چٹاگانگ جس کو اب چٹاگرام کے نام سے جانا جاتا ہے، وہاں کے ایک گاؤں باٹھوآ میں ایک بچہ اٹھائیس جون1940 کو پیدا ہوا ،جن کے والد ایک سنیار تھے اور وہ نو بہن بھائیوں میں تیسرے نمبر پر تھے . وہ اپنے اسکول کے سالوں کے دوران، ایک فعال بوائے اسکاؤٹ تھے اور 1952 میں مغربی پاکستان اور بھارت جبکہ 1955 میں کینیڈا گئے، جہاں انہوں نے جامبوریز میں شرکت کی۔ انہوں نے ڈھاکہ یونیورسٹی میں تعلیم حاصل کی اور پھر امریکہ کی وینڈربلٹ یونیورسٹی میں پی ایچ ڈی کرنے کے لیے فل برائٹ اسکالرشپ حاصل کی۔ یہ سچ شائد بہت سے قارئین کے لیے نیا ہو اور حیران کن بھی کہ ان کو یہ قابل فخر اسکالرشپ بطور پاکستانی ملا اور ایسٹ پاکستان یعنی (سابقہ) مشرقی پاکستان کے کوٹے پر ملا .
خوں آلود "آزادی ” سے بنائے گئے بنگلہ دیش میں 1972 میں ، وہ واپس چٹاگانگ آئے (یہ فل برائٹ فیلوز کے لیے لازمی ہوتا ہے ) ۔
1974 میں شدید قحط نے نو آزاد ملک کو لپیٹ میں لے لیا، جس میں اندازاً 15 لاکھ لوگ ہلاک ہو گئے۔ 1976 میں،چٹاگانگ یونیورسٹی کے قریب جوبرا گاؤں میں سب سے غریب گھرانوں کے دورے کے دوران، جوان سال یونس نے دریافت کیا کہ بہت چھوٹے قرضے ایک غریب شخص کی زندگی میں غیر معمولی فرق ڈال سکتے ہیں۔ گاؤں کی خواتین جو بامبو کے فرنیچر تیار کرتی تھیں، انہیں بامبو خریدنے کے لیے سودی قرضے لینے پڑتے تھے اور اپنے منافع کو قرض دہندگان کو واپس کرنا پڑتا تھا۔ روایتی بینک چھوٹے قرضے دینے کے لیے تیار نہیں تھے کیونکہ ان کے خراب ہونے کا خطرہ بہت زیادہ تھا۔ لیکن انھیں یونس نے یقین دلایا کہ اگر غریبوں کو موقع دیا جائے تو وہ کم سود پر پیسہ لیں گے، محنت کا منافع رکھ سکیں گے، اور اس طرح مائیکرو کریڈٹ یعنی چھوٹا قرضہ ایک قابل عمل کاروباری ماڈل ہے۔
یونس نے اپنے 27 ڈالر 42 خواتین کو قرض دیئے، جنہوں نے ہر ایک قرضے پر 0.50 بنگلا ٹاکا (0.02 ڈالر) کا منافع کمایا۔ اس طرح، یونس کو مائیکروکریڈٹ کے خیال کا خالق سمجھا جاتا ہے۔ یہ اصل میں ایک جرمن ماڈل تھا. یوں یونس صاحب غریبوں کے بینکر بن کر ابھرے اور اتنا کام کیا اور ان کے لیے اتنی کامیاب لابنگ بھی ہوئی کہ ڈاکٹر محمد یونس نے 2006 میں مائیکرو فنانس کے لیے گرامین بینک کی ساجھے داری میں نوبل امن انعام جیتا اور ساتھ ہی دیگر متعدد اعزازات بھی حاصل کیے، جیسے کہ امریکی صدراتی آزادی میڈل، کانگریس گولڈ میڈل، محمد شبدین ایوارڈ برائے سائنس (1993)، سری لنکا؛ ہیومینٹریئن ایوارڈ (1993)، کیئر، امریکہ؛ ورلڈ فوڈ پرائز (1994) وغیرہ وغیرہ. زندگی کے اس سفر میں انھوں نے ایک بنگالی فزکس کی پروفیسر کو شریک حیات بنایا اور پوری دنیا میں لیکچرز دیئے اور اپنے اس خواب کا بھی اعلان کرتے رہے کہ وہ غربت کو بنگلہ دیش میں ختم کر کے اس کو میوزیم /عجائب گھر کا ایک آئٹم بنا دیں گے .
بنگلہ دیش نے انسانی ترقی کے اشاریوں میں بہت ترقی کی. انسانی ترقی کا ماڈل پاکستانی کشمیری ماہر معیشت مرحوم ڈاکٹر محبوب الحق نے دیا تھا. جن کی بنگالن بیگم ڈاکٹر خدیجہ حق خود بھی ایک معاشیاتی ماہر ہیں اور وہی درحقیقت اس مشہور زمانہ ریسرچ کی روح رواں ہیں، جو پاکستان کے بائیس خاندانوں کی معیشت پر اجارہ داری کے حوالے سے تھی اور ڈاکٹر محبوب الحق کے نام سے جانی گئی. ڈاکٹر صاحب 64 سال کی عمر میں ١٩٩٨ کو انتقال فرما گئے. ان کے کام کو امرتیا سین نے آگے بڑھایا اور ان کو نوبل پرائز ملا . میں اکثر ان کو اپنا لوسٹ نوبل پرائز کہہ کر آہ بھرتی ہوں. لیکن ہم پاکستانیوں کی زندگی میں مقامات آہ و فغاں اور بھی ہیں. جس طرح فیمنسم کا ایک بہت بڑا نام پروفیسر نائلہ کبیر کا ہے جو پاکستانی سٹوڈنٹ تھیں جب برطانیہ گئیں مگرلوٹیں تو بنگلادیشی تھیں . ویسے اب تو وہ برطانوی ہیں اور گلوبل سٹیزن کہلاتی ہیں. اسی طرح ڈاکٹر یونس کی کہانی ہے. جو اب چوراسی سال کی عمر میں بنگلہ دیش کی عبوری حکومت کی سربراہی کریں گے . کتنے ہی اور ایسے جگمگاتے ستارے ہوں گے جو سبز ہلا لی پرچم سربلند رکھنے کا عزم لئے ہلکے ہرے رنگ کے پاسپورٹ پر 1971 سے پہلے دیار غیر گئے تھے مگر رنگ سیاست نے ان کو گہرے سبز رنگ کا پاسپورٹ اختیار کرنے پر قائل کیا . نجانے پاکستان کے پاس ایسے طالب علموں کا ان کے کوٹے کا کوئی ریکارڈ ہے بھی کہ نہیں .
کاش ہم اب ایک ہوش مند قوم بن جائیں ، زیاں کا احساس کر لیں اور سب پاکستانیوں کو برابر کا مان کر ساتھ لے کر چلیں . —————-
ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم اور کتابیں لکھتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ‘ تولیدی صحت ‘ میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں. تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں. گزشتہ دس بارہ برسوں سے بنگلہ دیش میں پاکستانی بہاری محصورین کے حوالے سے آگاہی بھی بیدار کر رہی ہیں.