بائیکاٹ معاملے پر گزشتہ کئی ماہ بلکہ کئی سالوں سے لکھا اور بولا جا رہا ہے، جبکہ اسرائیلی و امریکی یا یہود و نصارٰی کے مصنوعات پر حرام و ناجائز کے فتوے بھی لگے ہیں۔ ملٹی نیشنل کمپنیوں کی پروڈکٹس استعمال کرنے والے صارفین کہتے ہیں کہ لوکل پاکستانی مصنوعات کا معیار ٹھیک نہیں، ان میں ملاوٹ ہے، یہ ہلکے خام مال سے تیار ہوتے ہیں وغیرہ وغیرہ۔
نیشنل ہو یا کہ انٹرنشنل ہر کمپنی اپنے سیل کو بڑھانے کیلئے سو جتن کرتی ہے، سیل بڑھانے کیلئے ہر طریقہ اپناتی ہے، جن میں سے ایک طریقہ اعلیٰ معیاری پروڈکٹ بنانا بھی ہے، اب ظاہر ہے معیاری چیز پہ زیادہ خرچہ ہوتا ہے جس سے پروڈکٹ مہنگی ہو جاتی ہے، اس مہنگی چیز کو بیچنے کیلئے کمپنیاں زبردست ایڈورٹائزمنٹ کرتی ہے۔
ایڈورٹائزمنٹ پہ کمپنیاں کروڑوں روپے خرچ کرتی ہیں، تب جا کر کوئی چیز برینڈڈ کہلاتی ہے۔ ایڈورٹائزنگ سے پروڈکٹ مزید مہنگی ہو جاتی ہے، مگر چونکہ پروڈکٹ کی بار بار تعریف سن کر صارفین اسے مہنگا خریدنے پر بھی راضی ہو جاتے ہیں، یوں ملٹی نیشنل کمپنیاں مارکیٹ پہ راج کرتی ہیں اور ڈھیروں منافع کماتی ہے۔ یاد رہے ایڈورٹائزنگ سٹینڈرڈ سیٹ کرنے میں اہم کردار ادا کرتی ہے۔
اب بات کرتے ہیں بائیکاٹ مہم اور لوکل سطح پہ تیار ہونے والے پروڈکٹس کی۔ کہتے ہیں کہ بڑی مچھلیاں جھوٹی مچھلیوں کو کھا جاتی ہے، وطن عزیز میں بھی یہی صورت حال ہے۔ چونکہ پاکستان تھرڈ ورلڈ کنٹری ہے اس لئے ہمارے ہاں بڑے کارخانہ دار کم ہی ہیں، بہت سے کارخانہ دار دل کے زور پہ کمپنیاں چلا رہے ہیں۔ ہمارے ہاں جہاں انویسٹمنٹ معمولی سی ہوتی ہے وہیں ماڈرن مارکیٹینگ پالیسی اور آئیڈیاز کی کمی بھی ہے، بیڈ گورننس کی وجہ سے بیوروکریسی بےجا مداخلت کرتی کر کے تنگ کرتی ہے اور عجیب و غریب قسم کے ٹیکس اور چیک اینڈ بیلنس کیلئے درجن بھر اداروں کے افسران کی من مانیاں الگ کارخانہ دار کو پریشان کیے رکھتی ہے۔ ایسے میں کارخانہ دار نہ اعلی معیاری چیز بنا پاتے ہیں اور نہ ہی ٹیلی ویژن پہ مشہوری کیلئے کروڑوں روپے لگا سکتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ان کی پروڈکٹ کم بکتی ہے، کم سیل کی وجہ سے مفافع کم ہوتا ہے اور یوں یہ ہمیشہ متوسط طبقے میں ہی رہتے ہیں۔ لوکل انڈسٹری کو متوسط طبقے میں رکھنا ملٹی نیشنل کمپنیوں کی سازش و کوشش بھی ہو سکتی ہے۔
بائیکاٹ مہم پاکستانی پروڈکٹ اور پاکستانی کمپنیوں کو ترقی دینے کا زبردست موقع تھا بلکہ اب بھی ہے۔ بائیکاٹ مہم چلانے پہ اس وقت نہ کوئی انویسٹمنٹ لگ رہی اور نہ ہی اس مہم جوئی میں پاکستانی کمپنیوں کو اپنی توانائی صرف کرنے کی ضرورت ہے، کیونکہ یہ کام عوام خود کر رہی۔ لوگ اسرائیل و امریکہ کی جانب سے فلسطینوں پر ظلم و بربریت ڈھانے کا بدلہ بائیکاٹ مہم چلا کر لے رہی ہے۔ سوشل میڈیا اور مسجد و محراب سے یہود و نصارٰی کے پروڈیکٹ کے بائیکاٹ کی مسلسل ترغیبیں آ رہی ہیں۔
یہی موقع ہے کہ بیرونی مصنوعات کو چھوڑ کر پاکستانی مصنوعات کو فروغ دیا جائے۔ اس سے درآمدات میں واضح کمی اور برآمدات میں اضافہ ہوگا۔ اپنا کارخانہ دار ترقی کریگا، کمپنیوں میں نئی ملازمتوں کے موقع پیدا ہونگے جس سے بیروزگاری میں کمی آئے گی۔ ٹیکس نیٹ بڑھے گا جس سے ملک کو فائیدہ ہوگا۔ یعنی بائیکاٹ مہم سے صارف کو سستی چیز ملے گی، عوام کو روزگار ملے گا، سیٹ کا کارخانہ چلے گا اور ملک کو ٹیکس اور برآمدات کی شکل میں زرمبادلہ ملے گا۔ سب کی موج ہوگی۔
اس سب کیلئے حکومت کی دلچسپی بھی ضروری ہے، حکومت انڈسٹریز کے ساتھ مل بیٹھے اور جامع حکمت عملی طے کرے، پرائس اور کوالٹی پہ نو کمپرومائز کا بورڈ لگائے، انڈسٹری کے مسائل فوری حل کرے اور مزید سرمایہ کاری کیلئے سازگار ماحول پیدا کرے۔ حکومت صرف چھے سے آٹھ ماہ بھی دلچسپی سے اس پر توجہ دے تو ملک ترقی کی جانب چلنے کے بجائے دوڑنے لگے گا۔
یاد رہے مارکیٹ یعنی پروڈکٹ بیچنے والا دکان دار اور خریدنے والا گھاک ہمیشہ اپنے نفع نقصان کو دیکھتا ہے، اگر دکان دار کو کم معیاری لوکل چیز اور ملٹی نیشنل کمپنی کی اعلیٰ معیاری چیز ایک ہی دام میں ملے گی تو وہ یقیناً اعلیٰ معیاری پروڈکٹ ہی خریدے گا۔ اسی طرح کنزیومر یعنی صارف کو لوکل کم معیاری اشیاء اور ملٹی نیشنل کمپنی کے اعلیٰ معیاری اشیاء ایک ہی قیمت میں ملے گی تو وہ یقیناً ملٹی نیشنل کمپنی کے اعلیٰ معیاری پروڈکٹ ہی خریدے گا۔ اسے الٹنا پڑے گا، دکاندار اور صارف کیلئے سہولت پیدا کرنی ہوگی۔
ترقی کرنی ہے تو کوالٹی بہتر کرنی ہوگی اور قیمت بھی مناسب پڑیگی، تبھی جا کر عالمی مگرمچھوں کا مقابلہ ممکن ہو سکے گا۔ فیصلہ حکومت اور کارخانہ دار نے کرنا ہے۔