جب ایک صحابیہ نے کہا "یارسول اللہ میں آپ کی بات نہیں مانتی ، مدارس کے علماء اور طلبہ کے لیے ایک اہم تحریر

ابوالکلام کا ہم پر سب سے بڑا احسان یہ ہے کہ انہوں نے پہلے ہمیں انسان بننا سکھایا اور اس کے بعد دین کا حقیقی شعور فراہم کیا۔ آپ کمال دیکھئے کہ ہمارے اندر یہ انقلاب ان کی اس کتاب نے برپا کیا جو سرے سے مذہبی کتاب ہی نہیں۔ یہ غبار خاطر تھی جس نے ہمیں صراط مستقیم پر ڈالا۔ اور یہ بیس برس کی عمر میں ایسے موقع پر ہوا جب ہم دین اور اس کے تمام متعلقات سے بیزار ہوچکے تھے۔ اور اس کے باوجود بیزار ہوچکے تھے کہ کہنے کو فاضل درس نظامی تھے۔

ابوالکلام نے غبار خاطر کے ایک خط میں قدرے تفصیل سے لکھا ہے فکری خلجان انہیں الحاد تک لے جا چکا تھا۔ اور خلجان حل تب ہوا جب انہوں نے سیرت کا بغور مطالعہ کرنے کے بعد قرآن پر غور شروع کیا۔ یوں سیرت سے قرآن کی طرف آنے کی ترکیب نے ساری الجھنیں دور کردیں۔ چنانچہ ہم نے بھی یہی ترکیب اختیار کرلی۔ سیرت کے اس مطالعے نے ہم واضح کرنا شروع کردیا کہ مذہب کے نمائندے تو اسلام کی روح سے ہی متصادم ہیں۔ انہوں نے درس نظامی کی کتب تو رٹ رکھی ہیں مگر یہ سمجھنے کی زحمت ہی گوارا نہیں کی کہ اللہ اور اس کے رسول ﷺ کا ہی نہیں بلکہ اس دین کا مزاج کیا ہے ؟

اس کی ایک سادہ سی مثال یہی دیکھ لیجئے کہ اللہ کے رسول ﷺ فرماتے ہیں کہ اپنے پڑوسی کے کھانے کی فکر کیجئے۔ اگر کسی کا پڑوسی رات کو بھوکا سویا تو قیامت کے روز جواب دینا ہوگا۔ حضرت عمر رضی اللہ تعالی عنہ اس فکر میں راتوں کو مدینہ میں گشت فرماتے کہ اگر کوئی کتا بھی بھوک سے مر گیا تو قیامت کے روز ان سے باز پرس ہوگی۔ لیکن ہمارے مدارس کی فیوریٹ سزاؤں میں سے ایک سزا یہ ہے کہ طالب عالم کا کھانا بند کردیا جائے۔ کیا یہ دین کی روح سے متصادم سزا نہیں ؟ اور کیا اس کا شعور ان مہتممین و ناظمین کو ہے ؟

ہم لکھ لکھ کر مرگئے کہ اللہ کے رسول ﷺ نے پوری حیات مبارکہ میں کسی کو اس کی غلطی پر نہیں ٹوکا۔ براہ راست مخاطب کرکے کوئی باز پرس نہیں کی۔ الا یہ کہ کسی نے آکر شکایت لگادی ہو۔ اس صورت میں مدعا علیہ سے باز پرس فرمائی۔ لیکن خود کچھ غلط ہوتا دیکھ لیا تو اگلے خطبے میں ارشاد فرما دیا
"مجھے کیا ہوا کہ میں دیکھتا ہوں لوگ فلاں فلاں کام کرنے لگے ہیں”

یوں مجمع میں بیٹھا متعلقہ شخص سمجھ جاتا کہ اس کی سرگرمی نظروں میں آگئی ہے، اور ساتھ ہی دوسروں کو بھی نصیحت ہوجاتی۔ صرف یہی نہیں بلکہ صحابہ کرام اپنے ذاتی امور میں ایسے "خود مختار” تھے کہ حضرت زید رضی اللہ عنہ نے اس کے باوجود حضرت زینب کو طلاق دیدی کہ اللہ کے رسول ﷺ نے ایسا نہ کرنے کا مشورہ دیا تھا۔ اس معاملے پر وحی الہی تک موجود ہے اور حضرت زید واحد صحابی ہیں جن کا نام قرآن مجید میں موجود ہے۔ کیا اللہ کے رسول ﷺ کا مشورہ نہ مان کر حضرت زید دائرہ اسلام سے خارج ہوگئے تھے ؟ قطعا نہیں۔ ان کی سماجی حیثت پر بھی کوئی فرق نہ پڑا تھا۔ اس نکتے کو سمجھنے کے لئے بہترین مدد وہ روایت فراہم کرتی ہے جب اللہ کے رسول ﷺ نے ایک صحابیہ کو مشورہ دیا کہ اپنے شوہر سے طلاق مت لو۔ صحابیہ نے دریافت فرمایا
"یا رسول اللہ یہ حکم ہے یا مشورہ ؟”

