نوٹ :موجودہ عرب اسرائیل جنگ کے تناظر میں کالم میں پائی گئی کوئی مطابقت اتفاقی ہو گی:
دو عشرے قبل کراچی کے ایک فائیوا سٹار ہوٹل سے نکلتے ہوئے میری نظر گیٹ پر بیٹھے ایک مفلوک الحال سے شخص پر پڑی اس نے اپنے ہاتھ پر ایک عقاب بٹھایا ہوا تھا اور اس کی آنکھوں پر پٹی بندھی ہوئی تھی۔ میں نے سوچا کہ اقبال کے پیروکار ہیں عقاب کا ذکر بہت سنا ہے کیوں نہ اسے آج قریب سے دیکھ لیں۔ چنانچہ میں اس شخص کے پاس گیا میں نے دیکھا کہ اس شخص نے مضبوط ڈوری کے ایک سرے سے عقاب کی ٹانگیں باندھی ہوئی تھیں اور دوسرا سرا اپنے ہاتھ کے گرد لپیٹا ہوا تھا۔ عقاب کی آنکھوں پر چمڑے کی ’’عینک‘‘ تھی جس کی وجہ سے وہ دیکھ نہیں سکتا تھا مگر وہ مضطرب انداز میں اپنی گردن اِدھر اُدھر گھما رہا تھا ۔ میں نے اس شخص سے پوچھا ’’یہ عقاب بکنے کیلئے ہے‘‘۔’’ہاں جی بکائو مال ہے‘‘ اس نے کہا مگر میں نے محسوس کیا کہ اسکے لہجے میں خاصی بےاعتنائی ہے اسے اس امر سے کوئی دلچسپی نہیں کہ میں نے یہ سوال اس کا مال خریدنے کیلئے کیا ہے یا محض وقت گزاری کررہا ہوں۔ تھوڑی دیر بعد ایڑیوں کے بل بیٹھے اس شخص نے گردن موڑ کر ہوٹل کی لابی کی طرف نظر دوڑائی اور اپنے برابر میں بیٹھے ہوئے شخص سے کہا ’’ابھی تک آیا نہیں!‘‘۔’’آجائے گا!‘‘ اس کے ساتھی نے اطمینان سے جواب دیا۔’’کیوں میاں اس کا کیا لوگے؟‘‘
میں نے اپنے ذوقِ تجسس کی تسکین کے لئے پوچھا۔’’ایک لاکھ ستر ہزار روپے‘‘ اس نے میری طرف دیکھے بغیر کہا اور اس کی نظریں لابی کی طرف تھیں۔ ’’ایک لاکھ ستر ہزار روپے؟‘‘ حیرت سے میرا منہ کھلے کا کھلا رہ گیا۔’’ہاں جی!ابھی یہ بچہ جو ہے تبھی تو قیمت کم ہے!‘‘ اس نے کہا۔’’ابھی آیا نہیں‘‘ اس نے ایک بار پھر ایڑیاں اٹھا اٹھا کر لابی کے دروازے کی طرف دیکھتے ہوئے کہا۔ ’’آجائے گا یار، آجائے گا، کہیں نہیں جاتا‘‘ اس کے ساتھی نے یقین سے کہا۔’’تم کس کا انتظار کررہے ہو؟‘‘ میں نے پوچھا۔’’ایک گاہک کا انتظار ہے‘‘۔ ’’اگر اتنے پیسے مانگو گے تو قیامت تک اس کا انتظار ہی کرتے رہو گے!‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔ ’’ایک پچاس مول تو وہ لگا گیا ہے، میں نے اسے ایک اسی قیمت بتائی ہے، ستر تک بیچ دوں گا‘‘۔’’مگر وہ کون احمق ہے جو ایک پرندے کے تمہیں اتنے پیسے دے گا‘‘۔’’وہ احمق نہیں ہے، ایک عرب شیخ ہے۔ میرے عقابوں کے بڑے اچھے گاہک ہیں‘‘۔ مجھے یہ سن کر کچھ چپ سی لگ گئی۔تھوڑی دیر بعد میں نے خود کو سنبھالا اور پوچھا ’’اچھا یار ایک بات تو بتائو، تم نے عقاب کی آنکھوں پر پٹی کیوں باندھی ہوئی ہے؟‘‘’’اس کی آنکھیں کھلی ہوں تو یہ اپنی نوکیلی چونچ بار بار ہاتھوں میں گاڑ دیتا ہے اور بوٹی نکال کر لے جاتا ہے ابھی ناسمجھ ہے آہستہ آہستہ ٹھیک ہوجائے گا‘‘۔
میرے ذہن میں ابھی تک اس کی قیمت پھنسی ہوئی تھی چنانچہ میں ایک دفعہ پھر واپس اپنے موضوع کی طرف آیا ’’ایک پرندے کے اتنے پیسے بہت زیادہ ہیں اس میں ایسی کون سی خاصیت ہےبالکل چیل کی طرح۔’’چیل اور عقاب میں بہت فرق ہے جناب!‘‘ اس نے ہنستے ہوئے کہا۔مجھے اس کی یہ ہنسی بےموقع لگی مگر وہ بولا ’’عقاب کی اڑان اور اس کی دیگر خصوصیات سے تو آپ واقف ہی ہیں لیکن جو عقاب ہم بیچتے ہیں وہ سدھائے ہوئے ہوتے ہیں۔ یہ جو اس وقت میرے ہاتھ پر بیٹھا ہے بلا کا شکاری ہے۔ یہ بٹیر، تیتر، مرغابی اور دوسرے پرندوں کا پیچھا کرتا ہے اور انہیں زندہ اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے مالک کے قدموں میں ڈھیر کردیتا ہے، لہٰذا اس کے قدر دان بہت ہیں‘‘۔یہ پرندے کو شکار کرکے خود کیوں نہیں کھاتا؟‘‘ میں نے پوچھا۔ہوا عقاب ہے‘‘۔ ’’دوسرے لفظوں میں یہ ملازمت پیشہ عقاب ہے‘‘ میں نے ہنستے ہوئے کہا۔’’جی جی‘‘ اس نے اپنے میلے میلے دانت نکالتے ہوئے کہا ’’ویسے بھی جب اسے شکار پر چھوڑا جاتا ہے تو گوشت کا ایک ٹکڑا اس کی ٹانگوں کے ساتھ باندھ دیا جاتا ہے تاکہ اسے تسلی رہے‘‘۔
’’اگر برا نہ مانو تو آخر میں آپ سے ایک بات پوچھوں؟‘‘ میں نے کہا۔’’پوچھو جناب! پوچھو‘‘
’’تم اتنا مہنگا کاروبار کرتے ہو مگر تمہاری اپنی حالت کچھ اتنی اچھی نہیں ہے؟‘‘۔’’بابو جی! آپ بھی بھولے بادشاہ ہیں اس عقاب کا مالک میں تھوڑے ہی ہوں، میں تو اسے کمیشن پر بیچ رہا ہوں، یہ اگر بک جائے تو چار پیسے مجھے بھی مل جائیں گے۔‘‘ عقابوں کے کمیشن ایجنٹ نے ایک بار پھر لابی کی طرف ایڑیاں اٹھا کر دیکھا۔ اس دوران کھڑے کھڑے میری طبیعت متلانے لگی تھی۔ میں نے باہر سڑک پر نظر دوڑائی تو انسانوں کا ایک سیلاب اپنی اپنی منزلوں کی طرف رواں دواں تھا۔ ان لمحوں میں مجھے یوں لگا جیسے ان سب کی ٹانگوں میں گوشت کا ایک ایک ٹکڑا باندھ کر انہیں شکار پر چھوڑ دیا گیا ہے اور وہ اس شکار کو اپنے پنجوں میں دبا کر اپنے آقا کے قدموں میں ڈھیر کرنے کے لئے گھروں سے نکلے ہیں۔ آنکھوں پر بندھی پٹی اور ٹانگوں میں بندھی رسی والا عقاب مضطرب انداز میں اپنی گردن ادھر ادھر گھما رہا تھا میں نے اس عقاب کو ڈبڈباتی ہوئی آنکھوں سے دیکھا اور کہا؎
تو شاہیں ہے پرواز ہے کام تیرا
ترے سامنے آسماں اور بھی ہیں
اتنے میں کمیشن ایجنٹ کے چہرے پر رونق سی آگئی۔ ’’وہ عرب شیخ آگیا ہے دعا کریں بابو جی سودا ہوجائے!‘‘
آخر میں اپنی ایک غزل کے چند اشعار
سمندر بیچ دیتے ہیں فضائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے پر کٹے ساری اڑانیں بیچ دیتے ہیں
یہ بیوپاری عقیدوں کے پجاری ہیں فقط زر کے
یہ مندر، مسجدیں، گرجے، کپھائیں بیچ دیتے ہیں
ہمارے شہر کے سارے درختوں کے یہ بیری ہیں
ہمارے شہر کی تازہ ہوائیں بیچ دیتے ہیں
انہیں معلوم کیا غیرت حمیت نام ہے کس کا
یہ دھرتی بیچ دیتے ہیں یہ مائیں بیچ دیتے ہیں
بہت سفاک لوگوں میں عطا رہنا پڑا مجھ کو
جو نغمے بیچ دیتے ہیں جو تانیں بیچ دیتے ہیں
بشکریہ جنگ