ٹرمپ کی جیت، کاملہ کی ہار ، بنیادی وجہ کیا بنی ؟

اب ہزار تبصرے ہوں گے کہ کاملا ہیرس کیوں ہاریں اور ڈونلڈ ٹرمپ کیسے جیتے۔ اصل بات صرف ایک ہے، یعنی معیشت۔ قومی اور عالمی معیشت نہیں، عام آدمی کی آمدنی اور اخراجات۔ مہنگائی ہوگی تو الیکشن میں حکومت ہارے گی۔ بائیڈن دور میں مہنگائی بڑھی۔ ٹرمپ کے پہلے دور میں معیشت مستحکم تھی اور ٹیکس میں کمی ہوئی۔ آخری سال میں کوویڈ نے پوری دنیا کے لیے مسائل پیدا کیے تھے اس لیے انھیں ٹرمپ کے کھاتے میں نہیں ڈالا جاسکتا۔

امیگریشن کا مسئلہ بھی معیشت سے جڑا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں کہ زیادہ تارکین وطن کے آنے کے صرف سفید فام خلاف ہیں۔ جی نہیں۔ بہت سے سیاہ فام بھی انھیں اپنے لیے مسئلہ سمجھتے ہیں۔ حد یہ کہ ہسپانوی بولنے والے جو لوگ مستقل یہاں رہتے ہیں، انھیں بھی نئے امیگرنٹس سے مسئلہ ہے۔ کچھ اس طرح کا موقف ہے کہ ہم یہاں بس گئے ہیں تو پہلے ہمارے مسائل کو حل ہونا چاہیے، ناکہ ہمارے دیے ہوئے ٹیکس کا پیسہ غیر قانونی اور نئے امیگرنٹس پر لگایا جائے۔

میں نے اسی طرح کا موقف ماضی میں پاکستانیوں کا بھی دیکھا ہے جو پاکستان کو اربوں ڈالر امداد دینے کے خلاف تھے۔ وہ کہتے تھے کہ ہم یہاں سخت محنت کرکے پیسہ کماتے ہیں اور ٹیکس ادا کرتے ہیں۔ پھر اس ٹیکس سے اربوں ڈالر پاکستان کو دے دیے جاتے ہیں جو انھیں ضائع کردیتا ہے۔ ہمارے ٹیکس کا پیسہ امریکا میں رہنا چاہیے۔

ڈونلڈ ٹرمپ کا بھی یہی موقف ہے۔ یعنی ہم کیوں یورپی ملکوں کے تحفظ پر اربوں ڈالر خرچ کریں۔ ان کے شہریوں کو مفت سہولتیں حاصل ہیں جبکہ ہمارے شہریوں کو میڈیکل دستیاب نہیں۔

خود میں معمولی تنخواہ پانے والا اسکول ٹیچر ہوں۔ میری تنخواہ سے جب بھاری ٹیکس اور میڈیکل کے پیسے کٹتے ہیں تو بہت تکلیف ہوتی ہے۔ امریکا کا پیسہ امریکا میں رہے تو ٹیکس کم کٹے گا۔ ٹرمپ نے انتخابی مہم میں یہی وعدہ کیا ہے۔ بلکہ کل رات انھوں نے کامیابی کے اعلان پر جو تقریر کی، اس میں کہا کہ وعدے کیے ہیں، وعدے پورے کریں گے۔
کاملا ہیرس اور ڈیموکریٹس کی انتخابی مہم کو میں نے کافی غور سے دیکھا۔ اس میں زور ابورشن کے معاملے پر تھا یا ٹرمپ پر کڑی تنقید ہوتی تھی۔ ابورشن کا معاملہ میری سمجھ میں نہیں آتا۔ کنڈوم خریدنے کے بجائے ابورشن کا حق لینے پر اتنی لڑائی کیوں ہے۔ لوگ کہہ رہے تھے کہ ملک بھر کی خواتین، یعنی سفید فام قدامت پرست خواتین بھی اس نکتے پر کاملا کو ووٹ دیں گی۔ انھیں سپریم کورٹ کی خاتون جج ایمی کونی بیرٹ کی مثال کو سامنے رکھنا چاہیے تھا جن کے سات بچے ہیں اور وہ ابورشن کے حق کے خلاف ہیں۔

ٹرمپ پر کڑی تنقید کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہوا۔ سیاست دان کو تنقید سے کیا مسئلہ ہوسکتا ہے۔ اس کی مثال خود ڈیموکریٹس کی صف میں دیکھی جاسکتی ہے۔ یہاں میری لینڈ کے سابق گورنر لیری ہوگن ری پبلکن ہیں اور اس بار سینیٹ کے لیے کھڑے ہوئے تھے۔ ان کی حریف اینجلا آلسوبرک پر ٹیکس چوری کا الزام لگا جو خاصی سنجیدہ نوعیت کا تھا۔ انھوں نے خود بھی اعتراف کیا کہ انجانے میں غلط ٹیکس مراعات لے لیں۔ یہاں ریڈیو پر دن رات ان کے خلاف مہم چلائی گئی، انھیں ٹیکس چور کہہ کر تنقید کی گئی۔ اس کے باوجود وہ جیت گئیں۔

کاملا ہیرس کی شکست کے کئی اسباب میں، امریکی سیاست کے اعتبار سے، ایک کم اہم معاملہ غزہ کی جنگ بھی ہے۔ یونیورسٹیوں میں اس کے خلاف احتجاج ہوا اور طلبہ نے بائیڈن انتظامیہ کو مورد الزام ٹھہرایا۔ مسلمان بھی ناراض تھے۔ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ ٹرمپ جنگوں کے خلاف ہیں اور وہ غزہ کی جنگ رکوادیں گے۔ کاش وہ ایسا کرسکیں۔ لیکن یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ ٹرمپ اسرائیل کے بائیڈن سے زیادہ بڑے دوست ہیں۔ انھوں نے گزشتہ دور حکومت میں امریکی سفارت خانے کو تل ابیب سے یروشلم منتقل کیا تھا جو ایک غیر معمولی پیشرفت تھی۔ دوسری جانب نیتن یاہو امریکا آئے تو کاملا ہیرس کانگریس سے غیر حاضر ہوگئی تھیں۔ اسے اسرائیل کے خلاف ناراضی کا اظہار سمجھا گیا۔ اب ٹرمپ جیتے ہیں تو اسرائیل میں خوشی منائی جارہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے