پاکستان اور گلگت بلتستان میں سرکاری نوکری کو اکثر ایک سونے کی کان سمجھا جاتا ہے۔ یہ تاثر ہے کہ جو ایک بار سرکاری ملازم بن جائے، اس کی زندگی کی ساری مشکلات ختم ہو جاتی ہیں۔ حقیقت مگر اس سے کافی مختلف ہے، خاص طور پر ان افراد کے لیے جو ایمانداری سے اپنے فرائض انجام دینے کی کوشش کرتے ہیں۔ اگر کسی کے پاس مضبوط سیاسی یا مذہبی اپروچ نہ ہو یا بھاری بھرکم رشوت نہ ہو ، تو سرکاری نوکری کا مطلب محض خجل خواری ہے۔
ایماندار سرکاری ملازمین کے لیے دفاتر کا ماحول خاصا چیلنجنگ ہوتا ہے۔ بدعنوانی، اقربا پروری اور طاقتور لوگوں کی سفارش کے بغیر کسی کام کو سرانجام دینا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ایماندار اور عام سرکاری ملازمین کو ان کے حقوق اور جائز مراعات سے محروم رکھا جاتا ہے۔ اور اسی طرح سرکاری دفاتر میں اکثر ایسا ہوتا ہے کہ معاملات کو ٹال مٹول سے نپٹایا جاتا ہے۔ افسران اپنی شاندار مہارت سے سائلین کو ٹرخا دیتے ہیں، اور سائلین کو اس کا ادراک اس وقت تک نہیں ہوتا جب تک وہ بار بار خالی ہاتھ واپس نہیں لوٹ جاتے۔
یہ بھی دیکھا گیا ہے کہ ان دفاتر میں ترقی، تبادلے اور دیگر مراعات کے لیے میرٹ کو نہیں بلکہ تعلقات، سفارش اور رشوت کو بنیاد بنایا جاتا ہے۔ ایماندار سرکاری ملازمین جو اپنے اصولوں اور دیانتداری پر قائم رہتے ہیں، وہ اکثر مایوسی کا شکار ہو جاتے ہیں جب دیکھتے ہیں کہ ان کی محنت اور لگن کی کوئی قدر نہیں کی جا رہی۔ ان کے سامنے ایسے افراد کو نوازا جاتا ہے جو یا تو بھاری بھرکم رشوت دینے کی صلاحیت رکھتے ہیں یا جن کے پاس کسی بڑے سیاسی یا مذہبی شخصیت کی سفارش ہوتی ہے، ایسی سفارش جس کو ٹالنا ان بیوروکریٹس کو مشکل ہو۔
اختیارات کا غلط استعمال بھی سرکاری اداروں میں ایک معمول کی بات بن چکا ہے۔ بہت سے صاحبِ اختیار افراد اپنی طاقت کا استعمال ذاتی مفادات اور تعلقات کے لیے کرتے ہیں، اور یہ سب کچھ اتنی مہارت سے کیا جاتا ہے کہ عام آدمی کے لیے اسے سمجھنا مشکل ہو جاتا ہے۔ ان حالات میں ایماندار ملازمین کے لیے اپنی پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کو دیانتداری سے نبھانا نہایت مشکل ہو جاتا ہے۔
جب ایماندار ملازمین کو یہ احساس ہوتا ہے کہ ان کی دیانتداری اور محنت کی کوئی اہمیت نہیں ہے، تو یہ ان کے لیے ایک بڑا ذہنی دباؤ بن جاتا ہے۔ وہ دیکھتے ہیں کہ ان کے اردگرد کے لوگ جھوٹ، فریب، اور اقربا پروری کے ذریعے ترقی کی منازل طے کر رہے ہیں، جبکہ وہ اپنی دیانتداری کی وجہ سے پیچھے رہ جاتے ہیں۔ یہ صورتحال ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں بے چینی اور مایوسی کو جنم دیتی ہے۔
ایسی صورتحال میں ضروری ہے کہ حکومت اور سرکاری ادارے اپنے نظام میں اصلاحات لائیں تاکہ ایماندار ملازمین کی محنت اور دیانتداری کو سراہا جائے۔ اس کے لیے سب سے پہلے میرٹ بیسڈ نظام کو فروغ دینا ہوگا، تاکہ تقرریوں، تبادلوں اور ترقیوں میں شفافیت ہو۔ بدعنوانی کے خلاف سخت قوانین بنانے اور ان پر عمل درآمد کو یقینی بنانے کی بھی اشد ضرورت ہے۔
ایک مؤثر احتسابی نظام کی تشکیل بھی ناگزیر ہے، تاکہ اختیارات کا ناجائز استعمال کرنے والے افسروں کو جواب دہ بنایا جا سکے۔ یہ اقدامات نہ صرف سرکاری اداروں میں ایمانداری اور دیانتداری کو فروغ دیں گے، بلکہ عوام کا سرکاری اداروں پر اعتماد بھی بحال ہوگا۔ ایماندار سرکاری ملازمین کو عزت اور وقار کی زندگی گزارنے کا حق دینا ایک ایسا ہدف ہے جس کی تکمیل کے بغیر ہمارے معاشرتی اور ادارہ جاتی نظام کی بہتری ممکن نہیں۔