والد محترم کا تعلیمی سفر ایک مثالی اور حوصلہ افزا کہانی ہے، جو محنت، قربانی، اور عزم کا مظہر ہے۔ ان کی ابتدائی تعلیم سے لے کر اعلیٰ دینی تعلیم تک کا سفر نہ صرف ذاتی کامیابیوں سے مزین ہے بلکہ آئندہ نسلوں کے لیے ایک رہنمائی بھی ہے۔ آئیے ان کی تعلیمی سفر کے مختلف مراحل پر روشنی ڈالتے ہیں۔
والد گرامی کا نام مولانا محمد معاذ ہیں تاہم وہ گلگت بلتستان کے علمی، سرکاری اور سماجی حلقوں میں مولانا خان بہادر کے نام سے معروف ہیں۔
ابتدائی دینی و عصری تعلیم:
والد محترم نے اپنی ابتدائی تعلیم قاعدہ اور پہلی جماعت تھور میں جبکہ دوسری، تیسری اور چوتھی جماعت اپنے آبائی گاؤں ہوڈر میں حاصل کی۔ اس کے بعد 1982 میں پانچویں جماعت داریل پھوگج میں پڑھا اور اسی سال تقریباً چھ مہینے میں ناظرہ قرآن، خلاصہ کیدانی، منیا، مختصر القدوری اور کنز الدقائق کتاب الحج تک داریل میں مولانا امان اللہ ہوڈروی صاحب سے پڑھا۔
اور اسی سال کے رمضان المبارک میں مولانا امان اللہ صاحب کے ساتھ صوابی دورہ تفسیر کے لئے گئے۔
1983 میں حضرو میں مولانا امان اللہ صاحب سے صرف کی کتابیں اور نحو میر پڑھا۔
1984 میں مولانا غلام اللہ تھک نیاٹ کے پاس والدِ محترم اور مفتی صادق صاحب نے کولئی کوہستان کے علاقے میں مرح الارواح، شمعہ اور شرح مائۃ العامل پڑھا۔
فن نحو کی تعلیم:
نحو کی کتابیں مثلاً ہایة النحو، کافیہ اور شرح جامی، قواعد اثاثیہ، مولانا عبد البصیر کولئی، مولانا فضل محمد شالیبین والے چالیار سوات، مولانا سمندر خان صاحب، مولانا محمد ایاز اور مولانا دوست محمد پالس والے سے پڑھا۔
علم ادب و میراث کی تعلیم:
علم ادب مکمل، علم میراث، علم عروض اور علم ریاضی میں خلاصۃ الحساب حضرت علامہ محمد صدیق چونگی بابا سے پڑھا۔ پھر تعطیلات میں مکمل علم ادب دوبارہ مولانا آدم خان پٹن والے سے پڑھا۔
علم فقہ کیساتھ اصول فقہ اور علم معانی کی تعلیم:
اصول فقہ کی کتابیں مولوی اور مسلم الثبوت مولانا عبدالحلیم جاگوی جو کہ چھوٹے مولوی صاحب (لکیرا مولا) سے مشہور تھے ان سے پڑھا اور فقہ کے کچھ کتابیں قاضی حمد اللہ، غلام یحییٰ اور ہدایہ جلد ثانی، بڑا مولانا عبدالحلیم پٹن والے سے پڑھا جن کو بڑا مولوی صاحب (گہرا مولا) کہتے تھے کیونکہ یہ دونوں ہم نام تھے۔
اور پٹن میں یہ دونوں حضرات بہت بڑے عالم تھے جو کہ دونوں حضرات والد محترم کے اساتذہ ہیں۔
علم فقہ اور اصول فقہ کی تعلیم (دوبارہ):
حضرت مولانا محمد صدیق اجمیری سے پڑھا ہے، جو اجمیری بابا سے مشہور تھے۔
علم منطق، علم فلسفہ اور علم ریاضی کی تعلیم:
علم منطق کی کتابیں سلم العلوم، قاضی حمد اللہ، اور دیگر تمام کتابیں مولانا عنایت اللہ چکیسری، مولانا رشید احمد مارتونگی، مولانا حکیم خان جلکوٹی، مولانا نورالحق رانولیائیا، اور محقق امان اللہ مارتونگی سے پڑھیں۔
اور علم ریاضی کی کتاب اقلیدس سنگار بابا مارتونگی سے پڑھا۔
والد محترم مولانا حکیم خان صاحب کا بہت تذکرہ کرتے ہیں کہ وہ نہایت ذہین و فطین عالم تھے۔
علوم قرآن و تفسیر میں استفادہ :
کئی سال والد گرامی، رمضان المبارک میں والد محترم شیخ القرآن مولانا محمد طاہر صاحب رحمہ اللہ کے پاس دورہ تفسیر کے لیے جایا کرتے تھے۔ حالانکہ وہاں داخلے کے لیے یہ شرط تھی کہ طالب علم نے کم از کم شرح جامی تک تعلیم حاصل کی ہو، لیکن والد محترم نے اپنی محنت اور خلوص سے یہ شرط پوری کرتے ہوئے شیخ القرآن صاحب کے گوشے میں اپنی جگہ بنا لی۔
اور علم تفسیر شیخ القرآن غلام خان صاحب، مولانا عبدالسلام صاحب اور مولانا عبدالعزیز کولی سے بھی پڑھا ہے۔ اور ان کبار اہل علم سے علوم القرآن اور علم التفسیر میں بھرپور استفادہ کیا
اعلیٰ دینی تعلیم اور کبار اساتذہ
تمام فنون کی کتب کی تکمیل کے بعد والد محترم نے سابعہ اور دورہ حدیث کے لیے پاکستان کی سب سے مایہ ناز دینی دارالعلوم، جامعہ دارالعلوم کراچی کورنگی کا سفر کیا اور درجہ سابعہ میں داخلہ لیا۔ وہاں انہوں نے شیخ الحدیث مولانا سحبان محمود رحمۃ اللہ، مولانا شمس الحق رحمۃ اللہ، شیخ الاسلام مفتی تقی عثمانی صاحب، مفتی اعظم رفیع عثمانی رحمۃ اللہ، مفتی عبدالرؤف سکھروی صاحب، مولانا غلام محمد رحمۃ اللہ سمیت کئی جید علما سے استفادہ کیا۔ اور دارالعلوم کی لائبریری سے بھی کماحقہ استفادہ کیا.
جامعہ دارالعلوم کراچی کے علاوہ ان کے اساتذہ میں ڈاکٹر شیر علی شاہ رحمۃ اللہ، مولانا عزیز الرحمن صاحب، اور مولانا شفیع ملتانی رحمۃ اللہ کے علاوہ کئی نامور مدرسین بھی ہیں۔جامعہ دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کی اور دینی علوم میں متخصص ہوئے.
درس نظامی کے رفقاء :
والد محترم کے ساتھیوں کی فہرست طویل ہے، جن میں کئی نامور علماء شامل ہیں۔ مفتی عمران اشرف عثمانی صاحب، مفتی یحییٰ عاصم صاحب، مفتی صادق صاحب تھوروی، مولانا تاج محمد لیکی مروت، مولانا کمال الدین مارتونگی، مولانا محمد طیب افغانی، اور دیگر کئی علمائے کرام شامل ہیں۔
یہ تمام نام اگر تفصیل سے لکھے جائیں تو یہ تحریر ایک رسالے کی شکل اختیار کر لے گی۔
تدریسی خدمات :
1989 میں جامعہ دارالعلوم کراچی سے سند فراغت حاصل کرنے کے بعد والد محترم نے تدریس کے میدان میں قدم رکھا۔ وہ اس وقت گلگت بلتستان کے علاقے جگلوٹ میں جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن پیدا داس جگلوٹ سئی میں تدریسی فرائض انجام دے رہے ہیں۔ اس سے قبل وہ اپنے آبائی علاقے ہوڈر توپر میں بھی کم از کم پندرہ سال تک تدریس کر چکے ہیں۔
گلگت بلتستان کے معروف تلامذہ:
والد محترم کے شاگردوں کی فہرست بھی طویل ہے، جن میں کئی نامور علما شامل ہیں۔
انہوں نے اپنی زندگی کا ایک بڑا حصہ علم کی روشنی پھیلانے میں صرف کیا۔ گلگت بلتستان میں ان کے نامور شاگردوں میں مولانا بشیر احمد، مولانا شیر بہادر، مولانا سرور شاہ، اور مولانا اسکندرسیو کوٹ ، مولانا عبد القادر تانگیری ، مولانا عبد القیوم تانگیری،مولانا عبدالکریم شہرستانی داریل، مولانا ثناء اللہ عرف سید غریب تانگیری، مولانا عبداالجبار جلکوٹی شمت خیل، مولانا شیخ القرآن سعید الرحمن عرف میور چلاس بٹو، مولانا عبداللطیف بٹو،مولانا ہارون چلاس بٹو، مولانا ظاہر شاہ چلاس الوسو، مولانا مفتی عمر یار سازینی ،مولانا قاری شیر محمد جلکوٹی شمت خیل، مولانا وصیل چلاس، مولانا عبد البر چلاس ، مولانا ایوب چلاس، مولانا فیاض کوہاٹ، مولانا سربلند گوہر آباد ، مولانا نظر محمد جلکوٹی ۔
مولانا وکیل شاہ تھک، مولانا نصیر اللہ کھنر، مولانا سرفراز کھنر، مولانا شعیب عرف مشروف جلکوٹ ، مولانا عبدالودود کھنر،مولانا یاسین کھنبری، مولانا عرفان داریل مدرس اسلام آباد براکو، مولانا فضل احمد استوری ، مفتی عبدالرحمن تھوروی مولانا محمد نعیم تھور مولاناعبد القدوس تانگیری لرک مولانا شرافت تھک لوشی،مولانا کفایت اللہ دیامر،مولانا نزیر دیامر،مولانا زبیح اللہ،تانگیری مولانا نازیل لرک،مولانا میر حسن عرف باشاہ مولا بٹو،مولانا امتیازبن رمضان تھور ، مولانا طاہر گیس بالا، مولانا مصعب بٹو مولانا قاری جہانزیب تانگیری مدرس جامعہ قاسمیہ اسلام آباد مولانا علم زیب تانگیر، مولانا رفیع اللہ تھور،مولانا سیف اللہ عرف سیف الدولہ تھور گمر، مولانا لیاقت شموگڑ، مولانا زبیر شموگڑ،مولانا عبد السلام شموگڑ،ذالکفل تانگیری ، علم خان داریل، بشیر احمد داریل،شیر زادہ بٹو،نصیرالدین بٹو مولانا فاروق احمد بالاس پڑی بنگلہ،مولانا سنبل،پڑی بنگلہ،جیسے قابل افراد شامل ہیں، جنہوں نے اپنے اپنے شعبوں میں نمایاں خدمات انجام دیے رہیں ہیں جاری ہے۔
بانی ادارہ و اہتمام :
والد گرامی نے قراقرم ہائی وے کے متصل جگلوٹ سئی پیدان داس میں جامعہ دارالعلوم تعلیم القرآن ایک دینی جامعہ قیام عمل میں لایا اور اب یہاں سینکڑوں طلبہ دینی علوم سے مستفید ہورہے ہیں
خلاصہ کلام:
والد محترم کا تعلیمی و تدریسی سفر اس بات کا مظہر ہے کہ محنت، خلوص، اور عزم کے ذریعے علم کے راستے میں حائل تمام رکاوٹوں کو عبور کیا جا سکتا ہے۔ ان کی قربانیاں اور خدمات ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی اور یہ کہانی آنے والی نسلوں کے لیے مشعلِ راہ ثابت ہوگی۔
اور والد صاحب نے جتنے بھی کتابیں جس جس سے پڑھا ہے ان سب سے مفتی محمد صادق صاحب تھوروی نے بھی پڑھا ہے، جتنے بھی اسفار کیا ہے سبق کے لئے اس میں دونوں رفیق سفر رہے ہیں۔