فتنہء محشر اٹھا جمہوریت کے نام پر

یوں تو پاپولزم سے مراد قومی سطح کے اہم سیاسی فیصلوں میں عوام کو جذباتی طور پر حصہ دار بنانا ہے، لیکن عام طور پر یہ اصطلاح ڈیماگوجی کے مترادف استعمال کی جاتی ہے۔ ڈیماگاگ ایسے سیاستدان ہوتے ہیں جو پیچیدہ سوالات کے لیے سادہ سے جوابات انتہائی جذباتی انداز میں پیش کرتے ہیں۔ اکثر دانشوروں کے مطابق پاپولزم موقع پرستی کا دوسرا نام ہے۔ یہ ان سیاستدانوں کا پسندیدہ طریقہ کار ہے جو کسی بھی مسئلے پر زیادہ غور و فکر کیے بغیر اپنے ووٹروں کو خوش کرنا چاہتے ہیں۔ اس اصطلاح کو ایسے حکمرانوں کے لیے بھی استعمال کیا جاتا ہے جو بیرونی قرضوں کا سہارا لے کر ایسے منصوبوں پر کام کرتے ہیں جن سے عوام کو یہ محسوس ہو کہ ملک کے حالات بدل رہے ہیں، پھر چاہے حقیقی تبدیلی کا دور دور تک کوئی نشان نہ ہو۔ اس طرح کے بے وقوفانہ اخراجات سے ملک کی معیشت پر برا اثر پڑتا ہے اور اشیائے ضروریہ کی قیمتیں بے تحاشہ بڑھ سکتی ہیں لیکن ان حکمرانوں کو اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ اس اصطلاح کا عام استعمال 1960 کی دہائی میں مختلف لبرل سیاسی جماعتوں کو بیان کرنے کے لیے کیا جانے لگا تھا۔ اکیسویں صدی میں یہ اصطلاح ایسی سیاسی جماعتوں کیلئے تیزی سے استعمال کی جانے لگی جو کہ قائم شدہ نظام کو چیلنج کرتی ہیں۔ حکومت میں رہتے ہوئے پاپولسٹ جماعتیں اکثر جمہوریت کیلئے خطرناک ثابت ہوتی ہیں۔ کیونکہ یہ میڈیا اور عدلیہ جیسے آزاد اداروں کو عوام کی خواہشات کے خلاف ہونے کا بہانہ بنا کر نقصان پہنچاتی ہیں۔
یہ ٹرینڈ اس وقت پروان چڑھتا ہے جب عوام کی بڑی تعداد کو یوں محسوس ہونے لگے کہ ملک کا نظام ہی ان کے خلاف ہے۔ ان لوگوں کے ذہنوں میں ماضی کا ایسا غلط نقشہ بیٹھا ہوتا ہے جس سے ان کو یوں محسوس ہوتا ہے کہ ان کا ملک پہلے عظمت کی بلندیوں پر ہوتا تھا لیکن موجودہ اشرافیہ کے ہاتھوں میں آنے کے بعد حالات خراب ہو گئے ہیں۔ پاپولزم ایک ایسا نظریہ ہے جو معاشرے کو دو مختلف گروہوں میں بانٹ دیتا ہے۔پہلا طبقہ تمام غلطیوں سے پاک اور حالات کے ہاتھوں پسی ہوئی عوام، اور دوسرا طبقہ کرپٹ اشرافیہ۔ کچھ لوگوں کا دعویٰ ہے کہ یہ اس نظریے کے اظہار کا نام ہے جس کے مطابق سیاست کو صرف عوام کی امنگوں کا ترجمان ہونا چاہیے۔ جبکہ دوسروں کا کہنا ہے کہ اسے "نظریہ” قرار دینا اس لفظ کی توہین ہے۔ یہ محض بیان بازی ہے جس کے تحت مشکل مسائل کے آسان حل کا مطالبہ کر کے عہدے بٹورنے یا سیٹیں جیتنے کی سازش کی جاتی ہے۔ ایک پاپولسٹ سیاستدان اپنے علاوہ کسی بھی چیز پر توجہ نہیں دیتا۔ اس کی باتوں سے یوں محسوس ہوتا ہے کہ وہ سراسر اپنی شخصیت کی طاقت سے زوال پذیر ملک کے حالات بدل سکتا ہے۔ معیشت اور بیروزگاری سے لے کر دہشت گردی اور مذہبی انتہا پسندی تک تمام مسائل کا حل بس یہی ایک لیڈر ہے۔
کسی بھی ایک مخصوص گروہ کو پہلے دشمن بنایا جاتا ہے اور پھر ملک کے تمام مسائل اس کے سر دھر دیے جاتے ہیں۔ عوام یہ سمجھتی ہے کہ جو بات کہنے سے عام سیاستدان ڈرتے ہیں، وہی بات ان کا لیڈر بہت دلیرانہ انداز میں بولنے کا حوصلہ رکھتا ہے۔ اکثر اوقات ایسا سیاستدان غیرملکی قرضوں، دوسرے سیاسی طبقے اور بدعنوانی جیسے موضوعات کے خلاف آواز اٹھاتا ہے۔ ایسی باتیں سن کر عوام الناس اس کی شیدائی ہو جاتی ہے اور اس کی صداقت پر ایمان لے آتی ہے۔ پاپولزم کے ذریعے وہ مسائل سامنے آتے ہیں جو آبادی کے ایک بڑے حصے کیلئے اہم ہوتے ہیں لیکن دوسری سیاسی جماعتیں ان پر بحث کرنے سے گریز کرتی ہیں۔ جیساکہ بیروزگاری، بدعنوانی اور امیگریشن وغیرہ۔ ماہرِ سیاست ارنسٹو لاکلاؤ کے مطابق پاپولزم ایک ایسی سماجی طاقت ہے جس کے ذریعے پسماندہ گروہ اشرفیہ اور موجودہ نظام سے لڑ سکتے ہیں۔ بے شک پاپولسٹ سیاستدان الیکشن جیتنے میں ناکام ہو سکتے ہیں لیکن پھر بھی وہ اہم عنوانات اور مسائل پر بحث شروع کرتے ہیں۔ میکسیکو کے سیاسی نظریہ دان بینجمن آردیتی کا خیال ہے کہ پاپولزم دعوت میں شرابی مہمان کا کردار ادا کرتی ہے۔ بعض اوقات یوں محسوس ہوتا ہے کہ اسے مہذب لوگوں سے بھری دعوت میں برتاؤ کرنے کے اصول نہیں آتے لیکن یہ سب کی توجہ معاشرے کے دردناک اور حقیقی مسائل کی جانب ضرور مبذول کرتی ہے۔
لیکن پاپولزم کے ان تھوڑے سے فوائد کے مقابلے میں کہیں زیادہ نقصانات بھی ہیں۔ پاپولسٹ خود کو عوام کا نمائندہ مانتے ہیں، اس لیے اپنے سے مختلف نظریات رکھنے والے ہر انسان کو وہ عوام کا دشمن قرار دے دیتے ہیں۔ وہ یہ بھی ماننے سے انکار کرتے ہیں کہ عوام مختلف خیالات رکھ سکتے ہیں کیونکہ ان کے مطابق صرف وہی ملک کا خلوص نیت سے بھلا چاہتے ہیں۔ ایسی صورتحال میں ان سے اختلاف کرنے والا ہر انسان کرپٹ قرار دے دیا جاتا ہے۔ پاپولسٹ دوسروں کے ساتھ سمجھوتہ کرنے کا ہنر نہیں رکھتے۔ پاپو لسٹ حکومتیں اپوزیشن کے ساتھ مل کر کام کرنے میں ناکام ہوتی ہیں، اور اگر انہیں کسی دوسری جماعت کے ساتھ مل کر مشترکہ حکومت بنانی پڑے تو یہ گٹھ جوڑ زیادہ دیر سلامت نہیں رہتا جس سے ملک میں عدم استحکام کی صورتحال پیدا ہوتی ہے۔ یہ اچھی پالیسیاں بنانے میں بھی ناکام رہتے ہیں کیونکہ الیکشن سے پہلے اور حکومت میں آنے کے بعد بھی ان کا زیادہ دھیان عوام کی ہمدردیاں بٹورنے پر ہوتا ہے۔ پاپولزم قومی سطح کے غیر جانب دار اداروں کی آزادی اور خودمختاری کو بھی خطرہ میں ڈالتی ہے۔ عدلیہ اور میڈیا جیسے اداروں پر عوام کے مفادات کے خلاف کام کرنے کا الزام لگا کر انہیں کمزور کیا جاتا ہے۔ جس سے ملک میں بدامنی اور عدم استحکام کی فضا قائم ہوتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے