آئینی ترامیم 2024 حکومتی بے وقوفی یا جمہوری اقدار پر حملہ؟

پاکستان کی حالیہ آئینی ترامیم، جو 26ویں ترمیم کے نام سے شیطان کی طرح مشہور ہوچکی ہے، ملکی سیاست میں ایک نیا کٹا کھلنا بن چکی ہیں۔ حکومت نے ان ترامیم کو "آئینی استحکام” کے طور پر پیش کیا ہے، لیکن ناقدین اسے ایک "خطرناک قدم” قرار دے رہے ہیں، جو نہ صرف عدلیہ کی خودمختاری کو متاثر کر رہا ہے بلکہ ملک میں جمہوریت کے بنیادی اصولوں کو بھی خطرے میں ڈال رہا ہے۔

اس ترمیم کا ایک اہم نکتہ سپریم کورٹ میں آئینی ڈویژن کا قیام ہے، جس کے ججز کی تعداد اور تعیناتی کا اختیار جوڈیشل کمیشن کو دیا گیا ہے۔ اس سے بظاہر عدالتی کارکردگی بہتر بنانے کا تاثر دیا جا رہا ہے، لیکن ناقدین کا خیال ہے کہ یہ سپریم کورٹ کے اختیار کو محدود کرنے کی ایک چال ہے۔

آرٹیکل 184(3) میں تبدیلی کی تجویز دی گئی ہے، جس کے تحت سپریم کورٹ اب سوموٹو کیسز میں صرف درخواست میں کی گئی استدعا کی حد تک کارروائی کر سکے گی۔ یہ ترمیم ظاہر کرتی ہے کہ حکومت عدلیہ کی طاقت کو کم کر کے اسے ایک "مطیع” ادارہ بنانا چاہتی ہے۔

حکومت کی ایک اور متنازعہ تجویز ملٹری کورٹس میں سویلینز کے ٹرائل کی اجازت ہے۔ انسانی حقوق کے علمبردار اسے ایک سنگین خلاف ورزی قرار دے رہے ہیں، جو کہ نہ صرف بنیادی حقوق کی پامالی ہے بلکہ فوجی عدالتوں کے دائرہ کار کو غیر ضروری طور پر وسیع کر رہی ہے۔

ماضی میں، ایسی عدالتوں کا قیام صرف دہشت گردی جیسے سنگین جرائم کے لیے مخصوص تھا، لیکن ان ترامیم کے ذریعے حکومت کسی بھی سویلین کا ٹرائل ملٹری کورٹس میں کروانے کا راستہ کھول رہی ہے۔ اس سے قانون نافذ کرنے والے ادارے بغیر کسی احتساب کے کارروائی کر سکیں گے، جو ایک جمہوری ریاست میں ناقابل قبول ہے۔

آرمی چیف کی تقرری، توسیع اور دوبارہ تقرری کے معاملات کو آئینی تحفظ فراہم کرنے کی تجویز دی گئی ہے۔ اس ترمیم نے ناقدین کو اس بات پر مجبور کیا ہے کہ وہ اسے حکومت کی بے وقوفی قرار دیں، جو کہ جمہوری اور فوجی اداروں کے درمیان توازن بگاڑ رہی ہے۔ یہ قدم حکومت کی جانب سے فوج کو خوش رکھنے کی ایک کوشش لگتا ہے، جو کہ ملکی جمہوری ڈھانچے کے لیے خطرناک ثابت ہو سکتا ہے۔

عدلیہ کی آزادی، جو کہ جمہوری نظام کی ایک اہم ستون ہے، بھی ان ترامیم کے نشانے پر ہے۔ چیف جسٹس کی تعیناتی کے لیے حکومت نے یہ تجویز دی ہے کہ تین نام وزیراعظم کو دیے جائیں گے، جو ان میں سے ایک کا انتخاب کریں گے۔ یہ حکومتی مداخلت کا ایک نیا راستہ کھولتا ہے اور عدلیہ کی خودمختاری کو شدید متاثر کر سکتا ہے۔

یہ اقدام دراصل ایک سیاسی چال کے طور پر دیکھا جا رہا ہے تاکہ عدالتی فیصلوں پر حکومت کا کنٹرول بڑھایا جا سکے۔ اس سے عدلیہ کے آزادانہ کردار کو ختم کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے، جو کہ کسی بھی جمہوری معاشرے میں ناقابل قبول ہے۔

حکومت نے شاید یہ ترامیم اپنے سیاسی فائدے کے لیے متعارف کروائی ہیں، لیکن یہ دراصل ایک بڑی ناکامی کی طرف اشارہ کرتی ہیں۔ آئین میں ترامیم کا مقصد ہمیشہ ملک اور عوام کے مفاد میں ہونا چاہیے، نہ کہ ذاتی یا سیاسی فوائد کے لیے۔ ان ترامیم کے ذریعے حکومت نے یہ ثابت کر دیا ہے کہ وہ اپنی طاقت کو برقرار رکھنے کے لیے آئینی اصولوں اور جمہوری اقدار کو قربان کرنے کے لیے تیار ہے۔

ان ترامیم کے نتیجے میں ملک میں عوامی بے چینی بڑھ رہی ہے۔ ناقدین کا کہنا ہے کہ یہ ترامیم پاکستان کے جمہوری ڈھانچے کو کمزور کر رہی ہیں اور عدلیہ کی آزادی پر براہ راست حملہ ہے۔ عوام اور سول سوسائٹی کے حلقوں میں حکومت کی نیت پر شکوک و شبہات جنم لے رہے ہیں۔

یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا حکومت واقعی آئینی استحکام چاہتی ہے یا صرف اپنی سیاسی بقا کے لیے کھیل رہی ہے؟ حکومت کو چاہیے کہ وہ اس عمل پر دوبارہ غور کرے اور آئینی ترامیم کو قومی مفاد میں بہتر بنائے، ورنہ یہ بے وقوفی عوامی اعتماد کے نقصان اور ملک کی جمہوریت کے لیے مہلک ثابت ہو سکتی ہے۔

پاکستان کی 26ویں آئینی ترمیم ایک نازک اور متنازعہ معاملہ بن چکی ہے۔ اس کے ذریعے حکومت نے نہ صرف عدلیہ کی خودمختاری کو کمزور کیا ہے بلکہ انسانی حقوق اور فوجی اداروں کی طاقت میں بھی غیر ضروری اضافہ کیا ہے۔ یہ ترامیم حکومت کی بے وقوفی کا مظہر ہیں، جو کہ نہ صرف ملک کے آئینی ڈھانچے کو نقصان پہنچا سکتی ہیں بلکہ عوامی ردعمل کو بھی بھڑکا سکتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے