پیس اینڈ ایجوکیشن فاؤنڈیشن کے زیر اہتمام چارسدہ کے نوجوانوں کے لئے ایک روزہ سیشن کا انعقاد کیا گیا ۔ سیشن کا موضوع تھا ” جمہوری اداروں میں نوجوانوں کی شمولیت” سیشن کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا ۔ عابد جان ترناو نے شرکاء کا تعارف کرایا ۔ پینلسٹس میں ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر جناب اکبر خان صاحب ، صدر ینگ لیڈرز پارلیمنٹ جناب نوید احمد خان ، پولیٹیکل سائنس کے لیکچرر جناب محمد الطاف شامل تھے ۔
اکبر خان صاحب نے الیکشن کمیشن کے طریقہ کار ، حدود ، اختیارات اور انتخابات کے طریقہ کار پر تفصیلی گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ الیکشن کمیشن ایک آزاد آئینی ادارہ ہے ، جس کا کام ملک میں شفاف اور منصفانہ انتخابات کا انعقاد ہے ۔ انہوں نے کہا کہ انہیں فخر ہے کہ 2024 کے انتخابات میں انہوں نے چارسدہ میں اپنے فرائض پوری ایمانداری سے انجام دیئے ۔
اس کے علاؤہ انہوں نے جمہوری اداروں میں نوجوانوں کی شمولیت پر گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا کہ 2021 کے بلدیاتی انتخابات میں ہر ویلیج کونسل میں 7 ارکان ہوتے تھے ، جن میں ایک یوتھ کی نشست بھی تھی ۔ اور یوتھ کی تعریف کے مطابق اس نشست کے لئے مطلوبہ عمر 18 سال تا 30 سال تھی تاکہ اس نشست پر خالص نوجوان نمائندے منتخب ہو جائیں جو کہ آگے چل کر نوجوانوں کی نمائندگی کرسکیں ۔ اسی طرح عام انتخابات میں بھی بچھلے انتخابات کی نسبت ٹرن آؤٹ بہت زیادہ تھا ۔ ان کے مطابق پچھلے انتخابات میں ٹرن آؤٹ 30 سے 35 فیصد ہوتا تھا جب کہ اس بار یہ 59 فیصد تھا ۔ اور اس کی بڑی وجہ تھی نوجوانوں کی انتخابی عمل میں شمولیت اور دلچسپی ۔ ان انتخابات میں نوجوانوں نے کھل کر حصہ لیا اور اپنا ووٹ کاسٹ کردیا ۔ اس سے ایک اور بات بھی ثابت ہوگئی کہ نوجوان اس ملک کی تقدیر بدلنے میں دلچسپی بھی لیتے ہیں اور اس ملک کی تقدیر بدلنے کے خواہشمند بھی ہیں۔
محمد الطاف نے اپنی گفتگو میں کہا کہ اگر چہ نوجوان اس ملک کی آبادی کا 60 فیصد ہیں اور اگر چہ مقامی حکومتوں میں ان کو مناسب نمائندگی دی گئی ہے لیکن یہ بات نہایت قابل افسوس ہے کہ پارلیمنٹ میں ان کی نمائندگی نہ ہونے کے برابر ہے ۔ انہوں نے کہا کہ اس وقت مرکز میں صرف دو نمائندے ہیں جو نوجوان کی تعریف پر پورا ،اترتے ہیں۔ پنجاب اور خیبرپختونخوا اسمبلی میں ایک ایک نوجوان منتخب نمائندہ ہے جبکہ سندھ اور بلوچستان اسمبلی میں ایک بھی نمائندہ نہیں ۔
انہوں نے تجویز پیش کی کہ پارلیمنٹ میں جس طرح خواتین کی مخصوص نشستیں ہیں، اسی طرح نوجوانوں کے لئے بھی نشستیں مخصوص کی جائیں ۔
اسی طرح ہر سیاسی جماعت کے لئے یہ بات لازمی کی جائے کہ وہ الیکشن میں کم از کم تیس فیصد نوجوانوں کو ٹکٹ دے گی ۔
انہوں نے نوجوانوں پر زور دیا کہ جس طرح آپ سب نے مل کر اپنے حق کے لئے آواز بلند کی اور ووٹ کے ذریعے اپنی رائے کا اظہار کیا اسی طرح پارلیمنٹ میں اپنی نمائندگی کے لئے بھی آواز اٹھائیں ۔
ینگ لیڈرز پارلیمنٹ کے صدر نوید احمد خان نے یوتھ پارلیمنٹس کی ضرورت اور اہمیت پر مفصل گفتگو کی ۔ انہوں نے کہا یہ پارلیمنٹس نوجوانوں کی تربیت کا ایک اہم ذریعہ ہیں۔ جس طرح قومی اور صوبائی اسمبلی کے اجلاس ہوتے ہیں بالکل اسی طرح ان پارلیمنٹس کے بھی اجلاس ہوتے ہیں۔ ان کا باقاعدہ اسپیکر ، گورنر ، وزیر اعلیٰ اور کابینہ ہوتی ہے ۔
ہر اجلاس کا ایک ایجنڈا ہوتا ہے، جس پر دوران اجلاس بحث ہوتی ہے ۔ پھر ایک ممبر کوئی قرارداد پیش کرتا ہے، جس پر اسمبلی کے دیگر اراکین بحث کرتے ہیں اور آخر میں وہ قرارداد پاس ہو جاتی ہے یا ڈراپ کردی جاتی ہے۔
ایک سوال کے جواب میں کہ یہ آئیڈیا ان کے ذہن میں کیسے آیا ، نوید احمد خان کا کہنا تھا کہ وہ اکثر دیکھتے تھے اسمبلی میں کئی ارکان آپس میں دست وگریباں ہوتے تھے ۔ پارلیمنٹ مچھلی منڈی کا منظر پیش کرتا تھا ۔ اکثر ارکان اسمبلی کے پورے پانچ سالہ سیشن کے دوران ایک لفظ تک نہ بولتے تھے ۔ تو انہوں نے سوچا کیوں نہ ایسا ایک ادارہ ہو جہاں پر نئی نسل سے تعلق رکھنے والے نوجوانوں کی تربیت کی جاسکے تاکہ آگے چل کر وہ ملک و قوم کی نمائندگی کرسکے ۔ تو انہوں نے اپنے دوست حنان علی عباسی کے ساتھ ملک کر 2010 میں نیشنل یوتھ اسمبلی نامی تنظیم بنائی . آج تک اس تنظیم نے 40 ہزار سے زائد ممبرز بنائے ہیں اور ان کی تربیت کی ہے۔
اس کے بعد 2022 میں انہوں نے ینگ لیڈرز پارلیمنٹ کے نام سے اپنی ایک یوتھ تنظیم بنائی ۔ آپ اس تنظیم کے صدر ہیں۔ اس پلیٹ فارم سے آپ نے نوجوانوں کو مختلف اداروں کا وزٹ کروایا ہے ، اسمبلی سیشنز کا انعقاد کیا ہے ، لیڈرشپ کانفرنسز کی ہیں اور مختلف ورکشاپس اور سیمینارز منعقد کی ہیں۔
پینل ڈسکشن کے بعد سوال و جواب کا سیشن ہوا، جس میں شرکاء نے بھرپور حصہ لیا اور کھل کر سوالات کئے ۔
یوتھ کونسلر عادل خان نے سوال کیا کہ 2021 کے بلدیاتی انتخابات میں انہوں نے ویلیج کونسل چیئرمین سے بھی زیادہ 1050 ووٹ لئے ۔ اس کے باوجود انہیں ابھی تک فنڈز نہیں ملے ہیں۔ وہ یوتھ کے لئے کچھ کرنا چاہتے ہیں لیکن انہیں سمجھ نہیں آرہی کیا کریں۔ انہوں نے ڈسٹرکٹ الیکشن آفیسر سے پوچھا کہ کیا الیکشن کمیشن اس سلسلے میں ان کی کوئی مدد کرسکتا ہے ، جس پر اکبر خان نے بتایا کہ الیکشن کمیشن کا کام ملک میں انتخابات کا انعقاد ہے ۔ فنڈز کے سلسلے میں وہ حکومت کو کوئی ہدایات جاری نہیں کرسکتے ۔البتہ انہوں نے نوجوان کونسلر کو یہ مشورہ دیا کہ وہ خیبرپختونخوا اسمبلی کے سپیکر کو خط لکھیں کہ وہ اسمبلی اجلاس میں کچھ گذارشات کرنا چاہتے ہیں۔ وہاں پر وہ اپنی گزارش پیش کرسکتے ہیں۔ اس کے علاؤہ وزیراعظم پاکستان کے نام خط لکھیں اور اپنا مسئلہ بیان کریں ۔ اس سے اگر ان کا مسئلہ حل نہ بھی ہوا تو پھر بھی ان کی پیشہ ورانہ زندگی میں تجربہ حاصل ہو جائے گا ۔
ایک اور نوجوان خذیفہ نے سوال کیا کہ الیکشن کمیشن کہتا ہے کہ ان کا مقصد ملک شفاف اور آزادانہ انتخابات ہے تو کیا ابھی تک الیکشن کمیشن نے ملک میں کبھی شفاف انتخابات کروائے ہیں۔ جس پر اکبر خان نے بتایا کہ انہوں نے جس جس سٹیشن پر ڈیوٹی کی ہے ان کی پوری کوشش رہی ہے کہ اپنا کام پوری ایمانداری سے کریں اور اس مقصد میں وہ بڑی حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں۔ انہوں نے نوجوانوں سے کہا کہ سوشل میڈیا کے پراپیگنڈا سے ہٹ کر حقائق کو تلاش کریں اور فیک نیوز سے خود کو بچائیں ۔ حقیقت کی تہہ تک خود پہنچنے کی کوشش کریں اور کسی کے پراپیگنڈے میں نہ آئیں۔
سوال و جواب کے نشست کے بعد نوجوانوں اور مہمانوں کی چائے کے ساتھ تواضع کی گئی ۔ اس کے ساتھ ہی نششت اختتام پذیر ہوگئی.