ابّاجی ٹرمپ: مجھے ہر صورت حسین اور مقبول قیدی چاہئے،تمہیں میری طاقت اور اختیار کا اندازہ تو ہوگا؟ تم نے انکار کیا یا پس و پیش کیا تو پھرنتائج بھگتنا پڑیں گے۔
کمزور تضادستانی:ابّاجی آپ کو کون انکار کرسکتا ہے آپ تو 75سالوں سے ہمارے مائی باپ ہیں۔ مسئلہ یہ ہے کہ ہمارے پاس نہ تو سونا ہے، نہ ڈالر اور نہ ہی کوئی اور قیمتی اثاثہ۔ ایٹمی ہتھیار آپ ہمیں بیچنے نہیں دیتے۔ ہمارے پاس ایک ہی چیز ہے اور وہ ہے قیدی 804۔ کروڑوں کی خواہشوں کی سرمایہ کاری اس میں لگی ہوئی ہے۔ ہمارا نگینہ، ہمارا ہیرا، ہماری دولت وہی ہے اسے آپ کو دے دیا تو ہم اور غریب ہو جائیں گے ہمارے ساتھ یہ ظلم نہ کرو، ابّا جی!!
ابّا جی ٹرمپ:یہ بہانے، یہ جھوٹ مجھے نہ سناؤ، تم نے تو اسے قید رکھا ہوا ہے اوورسیز تضادستانی مجھ پر اس کی رہائی کا دبائو ڈال رہے ہیں، میری بیوی اور میں خود اس کا پرستار ہوں سیدھی بات کرو اسے قید سے باہر کیسے نکالو گے؟
کمزور تضادستانی:ابّا جی! ہم کمزور ہیں آئی ایم ایف سے امداد بھی آپ نے لے کر دی ہے ہم آپ کو انکار نہیں کر سکتے یہ آپ کا اپنا ملک ہے ہم نے آپ کے کہنے پر افغانستان میں دو جنگیں لڑیں لاکھوں لوگ مروا لئے ابھی تک جنگ کے اثرات جاری ہیں، دہشت گردی رکنے میں نہیں آ رہی، آپ تو پنجے جھاڑ کر اس خطے سے نکل گئے اور ہمیں دشمنوں میںیک و تنہا چھوڑ گئے اور کبھی پلٹ کر ہمارا حال تک نہ پوچھا۔
ابّا جی ٹرمپ:ہم نے تمہیں ہر معاملے میں نقد ادائیگی کی، اسلحہ دیا، ڈالر دیئے، امداد دی، قرضے معاف کئے اور کرائے، مگر تم ہمارے ساتھ ڈبل گیم کھیلتے رہے، بس اس قیدی نے ہمیں افغانستان سے نکلنے میں مخلصانہ مدد کی اسی لئے میں اس کو ہر صورت میں رہا کروائوں گا۔
کمزور تضادستانی:ابّا جی! کہاں انسانی جانوں کی قربانی اور کہاں مونگ پھلی جیسی امداد۔ ان دونوں کا کیا مقابلہ؟ ہم نے خون دیا ہے آپ نے تو پسینہ کےبرابر بھی مزدوری نہیں دی، بھارت کے ساتھ سٹرٹیجک پارٹنر شپ اور ہمیں خالی وعدہ ٔ حور۔ ہم نے ایف 16کی ادائیگی کی وہ بھی ہمیں نہ مل سکے۔ پرزے اور تکنیکی سامان آپ ہمیں نہیں دیتے، ہم ڈبل گیم نہیں کھیل رہے تھے ہمیں اندازہ تھا کہ کل کو ہم نے طالبان کے ساتھ ہی رہنا ہے۔ آج وہ ہمیں اتنا تنگ کر رہے ہیں اگر آپ کے کہنے پر براہ راست ان سے لڑے ہوتے تو ہمارا کیا حشر ہوتا۔
ابّا جی ٹرمپ:مجھے میرے داماد کشنر نے بتایا ہے کہ تم لوگوں نے چھوٹے ابا جی سعودی عرب کے بادشاہ کے کہنے پر نواز شریف کو رہا کردیا تھا، بڑے ابا جی یعنی میرے کہنے پر کپتان خان کو رہا کیوں نہیں کرو گے؟
کمزور تضادستانی:ابا جی! آپ کی اطلاع درست ہے لیکن سعودی بادشاہ شاہ عبداللہ نے نواز شریف کی ضمانت دی تھی کہ وہ 5 سال سیاست سے لاتعلق رہے گا اور رہائی کے بدلے میں مفت پٹرول اور کئی مالی سہولیات تضادستان کو دی تھیں۔
ابّا جی ٹرمپ: تو کیا یہ ڈیل ہوئی تھی؟ سود ا ہوا تھا؟۔
کمزور تضادستانی: جی بالکل ڈیل ہوئی تھی۔ تضادستان کا فائدہ تھا جنرل مشرف کا بھی فائدہ تھا اس لئے سودا ہوگیاتھا اور چل بھی ٹھیک گیا تھا اب بھی سودا ہوسکتا ہے، تضادستان کا کچھ فائدہ ہو، موجودہ سیٹ اپ کو کوئی سہولت ملے تو آج بھی سودا ہوسکتا ہے۔
ابّا جی ٹرمپ:میں تو کاروباری بندہ ہوں، خان کے لئے امریکہ، میری جان، میری دولت سب کچھ قربان ہے، بولو کیا سودا کرنا چاہتے ہو۔
کمزور تضادستانی: خان ہمارا اثاثہ ہے ہمارے لئے سب سے قیمتی ہے دس ارب ڈالر دیں اور خان کو رہا کروا لیں ،تضادستان کے دلدر دور ہو جائیں گے مقدر سنور جائیں گے، خان اتنا قیمتی ہے کہ اس کی یہ قیمت بھی کم ہے۔
ابّاجی ٹرمپ:میں سعودی عرب، ابوظہبی اور کویت والوں سے بات کرتا ہوں یہ معاملہ تو حل ہو جائے گا مگر یہ نہ ہو کہ رقم کا انتظام ہو جائے تو آپ عدلیہ یا مقتدرہ کے کسی ادارے کا بہانہ بنا کر عمران خان کو روک لو۔
کمزور تضادستانی:دو اور بھی ذیلی اور چھوٹی چھوٹی شرائط ہیں ایک تو ہمیں خلیجی ممالک سے سستا تیل لے کر دیں اور دوسرا صدارتی الیکشن مہم سے پہلے آپ نے بھارت اور پاکستان دونوں کے ایٹمی پروگرامز کو دنیا کے لئے بہت بڑا خطرہ قرار دیا تھا براہ کرم تضادستان کے ایٹمی پروگرام کو ہدف نہ بنائیں، ہمارے یہ چھوٹے چھوٹے کام کردیں تو خان کے حوالے سے ڈیل پکی ہے۔
ابّا جی ٹرمپ:مجھے آپ لوگوں پر اعتبار نہیں کروڑوں دلوں کی دھڑکن کو آپ نے جیل میں ڈال رکھا ہے اسے تو ویسے ہی رہا کرکے سیدھا اقتدار کے تخت پر بٹھا دینا چاہیے وہ وزیر اعظم کے طور پر صحیح جچتا تھا، یہ ڈیل تو ملک بیچنے کے مترادف ہوگی، رہائی اس کا حق ہے ڈیل اور سودا تو زیادتی ہے، مجرمانہ فعل ہے آپ کو ایسے مطالبات کرتے ہوئے شرم آنی چاہئے۔
کمزور تضادستانی:آپ تو تاجر ہیں ساری زندگی آپ نے ڈیلیں کی ہیں اور رقم بھی کئی ایک کو دی ہے اور کئی ایک سے لی ہے۔ اس ڈیل میں کسی کا مفاد نہیں ملک کا فائدہ ہے، خان کا فائدہ ہے، امریکہ کا فائدہ ہے سب کا فائدہ ہے اسی لئے سودا ہو سکتا ہے۔ ہمارا کوئی ذاتی فائدہ نہیں ہے۔ ملک کا فائدہ ہے۔
ابّا جی ٹرمپ:تمہارا معاشرہ بڑا تقسیم ہے ادارے بھی تقسیم ہیں تم ہروقت اندرونی لڑائیوں میں مصروف رہتے ہو، مجھے شک ہے کہ یہ ڈیل جو تم مجھے آفر کر رہے ہو یہ صرف تمہاری اپنی طرف سے ہے کیا اداروں نے مل کر اس پر سوچ بچار کرلی ہے؟ کیا یہ متفقہ فیصلہ ہے یا پھر ہوا ئی اڑائی ہے۔
کمزور تضادستانی: ادارتی سطح پر تو کوئی ایسا فیصلہ نہیں ہوا پیشکش آئے گی تو ریاستی ادارے غور و فکر کریں گے مگر جب سے آپ برسراقتدار آئے ہیں غیر رسمی طور پرتضادستانیوں نے ایک رائے بنا لی ہے جس کا اظہار میں نے پہلے کردیا ہے۔
ابّا جی ٹرمپ:میرے داماد کشنر کو ذلفی ڈیئر نے بتایا ہے کہ تضادستان تو ایک دو ارب ڈالر کے لئے عربوں کی منتیں کر رہا ہے یہ دس ارب ڈالربہت بڑی رقم ہے اسے کم کرو۔
کمزور تضادستانی:ہم نے سب سے قیمتی چیز کا سودا کرنا ہے اسے ہم سستا نہیں بیچ سکتے۔
اباّ جی ٹرمپ:تمہیں میری اور امریکہ کی طاقت کا اندازہ نہیں ہم تمہیں روند ڈالیں گے، پتھرکے زمانے میں پہنچا دیں گے۔
کمزور تضادستانی:آپ ہمارے ابا جی ضرور ہیں مگر ہم شریر اور سرکش بچے ہیں آپ ڈانٹتے رہے ہم نے ایٹم بم بنالیا، آپ ہمیں دھمکیاں دیتے رہے ہم نے افغانستان میں طالبان کو زندہ رکھا، آپ ہمیں متنبہ کرتے رہے ہم نے چین سے دوستی نہیں چھوڑی، آپ ہمیں انڈیا سے دوستی پر مجبور کرتے رہے ہم نے مصالحت نہیں کی، ہم اڑ گئے تو کچھ بھی نہیں مانیں گے۔
( اور پھر لائن کٹ گئی. . . .)
بشکریہ جنگ