پشتون جرگے کی کہانی اور سندھ کی تین تصویریں

پشتون جرگے کی مختصر کہانی مکمل ہے، مگر سندھ سے پہنچنے والی تین تصویروں نے توجہ کھینچ لی ہے۔

یہ تصاویر تین دن بعد پشاور میں باقاعدہ نیٹ کی سہولت میسر آنے کے بعد ہمیں ملی ہیں۔

یہ تصویریں سندھ کے موسیقار سیف سمیجو، جی داری کے ساتھ میدان میں موجود ایکٹوسٹ ڈاکٹر سورتھ اور رومیسہ چانڈیو کی ہیں۔

سیف سمیجو کو گریبان سے پکڑ کر بے دردی کے ساتھ کھینچا جا رہا یے، ڈاکٹر سورتھ پولیس کی خستہ حال سی وین میں ہیں اور رومیسہ کو بے رحمی سے زمین پر گھسیٹ کر خدا جانے کیوں اور کہاں لے جایا جارہا ہے۔؟

آرٹ اور موسیقی کی زبان آفاقی ہے۔ سیف سمیجو کے ساتھ اسی زبان کا رشتہ ہے۔

ڈاکٹر سورتھ کے ساتھ دو رشتے ہیں۔ ایک رشتہ فکر کا ہے، دوسرا سلامتی فیلو شپ کا ہے۔

رومیسہ کے ساتھ تین رشتے ہیں۔ ایک رشتہ فکر کا ہے، ایک رشتہ سلامتی فیلو شپ کا ہے اور ایک رشتہ اس بات کا ہے کہ وہ سندھ دھرتی کے مستند دانشور، استاد و مہربان جامی چانڈیو کی بیٹی ہیں۔

یہ سارے مناظر دیکھ کر دل حد سے زیادہ اداس ہو گیا، مگر انسان کمزور ہے، اسے اطمینان چاہیے ہوتا ہے۔

یہ سوچ کر دل کو اطمینان ہوا کہ سندھ کے اساتذہ، ادیب، دانشور، آرٹسٹ اور عورتیں جبر کے موسم میں بھی اپنی ذمہ داریوں سے غافل نہیں ہیں۔

ایسے حالات میں کہ جب مولوی سرہندی ڈاکٹر شاہنواز کو ماورائے عدالت قتل کرنے والے قاتلوں کو ہار پہنا رہا تھا، تب یہ لوگ انصاف مانگنے کے لیے ‘رواداری مارچ’ میں شرکت کر رہے تھے۔

مذہبی انتہا پسندی ایک حقیقت ہے اور اس حقیقت نے پورے ملک کو ہی اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے، مگر اس کے خلاف مزاحمت اگر کہیں نظر آتی ہے تو وہ سندھ ہے۔

یہ پہلی بار نہیں ہے کہ سندھ کے اجتماعی شعور نے پیشوائیت کے خلاف یوں بے جگری کے ساتھ مزاحمت کی ہے۔ سندھ کا اجتماعی شعور تب بھی آٹھوں پہر جاگ رہا تھا جب جھوٹی خبر پر ہندووں کی آبادی کو مندروں سمیت جلایا رہا تھا۔

یہ شعور تب بھی بیدار تھا، جب توہین مذہب کے الزام پر سندھی ایکٹوسٹ، دانشور اور استاد عرفانہ ملاح کا گھیراؤ کیا گیا تھا۔ اور تب بھی، جب مولوی سرہندی نے ہی ہم سب کے استاد و مربی سائیں امر جلیل کے سر کی قیمت رکھ دی تھی۔

یہ منظر نامہ دیکھ کر ہمیشہ سندھ پر رشک آتا ہے۔ ساتھ یہ خیال بھی آتا ہے کہ ہب وہ دن آئے گا کہ جب ہمارے پختونخوا وطن میں بھی عورتیں سندھ والے رنگ و آہنگ کے ساتھ جبر کے خلاف کھڑی ہوں گی۔۔

جامی چانڈیو، امر سندھو، نور الھدی شاہ اور عرفانہ ملاح جیسی نمائندہ ہستیوں سے ہمدردی کا اظہار کرتے ہوئے جھجک ہورہی ہے۔ یہ کہتے ہوئے البتہ بہت حوصلہ محسوس ہو رہا ہے کہ آپ سب نے ہم سب کے لیے ایک مثال قائم کردی ہے۔

اب یہ ہم پر ہے کہ اس مثال پر سے یونہی بے توجہی کے ساتھ گزر جاتے ہیں یا پھر اس سے کچھ روشنی لے کر ہم اپنے اپنے گھر کے اندھیرے دور کرتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے