یو ٹرن لینےمیں جناب عمران خان کا کوئی ثانی نہیں، خان صاحب کسی بھی وقت پنجاب کے سب سے بڑے ڈاکو کو پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنا سکتے ہیں۔ وہ بلاجھجک پاکستان کے سب سے بڑے جمہوریت پسند آرمی چیف کو میر جعفر بھی قرار دے سکتے ہیں لیکن کیا پاکستان کی سیاست میں صرف عمران خان ہی یوٹرن لیا کرتے ہیں؟کیا نواز شریف، آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمٰن کے علاوہ دیگر سیاسی قائدین اپنی سیاسی مصلحتوں کے اسیر بن کر اپنا سیاسی موقف تبدیل نہیں کرتے؟ عمران خان پر ہم نے بہت تنقید کرلی۔
2019ء میں کہا جاتا تھا کہ عمران خان پاکستان کی تاریخ کے پہلے وزیر اعظم ہیں جسے فوج، عدلیہ اور دیگر ریاستی اداروں کی بھرپور حمایت حاصل ہے۔ ان دنوں خان صاحب دن رات آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کے گیت گایا کرتے تھے۔ یہی وہ زمانہ تھا جب ہم نے عمران خان کے طرز حکمرانی پر سوال اٹھانے شروع کئے تو خان صاحب ناراض ہو گئے۔
ان کے فیض سے ہمارے ٹی وی پروگراموں پر پابندیاں لگنی شروع ہوگئیں اور پھر خان صاحب کا فیض اتنا آگے چلا گیا کہ انہوں نے طبی وجوہات پر نواز شریف کو جیل سے نکال کر برطانیہ بھجوا دیا۔ میرا خیال تھا کہ نواز شریف بدل چکے ہیں وہ بیرون ملک نہیں جائیں گے لیکن مجھے نواز شریف کی ایسی میڈیکل رپورٹیں دکھائی گئیں کہ مجھے بھی کہنا پڑا نواز شریف کو اپنے علاج کے لئے برطانیہ ضرور جانا چاہئے۔
اسلام آباد ہائی کورٹ نے نواز شریف کو علاج کے لئے چند ہفتوں میں واپس آنے کے ہدایت دی تھی لیکن نواز شریف کو بیرون ملک گئے تین سال سے زیادہ عرصہ ہو چکا۔
عمران خان کی طرف سے نواز شریف کو بھگوڑا قرار دیا گیا لیکن نواز شریف اکثر خاموش ہی رہے۔ جن صحافیوں نے ان کے بیرون ملک علاج کی حمایت کی تھی انہیں تحریک انصاف والوں نے نجانے کیا کیا کہا لیکن نواز شریف نے کبھی یہ وضاحت کرنے کی زحمت نہیں کی کہ وہ تین سال سے لندن میں کیا کر رہے ہیں؟اب وقت بدل رہا ہے۔ جو کچھ نواز شریف کے ساتھ ہوا وہ عمران خان کے ساتھ ہونے والا ہے۔ نواز شریف اپنے ایک بدترین سیاسی مخالف کے انجام کو قریب سے دیکھنے کے لئے پاکستان واپسی کی تیاری کر رہے ہیں۔
آج صبح روزنامہ جنگ کے صفحہ اول پر میں نے ان کا ایک بیان پڑھا جس میں وہ عمران خان کو چیلنج دے رہے ہیں کہ کوئی ایسا منصوبہ بتایئے جو آپ نے شروع کیا اور پورا کیا ہو۔ اسی بیان میں نواز شریف نے فرمایا کہ جو شخص خود سر سے پائوں تک کرپشن میں ڈوبا ہوا ہے وہ دوسروں پر کرپشن کے الزامات لگا رہا ہے، ہمیں تو مفت میں جلا وطنی اور جیلیں بھگتنا پڑیں۔
اس حقیقت میں کوئی شک نہیں کہ نواز شریف تین دفعہ پاکستان کے وزیراعظم بنے اور تینوں دفعہ وہ اپنے عہدے کی مدت پوری نہ کرسکے۔ انہوں نے بہت تکالیف اٹھائیں لیکن ان کے تینوں ادوار کے عینی شاہد کے طور پر یہ سوال اٹھانا ضروری ہے کہ آپ تین دفعہ وزیر اعظم بنے لیکن کیا ایک مرتبہ بھی آپ نے اپنی غلطیوں سے سبق سیکھا ؟
نواز شریف کے حالیہ بیانات میں بڑی مظلومیت نظر آتی ہے۔ میں پھر کہوں گا کہ ہاں! آپ کے ساتھ ظلم ہوا لیکن کیا یہ ظلم صرف آپ کےساتھ ہوا؟آپ کی غلطیوں کی سزا صرف آپ نے نہیں بلکہ آپ کے خاندان، آپ کی پارٹی اور آپ کی ذات میں کسی شیر کو تلاش کرنے والے اہل فکر و دانش نے بھی پائی۔ جب عمران خان طاقت میں تھے تو ہم نے ان کے طرز حکمرانی پر سوالات اٹھائے اور سزا بھی پائی۔
