یکم نومبر 1947 کا دن گلگت بلتستان کی تاریخ کا ایک یادگار لمحہ ہے، جب مقامی لوگوں نے ڈوگرہ راج سے آزادی حاصل کی اور بلاشرط پاکستان کے ساتھ الحاق کیا۔ اسے "یوم تکمیلِ پاکستان” کے طور پر یاد کیا جاتا ہے، جس کا مقصد اس حقیقت کو اجاگر کرنا ہے کہ پاکستان کا قیام محض جغرافیائی حدود کے لیے نہیں، بلکہ ایک اسلامی ریاست کے خواب کی تعبیر کے لیے تھا، جہاں مسلمان اللہ کی حاکمیت اور اسلامی اصولوں کے مطابق زندگی بسر کر سکیں۔
پاکستان کا نظریہ سینکڑوں سال پرانا ہے جس کی جڑیں محمد بن قاسم کی سندھ آمد سے جاملتی ہیں۔ برصغیر کے مسلمانوں کا الگ ثقافتی اور معاشرتی تشخص ہمیشہ موجود رہا، اور پاکستان اسی تشخص کے خواب کی تعبیر ہے، جس کے لیے طویل جدوجہد اور قربانیوں کا سلسلہ جاری رہا۔ 1857 کی جنگ آزادی سے لے کر سر سید احمد خان، علامہ اقبال اور قائداعظم کی جدوجہد تک، ہر قدم اس خواب کو حقیقت بنانے کی جانب بڑھتا رہا۔
قیام پاکستان کے لیے دی گئی قربانیوں میں ہزاروں افراد کی جانیں، خواتین کی عزتیں، اور بے شمار لوگ بے گھر ہوئے۔ ان قربانیوں کی بنیاد پر "قراردادِ مقاصد” منظور کی گئی، جس نے یہ اصول وضع کیا کہ پاکستان میں کوئی قانون قرآن و سنت کے خلاف نہیں بن سکتا۔ یہ اسلامی ریاست کا وہ خواب تھا جس کے لیے گلگت بلتستان کے لوگوں نے بھی یکم نومبر کو ڈوگرہ راج کے خلاف اٹھ کھڑے ہو کر آزادی حاصل کی اور پاکستان کے ساتھ خود کو جوڑ دیا۔ یہی دن اس خطے کی آزادی اور پاکستان کی تکمیل کا دن ہے۔
آج گلگت بلتستان کے لوگ یکم نومبر مناتے ہوئے اس عزم کا اظہار کرتے ہیں کہ جس طرح انہوں نے اپنی زمین کو آزاد کیا، اسی طرح ان کے کشمیری بھائی بھی بھارتی تسلط سے نجات حاصل کریں گے اور پاکستان کا حصہ بنیں گے۔
یہ دن ہمیں یاد دلاتا ہے کہ ہمیں ان قربانیوں کی قدر کرنی ہے جو ہمیں پاکستان دینے کے لیے دی گئیں۔ اگر ہم اپنے اندر اسی اتحاد، یکجہتی اور ثابت قدمی کو برقرار رکھ سکیں تو ہمیں فخر کے ساتھ "یومِ تکمیل پاکستان” منانے کا حق حاصل ہوگا۔ اس موقع پر ہمیں اپنی عملی زندگی میں ایسی مضبوطی، خلوص اور عزم پیدا کرنے کی ضرورت ہے کہ دنیا دیکھ سکے کہ ہم پاکستان کی تکمیل اور استحکام کے لیے اپنی وفاداری کو برقرار رکھے ہوئے ہیں۔