آپ ﷺ نے فرمایا مشورہ ہے۔ تو صحابیہ نے کہا، پھر میں نہیں مانتی۔ اس سے کیا ثابت ہوتا ہے ؟ یہی کہ اللہ کے رسول ﷺ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل نہیں دیا کرتے تھے۔ صرف یہی نہیں ذرا ایک نظر رجم کی سزا پانے والے صحابی کے واقعے پر ڈالئے۔ وہ آکر کہتے ہیں یا رسول اللہ مجھے پاک کیجئے، یعنی سزا دیجئے کیونکہ مجھ سے زنا ہوگیا ہے۔ اور اللہ کے رسول تین بار اسے واپس کر دیتے ہیں۔ یعنی اس کے اعتراف جرم کو تین بار نظر انداز کرکے اسے حد سے بچانے کی کوشش فرماتے ہیں۔

اور ہم دین کے ٹھیکیدار کیا کر رہے ہیں ؟ لوگوں کی ذاتی زندگی میں دخل دینا کار ثواب سمجھ رکھا ہے۔ تم نے پینٹ کیوں پہنی ہے ؟ تم داڑھی کیوں منڈوا رکھی ہے ؟ تم نے ٹائی کیوں لگا رکھی ہے ؟ اور ایسے میں کوئی ذرا سی غلطی کر جائے تو اس کی جان لینے کو دوڑتے ہیں۔ اور اس حیوانیت کو ہم دینی غیرت کے نام پر پیش کرتے ہیں۔
جب ہم کہتے ہیں کہ لوگوں کے ساتھ مذہب، مسلک اور نظریات کے فرق کے باوجود اچھا برتاؤ کرو تو اس کے پیچھے دین کا یہی مزاج بطور دلیل کھڑا ہوتا ہے۔ لوگوں کی زندگی میں دخل دینا روا ہوتا تو اللہ کے رسول ﷺ حضرت زید سے فرما دیتے
"میرا حکم ہے کہ تم زینب کو طلاق نہیں دوگے”

صحابیہ نے جب پوچھا کہ یا رسول اللہ ﷺ یہ آپ کا حکم ہے یا مشورہ تو آپ فرما دیتے کہ حکم ہے۔ کیا اس کے بعد یہ طلاقیں ہوتیں ؟ سوال ہی نہیں پیدا ہوتا۔ لیکن نہیں دیا اللہ کے رسول ﷺ نے ان کے ذاتی امور میں دخل۔ اور ہوگئیں طلاقیں۔

صرف یہی نہیں بلکہ مسلم تاریخ دیکھئے۔ جب مسلم ریاست کا رقبہ ثمرقند تک پھیل گیا تو صورتحال یہ تھی کہ اپنی ریاست میں مسلمان حکمران ہونے کے باوجود اقلیت تھے۔ یہ اس اقلیت کا اپنی غیر مسلم رعایا کے ساتھ حسن سلوک کا کرشمہ ہے کہ جلد ہی پورا خطہ اسلام قبول کرگیا۔ ذرا سوچئے ان مسلمانوں کا یہود و نصاری اور مجوس سمیت سب کے ساتھ رویہ کتنا شاندار رہا ہوگا کہ جنہوں نے لشکر جرار کی تلواروں کے سامنے کہہ دیا تھا کہ ٹھیک ہے جزیہ دے کر رہیں گے، مقبوضہ بن کر رہیں گے مگر تمہارا مذہب قبول نہیں کریں گے، وہی آگے چل کر اخلاق دیکھ کر خود بخود مسلمان ہوتے چلے گئے۔

یہی کام ہم کریں تو آپ فتوے کی سولی لے آتے ہیں۔ آپ میں اور ہم میں فرق یہ ہے کہ آپ نے بس درس نظامی رٹ رکھا ہے۔ سیرت اور قرآن پر غور کرنے کی زحمت ہی نہیں فرمائی۔ ورنہ آپ کو صاف نظر آتا کہ ہمارا اپنے کمیونسٹ یا لبرل دوستوں کی زندگی میں دخل نہ دینا عین اسلام کی روح کے مطابق ہے۔ سو یہ حسن سلوک تو ہم کرتے رہیں گے بھئی۔ یہ اسی کا نتیجہ ہے کہ ہماری فرینڈ لسٹ میں غیر مسلم بھی موجود ہیں۔ ہم مزاح لکھیں تو وہ سمائیلی سے نوازرتے ہیں۔ سنجیدہ لکھیں تو دل والا ایموجی عطاء کرتے ہیں۔ آپ کو تو آپ کا ہم مذہب بریلوی و اہلحدیث بھی لفٹ نہ کرائے۔ آپ ناپتے رہو لوگوں کی ٹائیاں اور پتلونیں !
"رنگ لائے گی تمہاری "فرقہ مستی” ایک دن "

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے