چھ نومبر تاریخ کشمیر کا وہ سیاہ دن ہے جب اس کے ایک حصے جموں میں دنیا کی بدترین نسل کشی (genocide) ہوئی۔
دی ٹائمز لندن کی10اگست 1948کی ایک رپورٹ کے مطابق اس نسل کشی میں دو لاکھ37ہزار افراد کو قتل کیا گیا تھا۔
اگرچہ قتل کیے گئے افراد کی تعداد کہیں زیادہ بتائی جاتی ہے مگر اس وقت برطانیہ کے میڈیا نے جو رپورٹ کیا اسے دیکھیں تو یہ نسل کشی کی ایک بہت بڑی واردات تھی۔
ممتاز کشمیری صحافی وید بھسین جن سے مجھے طویل ملاقاتوں کے دوران جموں اور وادی کشمیر کے اندر ماضی اور حال میں ہونے اہم واقعات کی بابت تاریخی حقائق جاننے کا موقع ملا۔ وہ اپنے سینے کے اندر معلومات کا ایک خزانہ رکھتے تھے۔
آنجہانی وید بھسین1947کے واقعات اور جموں میں مسلمانوں کے قتل عام کے چشم دید گواہ بھی تھے۔
انہوں نے بتایا کہ ’جموں کے ضلع ادھم پور بالخصوص ادھم پور خاص، چنانی، رام نگر اور ریاسی علاقوں میں مسلمانوں کو بڑے پیمانے پر قتل کیا گیا۔ یہاں تک کہ بھدرواہ (اُدھم پور سے تقریباً 150 کلومیٹر دور) میں بھی بہت سے مسلمان فرقہ پرست غنڈوں کا شکار ہوئے۔‘
بھسین کہتے ہیں کہ آر ایس ایس (راشٹریا سوایم سیوک سنگھ) نے ان ہلاکتوں میں کلیدی کردار ادا کیا اور ان کی مدد مسلح سکھ پناہ گزینوں نے بھی کی ، جنھوں نے اپنی ننگی تلواروں سے جموں کی سڑکوں پر پریڈ کی۔
بقول بھسین ہندو انتہا پسندوں کی مربی تنظیم راشٹریہ سیویم سیوک سنگھ نے جموں میں باضابطہ ٹریننگ کیمپ کھول رکھے تھے، جن میں نہ صرف ہتھیاروں کی مشق کرائی جاتی تھی، بلکہ مسلمانوں کے خلاف ذہن سازی بھی کی جاتی تھی۔
وید بھسین کا اپنا کہنا تھا کہ انہوں نے خود ایسے ٹریننگ کیمپ دیکھے اور وہاں موجود کیمپ کے نگرانوں کی زبان سے جموں کے مسلمانوں کے قتل عام کی منصوبہ بندی کی بابت باتیں کرتے سنا۔
وید بھسین نے بتایا کہ وہ خود، بلراج پوری اور اوم صراف نے خود مہاراجہ سے ملنے کا فیصلہ کیا تاکہ انہیں جموں کی سڑکوں پر کشت و خون کرنے کے آر ایس ایس کے منصوبے سے آگاہ کر کے مسلمانوں کی اتنے بڑے پیمانہ پر نسل کشی کے منصوبہ سازوں کو روکنے کا کہہ سکیں۔
چنانچہ ہم نے ملاقات کا سندیسہ بھیجا اور مہاراجہ نے ہمیں بلا لیا۔ چنانچہ ہم تینوں ملاقات کے لیے مہاراجہ کشمیر کے محل پہنچے۔ ہمیں جلد ہی وزیراعظم مہرچند مہاجن کے روبرو لے جایا گیا۔
وزیراعظم مہر چند مہاجن بڑے تپاک سے ملے، ہم نے انہیں جموں کے مسلمانوں کے قتل کی سازش سے آگاہ کیا۔
باتیں سننے کے بعد مہاجن الٹا ہمیں سمجھانے لگا کہ ہندو ہونے کے ناتے، ہمیں جموں کشمیر اسمبلی اور دیگر اداروں میں مسلمانوں کے برابر نشستوں کا مطالبہ کرنا چاہیے۔
ہمیں اعتماد میں لیتے ہوئے بتایا کہ مہاراجہ بہادر نے 1931 سے وادی اور جموں کے مسلمانوں کی ایجی ٹیشن کے نتیجے میں اسمبلی بنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ ریاست جموں کشمیر پر مہاراجہ بہادر اپنا اقتدار ہندو عددی قوت کے بل پر ہی برقرار رکھ سکیں گے۔
اس موقعے پر اوم صراف نے جرأت کا مظاہرہ کرتے ہوئے وزیراعظم مہاجن سے پوچھا کہ یہ آخر کس طرح ممکن ہے، جموں و کشمیر تو ایک مسلم اکثریتی ریاست ہے، اس پر مہاجن نے مہاراجہ کے محل کی دیوار سے متصل بنی قدرتی ایک گہری کھائی کی طرف اشارہ کرتے ہوئے کہا؛ ’بالکل اس طرح۔‘
جب ہم نے بغور دیکھا تو ہمیں اس گہری کھائی میں چند مسلمان گوجروں کی بے گور و کفن لاشیں پڑی نظر آئیں، جو شاید صبح سویرے سویرے محل میں دودھ دینے آئے تھے۔
ریاست کے رویے پر بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے بھسین کا کہنا تھا کہ جموں میں فرقہ وارانہ قتل و غارت کو روکنے اور امن کے ماحول کو فروغ دینے کی بجائے ’مہاراجہ کی انتظامیہ نے فرقہ وارانہ غنڈوں کی مدد کی اور انہیں مسلح کیا۔
وید بھسین نے بتایا کہ مسلمانوں کو ان فسادیوں نے بے دردی سے قتل کر دیا جو شہر میں سرکاری طور پر کرفیو کے باوجود اسلحہ اور گولہ بارود کے ساتھ گاڑیوں میں آزادانہ نقل و حرکت کر رہے تھے۔
وید بھسین کا دعویٰ تھا کہ ’یہ کرفیو صرف مسلمانوں کی نقل و حرکت کو روکنے کے لیے لگایا گیا تھا۔ انہوں نے بتایا کہ ’خوفناک قتل عام بعد میں اس وقت ہوا جب تالاب کھٹیکاں کے علاقہ میں مسلمانوں کو ہتھیار ڈالنے کو کہا گیا۔‘
بقول وید بھسین دراصل ’وزیر اعظم مہر چند مہاجن ریاست جموں کشمیر کی آبادی کا تناسب یعنی فرقہ وارانہ پروفائل تبدیل کرنے کا منصوبہ بنا چکا تھا۔‘ میں نے دیکھا کہ وید بھسین واقعہ سناتے ہوئے بہت بے چین ہوگے۔ وید بھسین نے مزید بتایا کہ تقسیم ہند کے منصوبہ کے اعلان کے فوراً بعد ہی جموں میں فرقہ وارانہ کشیدگی بڑھنے لگی تھی۔
’پونچھ جاگیر میں مہاراجہ ہری سنگھ کی انتظامیہ کے سابقہ جاگیر کو اپنے براہ راست کنٹرول سے پیدا صورتحال کے بارے وید بھسین نے بی بی سی کو بتایا کہ مہاراجہ کے بھمبھر کے دورے کے بعد پونچھ کے کچھ علاقوں جیسے پلندری، باغ اور سدھنوتی میں بڑے پیمانے پر ہلاکتیں ہوئیں جن کے بعد ایسے فوجیوں جنھوں نے برطانوی ہندوستانی فوج میں شمولیت اختیار کی تھی اور دوسری جنگ عظیم میں خدمات انجام دی تھیں، نے مہاراجہ کے خلاف بغاوت کا جھنڈا بلند کر دیا۔
جموں کی ہلاکتوں کے پانچ دن بعد، پاکستان کے شمال مغربی سرحدی صوبہ (اب خیبر پختونخوا) سے قبائلی ملیشیا نے کشمیر پر حملہ کر دیا۔ جیسے ہی قبائلیوں کی فوج کشمیر کی طرف بڑھی، ڈوگرہ فوج جموں کی طرف بھاگ گئی اور انہوں نے وہاں مسلمانوں کے قتل عام میں حصہ لیا۔
اس احتجاج سے غلط طریقے سے نمٹنے اور مہاراجہ کی انتظامیہ کی طرف سے وحشیانہ طاقت کے استعمال نے جذبات کو بھڑکا دیا اور اس غیرفرقہ وارانہ جدوجہد کو فرقہ وارانہ لڑائی میں بدل دیا۔
بھسین کے مطابق فرقہ وارانہ تشدد جس نے جموں کو اپنی لپیٹ میں لیا، وہ یک طرفہ نہ رہا۔ خطے کے کچھ حصوں بالخصوص راجوری، میرپور اور اب پاکستان کے زیرانتظام علاقوں میں ہندوؤں اور سکھوں کی ایک بڑی تعداد کو بھی قتل کیا گیا۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ ریاستی افواج کی طرف سے مسلمانوں کے قتل و غارت گری کی سرپرستی واضح اور زیادہ عیاں تھی۔
وید بھسین کی بیٹی انو رادھا بھسین جو آج کل امریکہ میں ہیں، انہوں نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے انکشاف کیا تھا کہ ’صوبہ جموں میں ہونے والے واقعات سے پتہ چلتا ہے کہ آبادی کے تناسب کو تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔‘
’سنہ 1947 کے قتل عام سے صرف جموں ضلع کے کئی مسلم اکثریتی دیہات میں صرف ہندو یا سکھ آبادی باقی رہ گئی۔ صرف جموں ضلع میں، جو صوبہ جموں کا ایک بڑا حصہ ہے، مسلمانوں کی تعداد اب آبادی کا صرف دس فیصد ہے۔‘
در اصل جموں کشمیر کی تاریخ میں اس بدترین نسل کشی پر تعصب اور بے حسی کی ایسی دبیز تہہ جم چکی ہےکہ کوئی یقین ہی نہیں کر پا رہا ہے۔
1947 میں جس قسم کے حالات اس سانحے کا سبب بنے، ویسے ہی حالات اگست 2019 کے واقعے کے ساتھ ہی ایک بار پھر پیدا کیے جارہے ہیں اور اب سانحہ غزہ کی طرف ایک لمحہ کے لیے جب دھیان جاتا ہے تو میرا جسم خوف سے کانپ اٹھتا ہے کہ بھارت کی موجودہ حکومت کی مسلم دشمنی پر مبنی رویہ جموں و کشمیر میں کسی بڑے سانحے کا سبب نہ بن جائے۔
76 سال قبل اکتوبر کا مہینہ تو جموں کشمیر کے لیے بدقسمتی کا ایک ایسا تازیانہ لےکر آیا تھا کہ آج بھی اس سے چھٹکارے کی دور دور تک امید نظر نہیں آرہی۔
ویسے تو ہمارے پیارے وطن جموں و کشمیر کی تاریخ میں تمام مہینے کچھ نہ کچھ خونچکاں یادیں لےکر وارد ہو جاتے ہیں، مگر وہ ایام جب ہندوستان اور پاکستان صبح آزادی کا جشن منانے میں مصروف تھے، امید تھی کی صدیوں سے غلامی اور مظالم کی چکی میں پسنے کے بعد جموں کشمیر کے باسیوں کو بھی آزادی جیسی نعمت ملے گی، مگر قسمت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