں کا فتویٰ جاری کیا تھا اور کچھ پاکستانی علماء بھی اس فتوے کی حمایت کر رہے تھے۔

پاکستانی اخبارات میں بھی اس فتوے پر بحث جاری تھی ۔قندھار ایئر پورٹ کے قریب اسامہ بن لادن کی رہائش گاہ پر میں اس فتوے پر اس سے بحث کر رہا تھا۔ میرا سادہ سا سوال تھا کہ اسلامی تعلیمات کی روشنی میں آپ ایک ایسا حملہ کیسے کرسکتے ہیں جس میں بے گناہ غیر مسلموں کے مارے جانے کا خطرہ ہو؟ اسامہ بن لادن کے ساتھ ڈاکٹر ایمن الظواہری اور ابو حفظ المصری بھی موجود تھے یہ دراصل ایک اخبار کیلئے انٹرویو تھا جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔

میں بار بار سوال میں سے سوال نکال رہا تھا اور اسامہ بن لادن مختلف کتابوں میں سے حوالے نکال نکال کر مجھے دکھا رہے تھے۔

یہ نشست صبح ناشتے کے بعد شروع ہوئی، ظہر کے وقت اذان کی آواز آئی۔ یہ آواز اسامہ بن لادن کی گھڑی میں سے آرہی تھی ہم سب نے نماز ادا کی، کھانے کی طلب نہیں تھی لیکن میزبان کے اصرار پر کھانے میں شریک ہونا پڑا اور دوبارہ نشست شروع ہوگئی۔

عصر کے وقت دوبارہ گھڑی میں سے اذان آئی تو میں بڑی دلچسپی سے گھڑی کو دیکھنے لگا، اسامہ نے کلائی سے گھڑی اتاری اور بتایا کہ یہ عام سی واٹر پروف گھڑی ہے اور اذان کے اوقات بتاتی ہے پھر انہوں نے کہا کہ اگر آپ کو پسند ہے تو آپ رکھ لیں۔ میں نے شکریہ ادا کیا اور کہا کہ میں گھڑی استعمال نہیں کرتا کیونکہ بہت سی گھڑیاں گم کر چکا ہوں۔ یہ سن کر اسامہ بن لادن مسکرائے اور انہوں نے وہ گھڑی دوبارہ اپنی کلائی پر باندھ لی۔

اس واقعے کے تین سال بعد گیارہ ستمبر 2001ء کو میں اپنے دفتر میں بیٹھا تھا کہ افغانستان سے ایک آدمی مجھے ملنے آیا اس نے مجھے ایک رقعہ دیا اور ساتھ میں ایک گھڑی دی میں نے گھڑی کو دیکھتے ہی پہچان لیا۔

مہمان نے کہا کہ شیخ کا پیغام ہے کہ گھڑی گم نہیں کرنی۔ رقعے میں اسامہ بن لادن کا ایک دستخط شدہ بیان تھا جس میں نائن الیون حملے کے بارے میں کہا گیا کہ حملے میں میرا کوئی ہاتھ نہیں لیکن میں حملہ آوروں کو خراجِ تحسین پیش کرتا ہوں۔

دو ماہ کے بعد نومبر 2001ء میں اسامہ بن لادن سے کابل میں آخری ملاقات ہوئی تو میری کلائی پر اپنا تحفہ دیکھ کر انہوں نے کہا کہ ’’شکر ہے ابھی یہ گم نہیں ہوئی۔ ‘‘

اس انٹرویو میں ایک دفعہ پھر ان سے تلخ سوالات پوچھے اور انہوں نے ہر سوال کا جواب دیا۔

یہ انٹرویو ان کا آخری انٹرویو تھا جس کے بعد اس انٹرویو کی بھی بہت تحقیقات کی گئیں، دنیا بھر کے صحافیوں نے میرے بارے میں مختلف زاویوں سے تحقیقات کیں۔

مالدیپ کے دو صحافی محمد شاہیب اور احمد ظہیر بھی مجھ تک پہنچ گئے اور ان کی تحقیقات کا مرکز وہ گھڑی تھی جو اسامہ بن لادن نے مجھے دی تھی میں نے انہیں سب کچھ سچ سچ بتا دیا۔

انہوں نے گھڑی کی تصاویر بنائیں اور جب ان کا انٹرویو تصاویر کےساتھ مالدیپ کے ایک انگریزی اخبار میں شائع ہوا تو میرے لئے نئی مصیبت کھڑی ہوگئی لوگ دور دور سے یہ گھڑی دیکھنے کے لئے آنے لگے۔

پچھلے سال نائن الیون حملوں کے بیس سال پورے ہونے سے کچھ عرصہ قبل مجھے کینیڈا کے ایک میوزیم نے کہا کہ آپ اسامہ بن لادن کی گھڑی ہمیں فروخت کردیں، میں نے بڑی سادگی سے کہا کہ یہ ایک تحفہ تھا اسے میں فروخت نہیں کرسکتا۔

میوزیم والوں نے ساری ریسرچ کر رکھی تھی انہوں نے گھڑی کا ماڈل اور دیگر تفصیلات بتاکر کہا کہ یہ بہ مشکل چند ہزار روپے کی چیز ہے، ہم آپ کو جو قیمت ادا کریں گے وہ آپ تصور بھی نہیں کرسکتے۔ میں نے بڑی شائستگی کے ساتھ انہیں اپنی معاشرتی روایات کے متعلق بتایا اور کہا کہ تحفہ واقعی معمولی ہے لیکن ہم تحفے نہیں بیچتے۔

میوزیم کی طرف سے رابطہ کرنے والی خاتون وکیل نے کہا کہ آپ کا تحفہ ہے آپ کی مرضی ہے لیکن میرا رابطہ نمبر اور ای میل محفوظ کرلیں جب بھی آپ گھڑی بیچنا چاہیں تو ہم سے ضرور رابطہ کیجئے گا۔

اس سال فروری میں کینیڈین خاتون وکیل نے دوبارہ مجھ سے رابطہ کیا اور پوچھا کہ کیا آپ نے یہ خبریں سنی ہیں کہ آپ کے وزیر اعظم نے سعودی کرائون پرنس کی طرف سے تحفے میں دی جانے والی ایک گھڑی بیچ دی ہے؟ میں نے اسے بتایا کہ جی ہاں مجھے پتہ ہے۔

خاتون نے بڑے شائستہ لہجے میں طنز کرتے ہوئے کہا کہ آپ تو کہتے تھے کہ تحفے بیچنا آپ کی معاشرتی روایات کے خلاف ہے تو پھر آپ کے وزیراعظم نے تحفہ کیوں بیچا ؟میں نے اس شائستہ طنز کا بڑے تلخ انداز میں جواب دیا تو خاتون نے فوری طور پر معذرت کرلی اور کہا کہ دیکھئے آپ کے وزیراعظم نے جو بھی کیا قانون کے مطابق کیا ہم بھی تمام قانونی تقاضے پورے کرکے آپ کے ساتھ ڈیل کرنا چاہتے ہیں، آپ کو جو بھی رقم ملے اسے آپ فوری طور پر انکم ٹیکس اتھارٹیز کے سامنے ڈیکلیئر کردیجئے گا اپنے وزیراعظم کی طرح تین سال بعد ڈیکلیئر نہ کیجئے گا آپ کو کوئی مشکل نہیں ہوگی۔

میں نے خاتون سے پوچھا کہ کیا میں یہ گھڑی آپ کو مفت عطیہ کرسکتا ہوں اور کیا آپ مجھے تحریری ضمانت دیں گی کہ آپ یہ گھڑی کسی اور کو فروخت نہیں کریں گی؟ خاتون نے کہا کہ میں جلد آپ کو دوبارہ کال کروں گی لیکن پھر ان کی کال نہیں آئی۔

15 نومبر کی شب جیونیوز پر شاہ زیب خانزادہ کے شو میں وہ خریدار سامنے آگیا جس نے سعودی ولی عہد کی طرف سے عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی گھڑی خریدی۔عمران خان کے ساتھی کہہ رہے ہیں کہ خان صاحب نے جو بھی کیا قانون کے مطابق کیا لیکن سوال یہ ہے کہ خان صاحب نے ایک نہیں تین گھڑیاں بیچیں۔

انہوں نے توشہ خانہ سے انگوٹھیاں، ہار، کف لنکس، آئی فون اور نجانے کیا کیا اونے پونے داموں خریدا، اب انہیں بتانا ہوگا کہ یہ سب تحفے کہاں گئے؟ خان صاحب اور ان کی پارٹی بہت سے صحافیوں کو لفافہ اور غدار کہتی رہی ہے انہوں نے کبھی کسی الزام کا ثبوت نہیں دیا لیکن شاہزیب خانزادہ اس شخص کو سامنے لائے ہیں جس کے پاس عمران خان کو تحفے میں دی جانے والی گھڑی موجود ہے۔

خان صاحب بتائیں کہ یہ گھڑی عمر فاروق ظہور نامی ’’جرائم پیشہ‘‘ انسان کے پاس کیسے پہنچی؟ فرح خان اور شہزاد اکبر کا دعویٰ ہے کہ وہ عمر فاروق ظہور کو کبھی نہیں ملے۔ وہ اگر کبھی نہیں ملے تو کیا یہ گھڑی اڑ کر دبئی میں ایک ’’جرائم پیشہ‘‘ انسان کےگھر پہنچ گئی؟ جواب تو دینا پڑے گا آپ اپنے ناقد صحافیوں کو لفافہ کہتے تھے، توشہ خانہ اسکینڈل میں سوالات کا جواب نہ دیا ’’تو آپ ‘‘ لفافۂ اعظم ‘‘کہلائیں گے۔

بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے