یہ بے چارے 3!!

یہ بے چارے 3لاہوریوں کا قصہ ہے جو ایک سال سے زیادہ عرصے سےجیلوں میں ہیں نہ انہیں سلمان صفدر جیسے ذہین اور قابل اور نہ علی ظفر جیسے موروثی وکیل میسر ہیں اور نہ انہیں وہ کرشماتی رتبہ حاصل ہے کہ سینکڑوں لوگ ان کی جھلک دیکھنے ان کی تاریخ پر آئیں اور نہ ہی ان کا مقام و مرتبہ اتنا ہے کہ انہیں جیل میں روزانہ دیسی مرغ کا سالن ملتا ہو۔ ایسا لگتا ہے کہ وہ جیل کی بھی نچلی ترین کلاس میں ہیں ان حالات ہی کی وجہ سے یہ تینوں مختلف اوقات میں شدید بیمار ہوئے ہیں اور انہیں مجبوراً ہسپتال میں لانا پڑا ہے لیکن ہسپتال میں آکر بھی وہ بہانے بازی سے وہیں نہیں لیٹے رہے بلکہ جونہی طبیعت درست ہوئی تو انہوں نے اصرار کیا کہ انہیں واپس جیلوں میں بھیجا جائے۔

ان کی پارٹی کے لوگ بولتے تو بہت اونچا ہیں مگر جب مشکل آئی تو درجنوں لیڈر پہلی ہی سختی میں بے وفا ہو گئے۔ کسی سے تفتیش نہ سہی گئی، کوئی جیل سے معافی نامہ لکھ کر رہا ہوا اور کسی نے پس پردہ ڈیل کرکے سیاست سے ہی پردہ کر لیا۔ ایسے میں یہ تین لاہوری وفا کے پتلے ثابت ہوئے تینوں مڈل کلاس کے ورکر رہے ہیں سب کی جڑیں زمین میں ہیں اور یہ سب اپنی محنت کے بل بوتے پر ہی آگے آئے ہیں۔

ڈاکٹر یاسمین راشد غلام نبی ملک کی بہو ہیں ملک صاحب تحریک پاکستان کے ورکر تھے پیپلز پارٹی کے بھٹو دور میں صوبائی وزیر رہے دھڑلے کے آدمی تھے اپنی بہو کی تربیت بھی ایسے ہی کی۔ ڈاکٹر یاسمین راشد ایک طرف تو بطور ڈاکٹر غریبوں سے بہت شفقت کرتی رہیں دوسری طرف انہوں نے سالہا سال ڈکٹروں کی مزاحمتی سیاست بھی کی۔ پی ٹی آئی میں آئیں تو لاہور جیسے شہر میں، جو نون کا گڑھ تھا، شبانہ روز محنت سے اپنا سکہ جما لیا۔ 9مئی کے واقعے کے روز وہ کور کمانڈر ہائوس کے باہر موجود تھیں مگر ان کی ریکارڈنگ میں سنا جا رہا ہے کہ وہ کہہ رہی ہیں کہ توڑ پھوڑ نہیں کرنی۔ مگر ایسے جنونی وقت میں ان کی کون سنتا۔ 9 مئی کا سانحہ ہو کر رہا اور وہ اپنے سسر کی روایت پر عمل کرتے ہوئے وفا کی سزا بھگت رہی ہیں لیکن اصل بات یہ ہے کہ ایک خاتون جنہوں نے ساری زندگی پرامن سیاسی جدوجہد کی ہے کیا یہ اس بات کا کافی ثبوت نہیں کہ وہ تخریبی کارروائیوں میں شریک نہیں ہو سکتیں۔

سینیٹر اعجاز چودھری کا نام میں نے پہلی بار تب سنا جب وہ انجینئرنگ یونیورسٹی کی طلبہ یونین کے صدر منتخب ہوئے۔ اسلامی جمعیت طلبہ سے وابستہ رہے اور اپنی کومٹ منٹ ہی کی وجہ سے امیر جماعت میاں طفیل محمد کے داماد بنے، قاضی حسین احمد کی آنکھ کا تارا رہے، قاضی صاحب کو جب بھی فنڈنگ کی ضرورت ہوتی وہ اپنی گھڑی یا کوئی اور چیز نیلامی پر لگاتے تو اعجاز چودھری سب سے مہنگی بولی لگا کر اسے خرید لیتے۔ مجھے اعجاز چودھری، ہارون الرشید صاحب اور طیب فاروق صاحب کے ساتھ افغانستان جانے کا بھی اتفاق ہوا، کابل میں ہمارے قیام کے دوران وہاں جنگ چھڑ گئی اور کرفیو کی وجہ سے ہم 5 دن ہوٹل کے کمرے میں محبوس رہے، ہمارے سامنے ٹینک اور توپیں چلتی تھیں اور پھر زخمی ہونے والوں کی چیخ و پکار سنائی دیتی تھی۔

اس سفر کے دوران اعجاز چودھری ہمارے گروپ لیڈر بن گئے نہ صرف ہر مشکل میں سب سے آگے ہوتے بلکہ ہمارے آرام و سکون کا اس قدر خیال رکھا کہ آج تک ان کالے دنوں میں ان کا مہربان سایہ ہمیشہ یاد آتا ہے۔ جماعت اسلامی کو اپنی سیاست کیلئے تنگ پایا تو تحریک انصاف میں شامل ہو گئے، پنجاب کے صدر منتخب ہو کے لاہور سے بنی گالا تک پیدل احتجاجی جلوس نکال کر ریکارڈ قائم کر دیا۔ باوجود پارٹی لیڈر شپ کے تحفظات کے ان کی قربانیوں کا وزن اس قدر زیادہ تھا کہ انہیں سینیٹر بنانا پڑا۔ 9 مئی کے واقعے کے بعد وہ بھی مسلسل جیل میں ہیں۔ انہوں نے ساری زندگی انتخابی اور جمہوری سیاست کی، کبھی تشدد کی طرف نہیں آئے لیکن افسوس یہ ہےکہ ان پر تشدد اور توڑ پھوڑ کے مقدمات قائم ہیں۔ کاش معاشرہ ایسے وفا شعاروں کی بھی وہی قدر کرے جو کرشماتی لیڈروں کی کی جاتی ہے۔ اس ملک میں ان تینوں کارکنوں نے بہادری سے جیل کاٹ کر سارے سیاسی کارکنوں کاسر فخر سے بلند کر دیا ہے۔ معاشرہ کاش ان لوگوں کا مرتبہ پہچانے اور انہیں ان کا جائز مقام دے۔

لاہور کے تیسرے بے چارے میاں محمود الرشید ہیں، ان کا تعلق بھی اسلامی جمعیت طلبہ سے رہا ،لاہور کے صدر رہے جماعت اسلامی کے ٹکٹ پر لاہور سے ممبر صوبائی اسمبلی رہے ،نواز شریف سے بھی اچھی راہ و رسم رہی لیکن پھر وہ بھی تحریک انصاف کے متحرک رکن کی حیثیت سے میدان میں اترے اور علامہ اقبال ٹائون کے حلقے سے مسلسل رکن صوبائی اسمبلی منتخب ہوتے رہے۔ پی ٹی آئی کے دور حکومت میں صوبائی وزیر باتدبیر رہے۔ وہ فیاض اور مہربان ہیں ان کا دستر خوان بہت وسیع ہے وہ مختلف الخیال دوستوں کو اکثر دعوتوں میں مدعو کرتے رہتے ہیں ان محفلوں میں سیاسی مکالمہ ہوتا ہے ایک دوسرے سے مہذبانہ اختلاف کیا جاتا ہے مگر نہ لڑائی ہوتی ہے نہ گالی گلوچ۔

ہندوستان میں سیاسی رہنما جیل کو سسرال قرار دیا کرتے تھے، قید کے دوران ڈالی جانے والی نجیروں کو اپنا زیور کہا جاتا تھا۔ آج کل کے اکثر رہنما جیل کا نام سنتے ہی رونے لگتے ہیں ،معافی مانگ لیتے ہیں لیکن لاہور کے ان 3 بے چاروں نے سیاسی کارکنوں کی لاج رکھ لی ہے اور وہی پرانی روایت تازہ کردی ہے جس پرمولانا حسرت موہانی، مولانا ابوالکلام آزاد، مولانا ظفر علی خان اور مولانا محمد علی جوہر عمل کیا کرتے تھے۔ افسوس تو یہ ہے کہ ہم اپنے بڑے بڑے لیڈروں کی قربانیاں تو یاد رکھتے ہیں لیکن بہادر کارکنوں کی قربانیاں ’’کھوہ کھاتے‘‘میںجاتی رہی ہیں، مفاد پرست اور سکائی لیب ٹکٹ حاصل کرنے والے اقتدار بھی لے لیتے ہیں اور قربانیاں دینے والے کارکن وفاداری کے باوجود نظر انداز ہو جاتے ہیں۔

یہ تینوں لاہوری بے چارے ناکردہ گناہ کی سال سے زیادہ سزا بھگت چکے ہیں، نہ یہ حماد اظہر کی طرح بھاگے، نہ مراد سعید کی طرح روپوش ہوئے، نہ ریاست سے بغاوت کے نعرے لگائے پھر بھی ان کی وفائوں کی اس قدر لمبی سزا ہضم نہیں ہو رہی۔ یہ تینوں تو سرفروش ہیں آخری وقت تک وفا کے نام پر کھڑے رہیں گے ہو سکتا ہے وفا کے نام پر سر بھی کٹا دیں مگر بے وفائی نہیں کریں گے۔ عدالتیں، معاشرہ، مقتدرہ اور ہم سب کیا ان بے گناہوں کو اسی طرح وفا کی سزا دیتے رہیں گے یا کبھی انہیں کامیاب قرار دے کر انہیں رہائی بھی دی جائےگی….!
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے