مادر فروش

ماں کی دعا کو جنت کی ہوا کہا جاتا ہے اگر کوئی اپنے چھوٹے سے فائدے کیلئے اپنی ماں کوبیچ دے تو اس کا کیا انجام ہوگا؟ بزرگوں سے سنا تھا کہ جیسا کرو گےویسا بھرو گے۔ پھر انہیں بزرگوں نے قوم کی ماں کوبیچ دیا اور پھر جو ہوا وہ سب کے سامنے ہے۔ پاکستان آج جن حالات سے دو چار ہے اس کی بہت سی سیاسی و معاشی وجوہات ہیں لیکن ایک بہت بڑی وجہ کا ذکر نہیں کیا جاتا جو دراصل ایک اخلاقی جرم تھا جس میں ایک نہیں بہت سے ادارے اور جماعتیں ملوث تھیں۔ یہ جرم تھا 1965ء کے صدارتی الیکشن میں کچھ بزرگ سیاستدانوں کی طرف سے مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کے ساتھ کیا جانے والا دھوکہ۔ یہ دھوکہ ’’مادر فروشی‘‘ کے زمرے میں آتا ہے۔ قوم کی ماں کے ساتھ جو کچھ پاکستان کے پہلے فوجی ڈکٹیٹر جنرل ایوب خان نے کیا اس کا توبہت ذکر ہوتا ہے لیکن جو کچھ جنرل ایوب خان کی اپوزیشن میں شامل کچھ سیاستدانوں نے کیا اس پر بھی بات کرنے اور اللہ تعالیٰ سے اجتماعی معافی مانگنے کی ضرورت ہے کیونکہ جو کچھ ہم نے قوم کی ماں کے ساتھ اسکی زندگی میں کیا اس کا خمیازہ یہ قوم آج تک بھگت رہی ہے۔

9جولائی محترمہ فاطمہ جناح کا یوم وفات ہے۔ یہی دن میرے والد پروفیسر وارث میر کا بھی یوم وفات ہے۔ میرے والد اکثر کہا کرتےتھے کہ ہم نے مادر ملت کے ساتھ اچھاسلوک نہیں کیا۔ حبیب جالب صاحب کی زبان سے بھی میں نے کئی دفعہ سنا کہ اگر مولانا بھاشانی مادر ملت کو دھوکہ نہ دیتے تو شائد پاکستان نہ ٹوٹتا اور آج حالات مختلف ہوتے۔ 1997ء میں مجھے ایک سابق آئی جی حافظ صباح الدین جامی کی کتاب ’’پولیس، کرائم اینڈ پالیٹکس‘‘ پڑھنے کا موقع ملا جس میں انہوں نے محترمہ فاطمہ جناح کے خلاف صدارتی الیکشن میں کراچی پولیس کی کھلم کھلا مداخلت کا آنکھوں دیکھاحال لکھا تھا۔ وہ 1964ء میں ایس پی اسپیشل برانچ کراچی تھے اور روائیداد خان کمشنر کراچی تھے۔ جامی صاحب نے اپنی کتاب میں لکھا کہ کس طرح ایک حکومتی وزیر عبدالغفار پاشاکھلم کھلا جنرل ایوب خان کے لئے ووٹ خریدتے پھرتے تھے۔ اس الیکشن میں مغربی اور مشرقی پاکستان سے 80 ہزار کونسلروں نے حصہ لیا تھا اورتمام سرکاری ادارے دھونس و دھاندلی سے ان کونسلروں سے ایوب خان کی حمایت حاصل کر رہے تھے۔ جامی صاحب کی کتاب کے بعد میں نے مزید مواد تلاش کیا۔ خان عبدالولی خان، نوابزادہ نصر اللہ خان اور غوث بخش بزنجو نے بہت سی معلومات دیں۔

سب سے زیادہ معلومات ثریا کے ایچ خورشیدکےپاس تھیں جو کئی سال مادر ملت کی پرائیویٹ سیکرٹری رہیں اور کراچی میں ان کے ساتھ ہی رہتی تھیں لیکن وہ بہت محتاط گفتگو کرتی تھیں۔ ان کی کتاب ’’یادوں کی کہکشاں‘‘ مادر ملت کے متعلق معلومات کاایک خزانہ ہے۔ ان کے خاوند کے ایچ خورشید کا تعلق سرینگر سے تھا اور وہ 1944ء میں قائد اعظمؒ کے سیکرٹری بنے۔ قیام پاکستان کے بعد کے ایچ خورشید کچھ اہم کشمیری رہنمائوںکیلئے بانی پاکستان کا پیغام لے کر سرینگر گئے اور وہاں گرفتار ہوگئے۔ انہیںقائد اعظمؒ کی وفات کے بعد رہا کیا گیا۔ محترمہ فاطمہ جناح انہیں اپنے بیٹےکی طرح چاہتی تھیں۔ انہوں نے کے ایچ خورشید کو اعلیٰ تعلیم کیلئے برطانیہ بھیجا۔ وہ بار ایٹ لا کرکے واپس آئےتو مادر ملت کے ساتھ کراچی میں رہائش پذیر ہوئے۔ یہیں مادر ملت نے ان کی شادی کرائی۔ شادی کے بعد میاں بیوی مادر ملت کے ساتھ رہنے لگے۔ حکومت پاکستا ن نے نیوزی لینڈ سے تعلق رکھنے والے ایک مصنف ہیکٹر بولیتھو سے بانی پاکستان پر کتاب لکھوائی۔مادر ملت اس کتاب سے مطمئن نہ تھیں۔ انہوں نے ’’مائی برادر‘‘ کے نام سے خود کتاب لکھ دی جسے حکومت پاکستا ن نے شائع نہ ہونے دیا۔ ثریا کے ایچ خورشید کی یادداشتوں سے پتہ چلتا ہے کہ مادر ملت اسکندر مرزا اور ایوب خان کو سخت ناپسند کرتی تھیں اور ایسی تقریبات میں جانے سے گریز کرتیںجہاں ان طاقتور لوگوں کےآنے کا خدشہ ہوتا۔

1964ء میں جنرل ایوب خان نے صدارتی الیکشن کا اعلان کیا تو حکمران مسلم لیگ کئی دھڑوں میںتقسیم ہو چکی تھی۔ کنونشن مسلم لیگ فوجی ڈکٹیٹر کی حمایت کر رہی تھی۔ کونسل مسلم لیگ کے رہنمائوں ممتاز دولتانہ، سردار شوکت حیات، خواجہ صفدر اور چودھری ظہور الٰہی نے مادر ملت کی حمایت کا فیصلہ کیا۔ نیشنل عوامی پارٹی کے رہنما مولانا عبدالحمید بھاشانی، خان عبدالولی خان، عوامی مسلم لیگ کے شیخ مجیب الرحمان، جماعت اسلامی کے مولانا ابوالاعلیٰ مودودی سمیت کئی جماعتوں نے مادر ملت کی حمایت کا اعلان کردیا۔ مادرملت صدارتی الیکشن لڑنے کیلئے تیار نہ تھیں لہٰذا مولانا بھاشانی ان کے پاس کراچی آئے اور ان سے الیکشن لڑنے کی درخواست کی۔ مولانا بھاشانی کو مادر ملت تحریک پاکستان کے زمانے سے جانتی تھیںلہٰذا انہوں نے الیکشن لڑنے پر آمادگی ظاہر کردی۔ محترمہ فاطمہ جناح کی شخصیت وفاق کی مضبوط علامت بن کرسامنے آئی۔ ملک کے مشرقی حصے میں بھاشانی اور شیخ مجیب ان کے پیچھے کھڑے تھے، مغربی حصے میں ولی خان اور غوث بخش بزنجو سے لیکر خیر بخش مری اور مولانا مودودی ان کےپیچھے کھڑے تھے۔ ک

ے ایچ خورشید مادر ملت کی الیکشن مہم کے انچارج اور دھمکیوں کی زد میں تھے۔ جنرل ایوب خان نے فیئر اینڈ فری الیکشن کی بجائے خفیہ اداروں اور پولیس کے ذریعے دھاندلی اور مار دھاڑ شروع کردی۔ پنجاب میں مادر ملت کے جلسوں پر جگہ جگہ غنڈے چھوڑے گئے۔ بلوچستان میں مادرملت کے پولنگ ایجنٹوں میر جعفر خان جمالی اور غوث بخش بزنجو کو گرفتار کرلیا گیا۔ کچھ مولویوں نے عورت کی حکومت کے خلاف فتویٰ دیا تو مفتی محمد شفیع نے مادر ملت کے حق میں فتویٰ دیدیا۔مشرقی پاکستان میں شیخ مجیب الرحمان نے مادر ملت کے بڑے بڑے جلسے منعقد کرائے جن سے جنرل ایوب خان لرز گیا۔ یہ وہ موقع تھا جب مولانابھاشانی نے 40لاکھ روپے کے عوض مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح کا سودا کرلیا۔ انہو ںنے ایوب خان سے پیسے لیکر مادر ملت کی انتخابی مہم کو اپنے زیر اثر علاقوں میں ٹھنڈا کردیا اور 2 جنوری 1965ء کو انہیں ووٹ بھی نہ ڈلوائے۔ نیپ کی قیادت کوفوراً مولانا بھاشانی کی غداری کا پتہ چلا۔ نیپ کے تین رہنما میاں محمود علی قصوری، خان عبدالولی خان اور ارباب سکندر اس معاملے کی تحقیقات کیلئے پہلے ڈھاکہ اور پھر مولانا کے گائوں پنج بی بی پہنچ گئے اور طویل بحث کے بعد مولانا بھاشانی نے تسلیم کیا کہ انہوں نے چو این لائی کی درخواست پر ایوب خان کی مدد کی (بحوالہ داستان ِخانوادہ میاں محمود علی قصوری)۔

شیخ مجیب نے ڈھاکہ اور چٹاگانگ میں مادر ملت کو جتوا دیا تھالیکن باقی علاقوں میں بھاشانی نے مادر ملت کو ہروا دیا۔ مادر ملت مشرقی پاکستان سے اکثریت حاصل کرلیتیں اور الیکشن جیت جاتیں تو شاید پاکستان نہ ٹوٹتا۔ ایوب خان نے الیکشن جیت کر پاکستان کو ہروا دیا۔اس جرم میں پاکستان کی سول وملٹری بیوروکریسی کے سب سے بڑے سہولت کار مولانا بھاشانی تھے جنہوں نے قوم کی ماں کوبیچ دیا۔ جو قوم اپنی ماں کو بیچ دے وہ کبھی خیر نہیں پاسکتی اس لئے ماضی کے اس سنگین جرم پر آج ہمیں مل کر اللہ تعالیٰ سےاجتماعی معافی مانگنے کی ضرورت ہے۔
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے