یہ دیوالیہ پن نہیں تو اورکیا ہے؟

امریکی مصنف cal thomasنے اپنی کتاب ’’the things that matter most‘‘میں ایک غلط فہمی اور مغالطے کا پردہ چاک کرتے ہوئے بہت خوبصورت بات کہی ہے ۔وہ لکھتا ہے’’لوگ اکثر کہتے ہیں ،امریکہ چوراہے پر کھڑا ہے۔لیکن سچ یہ ہے کہ امریکہ اس چوراہے سے غلط راستے کا انتخاب کرنے کے بعد بہت آگے نکل آیا ہے اوراب ضرورت اس بات کی ہے کہ واپس چوراہے پر جاکرصحیح راستے کا انتخاب کیا جائے۔‘‘ہمارے ہاں بھی یہ بات بہت تواتر کے ساتھ کہی جاتی ہے کہ ملک نازک دور سے گزر رہا ہے،ہم دوراہے پر کھڑے ہیں یا پھرپاکستان کو مشکل حالات کا سامناہے۔اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ ہم بھٹک کر غلط راستے پر چل نکلے اورمسلسل دائروں میں سفر کرتے ہوئے وہیں پہنچ جاتے ہیں جہاں سے چلنا شروع کیا تھا۔آج اگر یہ سوال کیا جائے کہ پاکستان کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے تو سب اپنی سوچ کے مطابق مختلف جواب دیں گے۔شاید کوئی کہے گا کہ کرپشن او ربدانتظامی کے سبب ہم اس حال کو پہنچے ہیں ۔کسی کے خیال میں سیاسی عدم استحکام سب مسائل کی جڑ ہے۔کوئی یہ سمجھتا ہے کہ ملک معاشی دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہے اور یہی سب سے بڑی پریشانی ہے مگر میری دانست میں ہمارا سب سے بڑا مسئلہ غیر حقیقت پسندانہ رویے ہیں۔
ہم خیالوں اور خوابوں کا جہان آباد کرتے ہیں ،جھوٹ کی آغوش میں منافقت کا تکیہ لیکرفریب کے بستر پر درازہیں،قرض کی مے پیتے ہیں اور حالتِ انکار یعنی state of denialمیں جیتے ہیں۔ہم ذاتی زندگی اور انفرادی معاملات ہی نہیں اجتماعی زندگی اور امور مملکت میں بھی ایک دوسرے سے تسلسل کے ساتھ یوں دروغ گوئی کرتے ہیں کہ رفتہ رفتہ جھوٹ کے اس سراب پر حقیقت کا گمان ہونے لگتا ہے۔مثال کے طور پر ہم نہایت ڈھٹائی سے کہتے چلے آرہے ہیں کہ پاکستا ن دیوالیہ نہیں ہوگا ۔ملک کے دانشوریا معاشی ماہرین جو تھوڑا بہت حقیقت پسندی سے کام لیتے ہیں وہ بھی محض یہ کہنے پر اکتفا کرتے ہیں کہ ملک دیوالیہ پن کی دہلیز پر کھڑا ہےحالانکہ یہ حقیقت کتنی ہی تلخ،ناگوار او رناپسندیدہ کیوں نہ ہو مگر کڑوا سچ یہی ہے کہ پاکستان دیوالیہ ہوچکا ہے۔اگر آپ کو عاطف میاں کی بات پر یقین نہیں تو شبرزیدی سے پوچھ لیجئے وہ بہت پہلے بتا چکے ہیں کہ پاکستان 2018ء میں ہی دیوالیہ ہو چکا تھا۔شبر زیدی پسند نہیں تو ڈاکٹر اشفاق حسین کی بات پر غور کرلیں جو کہتے ہیں وزیر خزانہ مفتاح اسماعیل ہو یا اسحاق ڈار ،کوئی فرق نہیں پڑتا کیونکہ پاکستان کے مسائل اتنے گمبھیر ہیں کہ اگر آپ دنیا کے بہترین دماغ لے آئیں،اکنامکس میں نوبیل انعام لینے والے 12معاشی ماہرین کو ملک کی معیشت بحال کرنے کا ٹاسک دے دیں تو وہ بھی ہاتھ کھڑے کردیں گے۔ مگر ہم سچ بولنا اور سننا نہیں چاہتے۔ہم خود کو دھوکہ دینے کے لئے کہتے ہیں کہ دسمبر میں ایک ارب ڈالر کے بانڈ کی ادائیگی کردی گئی،اب ملک کے دیوالیہ ہونے کا کوئی امکان نہیں۔جنیوا میں ہوئی ڈونرز کانفرنس میں 10بلین ڈالر کی امداد آگئی ،اب پریشانی کی کوئی بات نہیں ۔آئی ایم ایف سے قرضوں کی نئی قسط جلد مل جائے گی ،عرب ممالک سے امدادی پیکیج پر بات ہوگئی ہے،بس اب ملکی مسائل حل ہوجائیں گے۔ارے صاحب! کیسے ہوجائیں گے حل،آپ کس دنیا میں رہتے ہیں؟آپ نے ایک دوست ملک سے درخواست کی اس نے تین سال کے لئے تین ارب ڈالر آپ کے اکائونٹ میں رکھوادیئے۔تین سال بعد آپ نے پھر منت سماجت کی اور مزید مہلت حاصل کرلی۔چلیں ،وہ آپ پر زیادہ مہربان ہوئے تودو ارب ڈالر مزید دے دیں گے لیکن جب یہ پانچ ارب ڈالر واپس کرنے کا وقت آئے گا اور آپ پہلے سے زیادہ مشکل حالات میں ہوں گے توتب کیا کریں گے؟جنیوا ڈونرز کانفرنس کے10بلین ڈالرز پر جشن طرب برپا کرنے سے پہلے اسحاق ڈار کی وضاحت تو پڑھ لیں،یہ وعدے ہیں جو اگلے تین سال میں پورے کئے جائیں گے اور یہ وعدے امداد پرمبنی نہیں ،90فیصد وعدے یعنی 9ارب ڈالر مختلف منصوبوں کے لئے قرضوں کی شکل میں فراہم کئے جائیںگے۔آپ کہتے ہیں، پاکستان دیوالیہ نہیںہوگا۔کاش ایساہوجائے۔ایک کاروباری شخص جو جا ئزاور قانونی طریقے سے کمائی ہوئی دولت سے کچھ درآمد کرنا چاہتا ہے تاکہ اس کے کاروبار کا پہیہ چلتا رہے ،اس کو ڈالر یا چینی یوآن میں ادائیگی کرنی ہے،اس کے پاس اسٹیٹ بینک آف پاکستان کے جار ی کردہ نوٹ موجود ہیں جن پر لکھا ہے’’حکومت پاکستان کی ضمانت سے جاری ہوا۔بینک دولت پاکستان حامل ہٰذا کو مطالبہ پر ادا کریگا‘‘۔ مگر بینک ’’لیٹر آف کریڈٹ‘‘یعنی ایل سی نہیں کھولتے ،کہتے ہیں ہمارے پاس غیر ملکی کرنسی نہیں ہے۔مجھے بیرون ملک سے محصولات زر موصول ہوتی ہیں تو ایک ڈالر کے بدلے 226روپے ملتے ہیں لیکن جب میں بیرون ملک ادائیگی کرنا چاہتا ہوں یا ڈالر خریدنے کی ضرورت پڑتی ہے تو غیر ملکی کرنسی مارکیٹ میں دستیاب نہیں ہوتی یا پھر 260 روپے چارج کئے جاتے ہیں۔یہ دیوالیہ پن نہیں تو اور کیا ہے؟ڈالر کی شرح تبادلہ میں اسی فرق کی وجہ سے مسلسل تین ماہ سے غیر ملکی ترسیلات زر میں کمی آتی جارہی ہے۔لوگ بینکوںکے ذریعے پیسہ بھیجنے کے بجائے حوالہ اور ہنڈی کی طرف جارہے ہیں۔
کالم نگاروں کوبالعموم اس حوالے سے تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے کہ یہ لوگ مسائل کی نشاندہی تو کرتے ہیں مگر ان کا حل نہیں بتاتے ۔یہ کالم اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔سب سے پہلے اس فریب ،دھوکے اور جھوٹ سے باہر نکلیں اور زمینی حقائق کا اِدراک کریں پھر اصلاح احوال کا مرحلہ آئے گا۔اس گھن چکر سے کیسے نکلا جا سکتا ہے؟کوشش کروں گا اگلے کالم میں اس حوالے سےمعروضات پیش کروں ۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

تجزیے و تبصرے