اب آپ طاقتور ہو چکے ہیں۔ آپ کا خیال ہے کہ اب عمران خان نااہل ہو جائیں گے اور آپ کی نااہلی ختم ہو جائے گی۔ اب آپ سے یہ سوال پوچھنے کا وقت آ چکا ہے کہ آئندہ انتخابات میں آپ کی پارٹی اور اس کے اتحادی اسی طریقے سے تو کامیابی حاصل نہیں کریں گے جس طریقے سے 2018ء میں عمران خان کو کامیابی دلوائی گئی تھی؟ کیا آپ ہمیں یہ یقین دلا سکتے ہیں کہ پاکستان واپسی کے بعد آپ اپنی پارٹی میں جمہوری کلچر متعارف کرائیں گے اور پارٹی کے اندر انتخابات کرائیں گے؟۔
کیا آپ کو یہ احساس ہےکہ بار بار جلاوطنی اور جیلیں اس لئے بھگتتے ہیں کہ پاکستان کی اکثر سیاسی جماعتوں کی اصل طاقت کوئی نظریہ نہیں بلکہ کچھ شخصیات ہیں؟ یہ سوالات پوچھنے کی ضرورت اس لئے محسوس ہو رہی ہے کہ عمران خان کے جیل جانے اور آپ کے پاکستان واپس آنے سے پاکستان کے عام آدمی کو کوئی فرق نہیں پڑنے والا۔ گستاخی معاف! آپ تیسری مرتبہ وزیر اعظم بنے تو ہمیں آپ سے بڑی امیدیں تھیں۔ ان امیدوں کو آپ کی حکومت نے باقاعدہ قتل کیا۔
آپ نے پاکستان میں آزادیٔ اظہار پر پابندیوں کے لئے 2016ء میں بدنام زمانہ پیکا ایکٹ کو پارلیمینٹ سے منظور کرایا اور پھر اسی قانون کو عمران خان کی حکومت نے ایک مزید ڈرائونی شکل میں پیکا آرڈیننس کے ذریعہ ہم پر نافذ کرنے کی کوشش کی۔ اس کوشش کو عدلیہ نے ناکام بنا دیا لیکن پیکا ایکٹ 2016ء آج بھی صحافیوں اور سیاسی کارکنوں کے خلاف استعمال ہو رہا ہے۔
عمران خان کے دور میں ایک رکن پارلیمینٹ علی وزیر پر ناجائز مقدمات بنائے گئے۔ آج آپ کی پارٹی اقتدارمیں ہے اور ایک رکن پارلیمینٹ اعظم سواتی کو انتقامی کارروائیوں کا نشانہ بنایا جا رہا ہے۔ جب عمران خان کا اقتدار اپنے عروج پر تھا تو میں نے رانا ثناء اللہ پرمنشیات کی اسمگلنگ کے جھوٹے مقدمے کے خلاف اسی اخبار میں کالم لکھا جو اس مقدمے کے عدالتی ریکارڈ کا حصہ ہے۔
رانا ثنا ءا للہ اس جھوٹے مقدمے میں بری ہو چکے۔ امید ہے آپ پر بھی تمام مقدمات ختم ہو جائیں گے لیکن ایسا لگتا ہے کہ آپ نے اپنی غلطیوں سے سبق نہیں سیکھا۔ آج آپ کے دور میں جو کچھ اعظم سواتی کے ساتھ ہو رہا ہے یہ کل کو دوبارہ آپ کیساتھ ہوگا۔ وقت بدلتے دیر نہیں لگتی۔
مسلم لیگ (ن) کی قیادت کو اچھی طرح پتہ ہے کہ رانا ثناء اللہ اور حنیف عباسی پر اینٹی نارکاٹکس فورس نے جو جھوٹے مقدمے بنائے ان میں صرف عمران خان کی خواہش نہیں بلکہ جنرل باجوہ کی تائید بھی شامل تھی۔ جب تک باجوہ آرمی چیف تھے انہوں نے رانا ثنا ء اللہ کے خلاف یہ جھوٹا مقدمہ ختم نہیں ہونے دیا۔
افسوس کہ مسلم لیگ (ن) کے کچھ اہم رہنما اسی باجوہ صاحب کو دوسری ایکسٹنشن دلوانے کے لئے سرگرم تھے اور نواز شریف نے ان سرگرمیوں پر آنکھیں بند کئے رکھیں۔ پاکستان کی سیاست کا حال یہ ہو چکا ہے کہ عمران خان ہوں یا آصف زرداری، نواز شریف ہوں یا مولانا فضل الرحمٰن، یہ سب عمائدین پنجاب کے ایک عدد سب سے بڑے ڈاکو کی خوشامدیں کرتے پھر رہے ہیں۔
ڈاکو صاحب جدھر جائیں پاور پالیٹکس کا پلڑا ادھر جھک جائے گا۔ نواز شریف کو یہ ماننا پڑے گا کہ انہیں بار بار جلاوطنی اور جیلیں اس لئے بھگتنا پڑتی ہیں کہ وہ کسی نظریے پر کھڑے نہیں رہتے، کبھی باجوہ اچھا، کبھی برا اور پھر اچھا ہو جاتا ہے۔ کبھی کوئی ڈاکو بہت برا ہو جاتا ہے چند ماہ کے بعد پھر اچھا ہو جاتا ہے۔ عوام کے ساتھ یہ مذاق بند ہونا چاہئے۔
بشکریہ جنگ