پنجاب کی کابینہ نے حال ہی میں اجتماعی شادیوں کے ایک بڑے پروگرام کی منظوری دی ہے، جس کے تحت صوبے میں غریب خاندانوں کی تین ہزار لڑکیوں کو مالی مدد فراہم کی جائے گی۔ وزیر اعلیٰ محترمہ مریم نواز کی قیادت میں ہونے والے اجلاس میں فیصلہ کیا گیا ہے کہ دلہنوں کو اے ٹی ایم کارڈ کے ذریعے ایک لاکھ روپے اور دیگر تحائف جیسے فرنیچر اور کپڑے دیئے جائیں گے۔ بظاہر یہ اقدام سماجی انصاف کے نام پر اٹھایا گیا ہے، لیکن کیا یہ حقیقت میں خواتین کی خودمختاری کی راہ ہموار کر رہا ہے یا انہیں مزید پسماندگی کی طرف دھکیل رہا ہے؟
پاکستان میں جہیز کے خلاف میری جدوجہد کئی دہائیوں پر محیط ہے، جس کا آغاز 1995 میں پی ٹی وی پر لائیو مارننگ شوز اور کالمز میں اس مسئلے کو اجاگر کرنے سے ہوا۔ 1999 میں، میں نے ڈاکٹر خان کے ساتھ ساشے پاکستان اور 2001 میں آگہی جیسے اداروں کی بنیاد رکھی، جہاں کمیونٹی کی خدمت اور آگاہی کے ذریعے جہیز سے متعلق تشدد کے خلاف مؤثر مہمات چلائیں۔ 2001 میں FAD (Fight Against Dowry) پروجیکٹ کا آغاز کیا اور مختلف فورمز پر اپنی تحقیق اور آرٹس کے ذریعے عوام کو اس تشدد کی سنگینی سے آگاہ کیا۔ 2003 میں پی ٹی وی اور اے آر وائی پر جہیز مخالف ٹی وی شوز نشر کیے اور FADAN (Fight Against Dowry Advocacy Network) کے تحت قومی اور بین الاقوامی سطح پر جہیز کے خاتمے کے لیے آواز بلند کی۔
جہیز کی فرمائش اور نمائش کے خلاف اور بڑی فیشن ایبل شادیوں کے کلچر کو میں ہمیشہ چیلنج کرتی آئی ہوں اور آج بھی اس طرح کے نئے پروگرام کو ایک سطحی اور ناپائیدار حل قرار دیتی ہوں۔ یہ اقدام خواتین کے حقیقی مسائل کو حل کرنے کے بجائے مزید معاشرتی دباؤ کو بڑھاتا ہے، خاص طور پر ایسے وقت میں جب ماضی میں بھی پنجاب حکومت فضول خرچی والی شادیوں کے خلاف قوانین بنا چکی ہے، لیکن ان کا اطلاق کمزور رہا ہے۔
ماضی میں اس وقت کے وزیر اعلیٰ شہباز شریف نے فضول خرچی والی شادیوں کے خلاف اقدامات کرتے ہوئے ایک ڈش پر مبنی شادی کے کھانے اور شادی ہالز کو مقررہ وقت پر بند کرنے کے سخت احکامات جاری کیے تھے۔ ان قوانین کا مقصد شادیوں کے بھاری اخراجات کو کم کرنا اور سادہ شادی کا کلچر فروغ دینا تھا۔ لیکن یہ قوانین بھی پائیدار تبدیلی نہیں لا سکے۔ ان اقدامات کے باوجود، بڑی اور مہنگی شادیوں کا رجحان بدستور برقرار ہے اور یہ نئے اجتماعی شادیوں کے پروگرام بھی اسی رجحان کو مضبوط کرنے کا ذریعہ بن رہے ہیں۔
خرچ کے پیچھے چھپی اصل حقیقت کو شاید سمجھا ہی نہیں گیا، نہ ہی ہمارے ایلیٹ طبقے کو اس کی سمجھ کی ضرورت ہے۔ ان کے لیے صرف سیاست کرنی ہے، چاہے اس میں کسی انسان کی تذلیل ہو جائے۔ غریب، محکوم اور مجبور طبقات کی بیٹیاں کہاں برابر ہو سکتی ہیں؟ مراعات یافتہ خواتین کی الگ دنیا اور اصول ہیں۔
اس قسم کے منصوبے وقتی تسکین تو دے سکتے ہیں، لیکن یہ خواتین کی خودمختاری کے حقیقی مسائل کو حل نہیں کرتے۔ فرنیچر، کپڑے، اور ڈنر سیٹ جیسے تحائف دراصل جہیز کی روایت کو مزید تقویت دیتے ہیں اور یہ تاثر پیدا کرتے ہیں کہ شادی محض ایک معاشرتی نمائش ہے جسے پورا کرنے کے لیے بھاری اخراجات ضروری ہیں۔
اگر ہم صرف رقم اور سامان دے کر خواتین کی زندگیوں میں تبدیلی لانا چاہتے ہیں تو یہ نہایت سادہ اور خود فریبی پر مبنی سوچ ہے۔ یہ پروگرام دراصل ان روایات کو مضبوط کرتا ہے جن سے ہم لڑتے آ رہے ہیں۔
شادی کی ترغیبات کے لیے ایپس پر بھی کبھی بات ہوگی، جو بظاہر بے ضرر اور خوشنما لگتی ہیں اور ایوارڈز بھی حاصل کرتی ہیں۔
خواتین کی خودمختاری اور پائیدار تبدیلی ایک مہم جوئی ہے جس کے لیے ہمدرد، ذہین، اور بہادر افراد کی ضرورت ہوتی ہے، نہ کہ خوشامد پسند، موقع پرست، اور وائرل پوڈکاسٹ یا ٹک ٹوک بنانے والے ایک مخصوص طبقے کی، جو ہر حکومت کو ناکام کرنے میں کردار ادا کرتے ہیں۔
میرا ماننا ہے کہ حقیقی تبدیلی اسی وقت آئے گی جب خواتین کو حقیقی طور پر سماجی اور معاشی طور پر مضبوط کیا جائے گا۔ اس کے لیے ایسی پالیسیاں درکار ہیں جو خواتین کو محض امداد فراہم کرنے کے بجائے ان کی صلاحیتوں کو نکھاریں اور انہیں مستقل طور پر معاشی خودمختاری فراہم کریں۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو خواتین کو خودمختار بنائیں، نہ کہ انہیں تحائف اور امداد کی صورت میں وقتی راحت فراہم کریں۔
سابق چیف منسٹر شہباز شریف کی قیادت میں پنجاب میں فضول خرچی کے خلاف جو قوانین بنائے گئے تھے، وہ اس بات کی نشاندہی کرتے ہیں کہ حکومت کو شادیوں کے بے جا اخراجات کا ادراک تھا۔ شاید میری جیسی کچھ کاوشیں بھی پی ایم ایل (نون) کے قابل، مفکر اور انسان دوست رکن بیرسٹر ظفر کے ذریعے ان تک پہنچیں۔ لیکن یہ نرم قوانین بھی معاشرتی رویوں میں تبدیلی لانے میں ناکام رہے، کیونکہ حکومتی ارکان کی اکثریت جہیز پر پابندی اور دھوم دھڑکے کے بغیر شادی کے خلاف ہے۔ اور اس کا حل خیراتی شادی نہیں ہے، جس میں جذبات اور انسانی وقار مجروح ہوتا ہے۔
اب موجودہ چیف منسٹر مریم نواز کے اجتماعی شادیوں کے پروگرام میں جو امداد فراہم کی جا رہی ہے، وہ نہ صرف فضول خرچی کی روایت کو مضبوط کر رہی ہے بلکہ خواتین کی وکٹم ہڈ کو بھی۔
یہ پروگرام ایک بار پھر ثابت کرتا ہے کہ ہمارا معاشرہ خواتین کو محض ایک معاشرتی فریضہ بلکہ بوجھ سمجھتا ہے جسے پورا کرنا ضروری ہے۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو خواتین کو ان کی حقیقی طاقت سے روشناس کرائیں، نہ کہ ان پر مزید مالی بوجھ ڈالیں۔
یہ خوابوں کی تعبیر ہے یا مزید مشکلات؟ یہ سوچنے کا وقت ہے کہ کیا ہم واقعی خواتین کو خودمختار بنانا چاہتے ہیں یا محض سطحی اقدامات سے اپنی تسلی کر رہے ہیں؟ اس طرح کے اقدامات درحقیقت خواتین کی پسماندگی کو مزید پختہ کر سکتے ہیں۔ ہمیں ایسی پالیسیوں کی ضرورت ہے جو خواتین کے وقار اور ان کے حقوق کا احترام کریں، نہ کہ انہیں مزید سماجی دباؤ کا شکار بنائیں۔
چیف منسٹر صاحبہ، آپ ایک روشن خیال، ماڈرن پاکستانی ماں اور طاقتور خاتون ہیں۔ آپ بڑی تبدیلی لا سکتی ہیں۔ ایسے منصوبوں سے گریز کریں۔ تین ہزار نہیں، تین کروڑ خواتین کے بینک اکاؤنٹ کھلوائیں اور انہیں معاشی طور پر خودمختار کریں۔ اللہ نے چاہا تو وہ اپنی شادی اپنی مرضی سے ایسے انسان سے کر لیں گی جو شادی کے اخراجات کا بوجھ اٹھا سکے اور جس کے پاس بیڈ، ڈنر سیٹ، اور کپڑے ہوں۔ ہمیں چاہیے کہ ہم ان سطحی اقدامات کے بجائے پائیدار اور حقیقی تبدیلی کے لیے کام کریں۔
—–
ڈاکٹر رخشندہ پروین نے اپنی نو عمری میں صحافت کا آغاز انگریزی اخبار "دی مسلم ” سے کیا تھا. وہ اردو اور انگریزی زبانوں میں کالم/بلاگس اور کتابیں لکھتی ہیں. مشکل موضوعات پر وکھری باتیں کرتی ہیں ،لبرل ہیں ، فیمنسٹ ہیں اور پاکستان سے غیر مشروط محبّت کرتی ہیں. کبھی شاعری بھی کرتی تھیں. مختلف جامعات میں پبلک ہیلتھ ، تولیدی صحت ، میڈیا اور فیمنسم پڑھاتی بھی رہی ہیں . وہ پی ٹی وی پر صبح کی لائیو نشریات اور حالات حاضرہ کے شو کی پہلی سولو خاتون اینکر ہونے کا بھی اعزاز رکھتی ہیں.تعلیمی اعتبار سے میڈیکل ڈاکٹر اور پبلک ہیلتھ سائنٹسٹ ہیں اور صنفی امتیاز کے حوالے سے ان کے کئی ٹی وی اور کمیونٹی پروجیکٹس نمایاں ہیں.وہ سچ کے ہمراہ ہونے والی مفاہمت اور عزت کے ساتھ قائم ہونے والے امن کی آرزومند رہتی ہیں۔ قصیدہ گوئی سے نابلد ہیں.