دردِ دل اور دردِ ڈسکو

فراڈ، دونمبری اور دھوکا دہی کے باوجود پاکستان میں سخاوت، مدد اور خلق خدا کے کام آنے والوں کی بھی کوئی کمی نہیں۔ میں نے پاکستان سے باہر رہنے والے لوگوں میں یہ جذبہ کچھ زیادہ ہی دیکھا ہے۔ اس کی ایک مثال یوکے میں مقیم معروف شاعر احسان شاہد کی ہے جنہوں نے وہاں اوپن کچن کے نام سے سب کی مدد کی ٹھانی اور آج ایک دنیا اُن کے کام کو مانتی ہے۔ بہترین شاعر قمر ریاض مسقط میں ہوتے ہیں اور پاکستانیوں کے خدمت کے جذبے سے ہمیشہ لبریز نظر آتے ہیں۔

ایسا ہی ایک بڑا نام عبدالرزاق ساجد کا ہے جو رہتے تو انگلینڈ میں ہیں لیکن ان کی مدد کا جذبہ پاکستان سے لے کر دیگر ممالک تک پھیلا ہوا ہے۔یہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے چیئرمین ہیں اور 1983 سے لوگوں کی آنکھوں میں بینائی کی روشنی پھیلانے میں اہم کردار ادا کر رہے ہیں۔ یہ ٹرسٹ مستحق لوگوں کو عزت و احترام سے کھانا کھلانے کے ساتھ ساتھ ان کے علاج معالجے میں بالکل فری کام کر رہا ہے۔گزشتہ دنوں لاہور کے ایک ہوٹل میں برادرم مجیب الرحمن شامی، پیرضیاء الحق نقشبندی اور احباب نے عبدالرزاق ساجدکے اعزاز میں ایک محفل کا اہتمام کیا جس میں لاہور کے نامور اہل قلم اور مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والے افراد نے شرکت کی جن میں خاکسار کے علاوہ مجیب الرحمن شامی، سجاد میر، صوفیہ بیدار، خالد ارشاد صوفی، علی رضا احمد، نواز کھرل، نوشاد علی،منصور آفاق،گل نوخیزاختر، شاہد نذیر،نجم ولی خان، محسن بھٹی،ڈاکٹر شفیق جالندھری اور دیگر شامل تھے۔ اس محفل کی خاص بات یہ تھی کہ اسے ’چوکور میز‘ کانفرنس کی طرز پر ڈیزائن کیا گیا تھااور سب حاضرین کو دو دو منٹ بات کرنے کا موقع دیا گیا۔

ایک بات پر سبھی متفق تھے کہ عبدالرزاق ساجد انتہائی محنتی اور خدمت خلق کا جذبہ رکھنے والی شخصیت ہیں جس کا ثبوت المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کی شکل میں سامنے ہے۔ اس ٹرسٹ کے زیراہتمام چلنے والے ہسپتالوں میں مستحق مریضوں سے پرچی فیس بھی نہیں لی جاتی اور مریض کے ساتھ ساتھ اس کےاٹینڈنٹ کو بھی بہترین کھانا مفت دیا جاتاہے۔کھانے کے معیار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ یہی کھانا اسٹاف اور ڈاکٹرز بھی کھاتے ہیں۔عبدالرزاق ساجد نے بتایا کہ آنکھوں کے امراض کے حوالے سے ان کا ٹرسٹ بہت کام کر رہا ہے، ان کا کہنا تھا کہ لوگ عموماًبینائی کی کمزوری کو بڑھاپے سے تعبیر کرتے ہیں اور بزرگوں کی اس مشکل کا حل نکالنے کی کوئی خاص کوشش نہیں کرتے، انہوں نے بتایا کہ لڑکپن میں جب وہ گاؤں میں ہوتے تھے تو اُن کی دادی نے ایک دفعہ شکایت کی کہ مجھے قرآن پاک پڑھنے میں بڑی مشکل پیش آتی ہے۔

یہ سن کر عبدالرزاق نے طے کرلیا کہ وہ اسی حوالے سے کام کریں گے اور لوگوں کی آنکھوں کی روشنی واپس لانے اور برقرار رکھنے کے لیے اپنا کردار ادا کریں گے۔اس کے بعد وہ اپنی دادی کو شجاع آباد کے ہسپتال میں لے کر گئے، ان کی آنکھوں کا علاج کروایا اور جب دادی کی آنکھیں بہت بہتر ہوگئیں تو عبدالرزاق بتاتے ہیں کہ وہ گاؤں سے واپسی پر دور تک اُنہیں بس کی طرف جاتے ہوئے دیکھا کرتی تھیں۔اس محفل میں ایک نکتہ گل نوخیزاختر نے اٹھایا، انہوں نے درخواست کی کہ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ اسپیشل بچوں کے حوالے سے بھی کسی اسٹیٹ آف دی آرٹ ادارے کے قیام کا بیڑہ اٹھائے۔ اس موقع پر تمام شرکائے محفل نے اس کی تائید کی۔ یہ سچ ہے کہ اسپیشل بچوں کے حوالے سے ہمارے ہاں منسٹری بھی موجود ہے، سرکاری اور پرائیویٹ ادارے بھی ہیں لیکن پھر بھی اسپیشل بچوں کے والدین مطمئن نظر نہیں آتے۔ پرائیویٹ اداروں میں اتنی بھاری فیسیں ہیں کہ بعض اوقات مائیں ان اداروں میں اپنے بچوں کو داخل کرانے کے لیے خود بھی ان اداروں میں جاب کرلیتی ہیں۔

اکثر ادارے علاج کے نام پر ’ڈے کیئر سنٹر‘ کا کردار ادا کرتے ہیں یعنی یہ بچے کو ماں باپ سے کچھ گھنٹے دور اپنے پاس رکھنے کے پیسے لیتے ہیں لیکن ان کی تشہیر ایسے کرتے ہیں گویا ان سے اچھا کام کوئی نہیں کر رہا۔ ایسے ادارے چونکہ ڈونیشن پر چلتے ہیں لہذا کئی اداروں میں ساری توجہ صرف ڈونیشن اور ڈونرز پر مرکوز ہوتی ہے۔میری خواہش ہے کہ اگر عبدالرزاق شاہد جیسے درد دل رکھنے والے لوگ اسپیشل بچوں کے لیے اسپیشل ادارے بنائیں تو مزید دعائیں سمیٹ سکتے ہیں۔پیر ضیاء الحق نقشبندی چونکہ خود بھی بھلائی کے کاموں میں پیش پیش ہوتے ہیں لہذا انہوں نے احباب کو اس محفل میں بلا کر پورے عزت و احترام کے ساتھ المصطفیٰ ویلفیئر ٹرسٹ کے بارے میں بتایا۔ اس سے قبل نواز کھرل صاحب نے ٹرسٹ کی جو تفصیلات اور کام بیان کیے ان کے لیے الگ سے تین کالم درکار ہیں لیکن یہ کام ایسے ہیں کہ نہ صرف نظر آتے ہیں بلکہ بے اختیار دل سے عبدالرحمن ساجد کے لیے کلمہ خیر بھی نکلتاہے۔

میرا ماننا ہے کہ جولوگ خلق خدا کے کام آتے ہیں وہ ہمہ وقت خدا کی عنایتوں کے حصار میں رہتے ہیں اور جن کا دماغ مخلوق کی بربادی اور اپنی بھلائی پر مرکوز رہتا ہے وہ اس دنیامیں کہیں بھی بسیرا کرلیں نہ اُنہیں سکون نصیب ہوتا ہے نہ خوشی۔یہ وہ لوگ ہیں جو اپنی طاقتوری کے دور میں فرعون ہوتے ہیں، جھوٹ کا علم بلند کرتے ہیں اور حق کی رسوائی میں اپنا حصہ ڈالتے ہیں۔ یہ درد ِ دل کی بجائے دردِ ڈسکو محسوس کرتے ہیں اوربڑے فخر سے پروٹوکول کا بھتہ وصول کرتے ہوئے ڈیم کے نام پر چندے کھاتے ہیں۔ لیکن پھر ایک وقت آتا ہے جب ان کے نیچے سے کرسی نکلتی ہے، تب یہ باہر کا رخ کرتے ہیں اور عاجزی کا ڈھونگ رچا کردنیا کو بتاتے ہیں کہ ’سچ صرف اپنی کتاب میں لکھوں گا جو میرے مرنے کے بعد شائع ہوگی‘۔ ایسے لوگوں کو شائد یہ اندازہ نہیں کہ عوام ان کی کتاب کی اشاعت کے کتنی شدت سے منتظر ہیں!!
بشکریہ جنگ

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے