منظور پشتین کی خدمت میں

منظور پشتین نے بلاشبہ ایک اچھا اجتماع کیا ، پشتونوں نے اسکی آواز پر لبیک کہا ، لاکھوں لوگ جمع ہوئے اور ریاست کے سامنے اپنے مطالبات رکھے ، منظور پشتین کی تحریک غیر سیاسی ہے ، اس کے سر پر ترقی کی ذمہ داری نہیں ہے ، کوئی اس سے یہ نہیں پوچھ سکتا کہ آپ نے ابھی تک کتنے مسائل کیے ؟ آپ کی تحریک کے نتیجے میں پشتونوں کے مسائل میں کمی ہوئی یا زیادتی ؟ ابھی تک منظور پشتین کی تحریک سوالات کی زد میں نہیں آئی ، اس لیے کہ معاملات حل کرنا اسکی فہرست میں شامل نہیں .

منظور کا کام بولنا ہے اسے اپنی تحریک کو زندہ رکھنے کے لیے حادثات چاہیں ، ریاست حادثات کا موقع فراہم کرتی ہے ، منظور باہر نکلتا ہے ، نعرے لگاتا ہے ، یہ چل اور وہ چل ، منظور سے سوال ہونا چاہیے کہ آپ نے جن مطالبات کو بنیاد بنا کر ایک تحریک کھڑی کی وہ کیوں حل نہیں ہوئے ؟

منظور نے اگر کچھ مثبت کرنا ہے اور اس ملک کیساتھ رہنا ہے تو پھر منظور کو ان لاکھوں لوگوں سے کام لینا چاہیے ، یہ لٹے پٹے ، دردوں کے مارے لوگ منظور کو مسیحا سمجھتے ہیں ، منظور کو چاہیے کہ وہ اپنی طاقت بچائے ، انہیں ریاست کے آگے مت پھینکے .

منظور کو سب سے پہلے اپنے خطے کا تجزیہ کرنا چاہیے کہ اسکے خطے میں کاروبار کیا ہو سکتا ہے ؟ منظور کو چاہیے کہ کچھ شہر چنے جہاں وہ پختون سرمایہ داروں کو اپیل کرے کہ فلاں فلاں شہر میں انڈسٹری لگائیں ، فیکٹریاں بنائیں ، گجرانوالہ سیالکوٹ فیصل آباد کی طرح چند شہر ایسے ہونے چاہیں جہاں کاروباری مراکز ہوں ، پختونوں کے شہروں کا تعارف چرس اور بندوق کا ہے ، اس تصور کو ختم کرتے ہوئے انڈسٹری مراکز شروع کرنا ہونگے ، کاروباری لوگوں کی فہرست بنا کر منظور ان کے ساتھ بیٹھے ، تاکہ پختونوں کو اپنے علاقے میں نوکریاں دستیاب ہوں اور وہ خود کفیل ہوں ،

دوم ، منظور خود غیر سیاسی رہنا چاہتا ہے تو رہے ، اسے چاہیے کہ وہ ایسے نوجوانوں کی سیاسی جماعت تشکیل دے جو پشتونوں کی نمائندہ ہو ، جو صوبے اور وفاق میں پشتونوں کی نمائندگی کرے اور اپنا حق آئینی طریقے سے لے ، آپ کو اسٹیک ہولڈر بننا ہو گا ، اپنا حق لینا ہو گا ، تاکہ لوگ آپ سے باز پرس کر سکیں ، ریاست کے ساتھ بیٹھنے کے لیے منظور کے پاس کوئی سیاسی چہرہ نہیں ہے ، پشتونوں نے آج تک پشتونوں کو ووٹ نہیں دیئے ، انہیں ایک سیاسی جماعت بنانی چاہیے تاکہ ریاست سے حق لیا جا سکے ، آپ گراؤنڈ پر بھی موجود ہوں اور ایوان میں بھی ، ایوان میں معاملہ حل نہ ہو تو میدان کا آپشن موجود ہونا چاہیے ، ابھی منظور کے پاس صرف میدان ہے ایوان نہیں ، وسائل کیسے لینے ہیں اسکا طریقہ کار موجود ہی نہیں ، آپ گالی دیں اور آگے سے پھول کی توقع رکھیں ایسا نہیں ہوتا ، آپ کو ریاست سے وسائل لینے کے لیے طریقہ کار اور سیاسی چہرے سامنے لانے ہونگے ، اس سے منظور کو بھی آسانی رہے گی .

غیر سیاسی رہنے کا ایک نقصان یہ بھی ہے کہ منظور سے اسکے کارکن آگے بڑھنے کی توقع کریں گے ، اس پر بوجھ زیادہ ہو گا جس کا نتیجہ لڑائی کی صورت میں سامنے آئے گا ، منظور کو اپنا بوجھ تقسیم کرنا چاہیے ، حادثات کا انتظار کرتے ہوئے اور لڑائی لڑتے ہوئے انسان تھک جاتا ہے ، مسائل کے لیے سسٹم میں لوگ موجود ہونے چاہیں جن کا کام مسائل حل کرنا ہو نہ کہ ہر وقت احتجاج اور احتجاج .

سوم ، منظور کو فوج سے شکایات ہیں تو ضرور کرے ، لوگ اسکا ساتھ دینگے ، لیکن کسی قوم کے خلاف نفرت نہ پھیلائے ، پنجاب نے لاکھوں پشتونوں کو اپنے دل میں جگہ دے رکھی ہے ، پنجابیوں کے دل بڑے ہیں ، عام پنجابی بھی اتنا ہی مظلوم ہے جتنا عام پشتون ، جب آپ پنجاب کا نام لیکر پنجابی کو گالی دینگے تو آپ ریاست کو ایک نظریہ دے رہے ہیں۔ وہ اکثریتی لوگوں کو آپ کے خلاف کھڑا کر دے گی۔ نتیجے میں نقصان ان لوگوں کا ہو گا جو پنجاب میں اپنا کاروبار کر رہے ہیں ، پشتونوں کے علاقے میں کاروباری مواقع نہیں ہیں ، پنجابی پشتون علاقوں میں کاروبار نہیں کرتا ، پنجابی جب اٹھا تو نقصان پھر پشتون کا ہی ہو گا اس سے بچیں.

چار ، منظور کو یہ بات بھی یاد رکھنی چاہیے کہ لوگوں کو فوج سے شکایت ہے لیکن اس وطن اور جھنڈے سے نہیں ہے ، وطن اور اس سے جڑی شناخت سے لوگ پیار کرتے ہیں ، وطن سانجھا ہے ، اسکا پرچم سانجھا ہے ، آپ وطن کے خلاف بات کریں گے یا الگ ریاست کی بات کرینگے تو آپ اپنے حامیوں سے محروم ہونگے ، ان کے لیے مشکلات بڑھیں گی ، آپ کے مسائل حقیقی ہیں ، آپ کی آواز حقیقی ہے ، غیر پشتونوں کا آپ کے ساتھ رشتہ جہاں درد کا ہے وہاں ایک شہری کا بھی ہے ، آپ اسکے ساتھ شہری کا رشتہ ختم کریں گے تو نتیجہ میں درد کا رشتہ بھی ختم ہو جائے گا .

آپ نے درد پر حمایت لینی ہے تو شہری نسبت کو برقرار رکھنا پڑے گا ، نفرت سے کچھ نہیں ہو گا ، آپ جس جگہ واقع ہیں وہاں آپ کے ایک طرف آپ کے نظریاتی مخالفین کی حکومت ہے ، جنہوں نے افغانستان میں اشرف غنی اور حامد کرزئی کے خلاف جنگ لڑی ہے کل آپ کی آپس میں لڑائی ہو گی اور اٹک سے اس طرف بھی نفرت ہو گی ، ایک چھوٹے سے خطے میں نفرت کو بنیاد بنا کر آپ ترقی نہیں کر سکتے ، یہی ملک ، یہی آئین اور غیر مسلح جدو جہد ہی آپ کے لیے مسائل کم کر سکتی ہے.

آخری بات امن اور غیر مسلح ہونے کے حوالے سے ہے ، آپ کو امن کی ضرورت ہے ، امن کے راستے کی رکاوٹ ریاست کیساتھ آپ کا پشتون بھی ہے ، جن لوگوں نے اسلحہ اٹھایا ہوا ہے وہ پنجابی نہیں بلکہ پشتون ہیں ، ان کے ساتھ بات کرنے کے لیے اور انہیں غیر مسلح کرنے کے لیے پشتون علماء کی کمیٹی بنائیں ، جو اسلحہ اٹھائے لوگوں کیساتھ بات کرے ، لڑنے والوں کی فہرست بنائیں ، انہیں امن کے لیے قائل کریں اگر وہ بندوق نہیں رکھتے تو ان کے نام شائع کریں اور ان کا سماجی بائیکاٹ کریں ، مذہبی دلیل اور سماجی بائیکاٹ طاقت ور پہلو ہیں ، وہ بندوق نہیں رکھیں گے تو ریاست کے پاس لڑائی کا جواز موجود رہے گا ، اس جواز کو ختم کرنے کی ذمہ داری بھی منظور کی ہے ، منظور نے غیر مسلح اور اسی وطن کا شہری رہنا ہے تو اسے نئے قدم اٹھانے ہونگے جس سے کچھ تعمیری کام ہو سکے ، ہاں الگ وطن کا خواب ہے تو پھر ہم بیکار میں لگے ہیں –

آپ نئے قدم اٹھائیں ریاستی جال میں نہ آئیں اور اچھے وقت کا انتظار کرتے ہوئے مثبت کام کریں گے تو نتیجے میں بہتری ہو گی ورنہ معاملات بگڑتے چلے جائیں گے اور حاصل بھی کچھ نہیں ہو گی ، اس آواز اور اس یک جہتی کو کام میں لانا چاہیے ، یہ اجتماعیت بھی نفرت کا شکار ہو گئی تو پھر اللہ ہی حافظ ہے –

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے