خوش آمدید،اگر واقعی حکومت اور تحریک انصاف میں سنجیدہ مذاکرات ہوں۔خوش آئند اگر واقعی متحارب گروپ مصالحت اور اتفاق رائے پر آمادہ ہو جائیں۔ خوش نیتی سے کام لیا جائے تو لچک آسکتی ہے اور راستہ نکل سکتا ہے۔ خوش گفتاری کو چند ماہ بھی اپنالیا جائے تو تلخیاں ختم ہو سکتی ہیں۔ خوش گوار ہوگا اگر ریاست اس مصالحت سے چلنا شروع ہو جائے۔ خوش سلیقگی سے معاملات کو نمٹانا کچھ مشکل نہ ہو گا، خوش قسمتی اور خوش بختی ہو گی اگر ان مذاکرات کا اچھا نتیجہ نکلے اور ہم قومی حکومت کی طرف بڑھ سکیں۔ خوش رنگ ہو جائے گی یہ ریاست اگر یہ مشکل راستہ کٹ جائے تو ،خوش وخرم ہوگی یہ قوم اگر سیاسی نفرتیں دفن ہو جائیں تو!!!
یہ عاجز دو برس سے مصالحت، مذاکرات اور صلح صفائی کیلئے ہر فریق کی منت سماجت کرتا رہا ہے مگر کسی فریق کے کان پر جوں تک نہ رینگی ہر کوئی انا کے گھوڑے پر سوار دوسروں کو کچلنا چاہتا تھا اور آج جو صورتحال ہے وہ اسی احمقانہ جوش کا نتیجہ ہے۔ آج ریاست اپنے زخم سہلا رہی ہے جو اسکی ساکھ پر لگ گئے ہیں۔ تحریک انصاف اپنے زخموں پر پھاہے رکھ رہی ہے، یہ زخم پے درپے شکستوں کا نتیجہ ہیں۔ حکومت بھی تکلیف میں ہے کہ دوررس منصوبہ بندی ہو نہیں پا رہی اور سب سے زیادہ مشکل میں عوام ہیں کہ اس لڑائی کی وجہ سے نا امیدی بڑھ رہی ہے اور مستقبل کا کوئی راستہ سجھائی نہیں دے رہا غرضی کہ اس لڑائی نے ہمیں پوائنٹ آف نو ریٹرن تک پہنچا دیا ہے۔ جب اس عاجز صحافی نے مصالحت کی بات کی تو ہر ایک فریق نے گالیوں کے ٹوکروں سے نوازا۔ سب سے زیادہ پی ٹی آئی کے مہربان برستے رہے آج وہ خود بڑھ بڑھ کر مذاکرات کی بات کر رہے ہیں، میں ان باتوں پر خوش ہونے کے ساتھ ساتھ پریشان بھی ہوں کہ مہربان نے یہاں تک آتے آتے بہت دیر کر دی ہے۔ پلوں کے نیچے سے بہت سا پانی گزر چکا اگر یہ کام پہلے کیا جاتا تو پی ٹی آئی کو بہت بڑے ریلیف مل سکتے تھے، اب ان کا امکان کم ہو گیا ہے۔
اگر تلخ نوائی نہ سمجھی جائے تو عرض ہے کہ 8 فروری کے انتخابات کے بعد مقتدرہ دبائو میں تھی، اسے تحریک انصاف کی مقبولیت کا خوف تھا اور مصالحت نہ ہونے کی صورت میں اندیشہ تھا کہ اس کا تشکیل کردہ سیٹ اپ چل نہیں پائے گا وہ اس وقت خان کو رہا کرکے نظر بندی پر تیار تھے دھاندلی کمیشن بنانے پر بھی تیار تھے۔ اب صورتحال یکسر بدل چکی ہے مقتدرہ کو اب تحریک انصاف سے کوئی خوف نہیں رہا اسے تو اب یہ اندیشہ بھی نہیں رہا کہ یہ سیٹ اپ چل نہیں پائے گا۔ فروری 2024ء میں مقتدرہ کے اندر پی ٹی آئی کے درپردہ حامی موجود تھے اب پوری مقتدرہ یکسو ہو کر عمران مخالف بیانیے کو ریاست کا بیانیہ سمجھتی ہے، مقتدرہ کے طاقتور ترین لوگوں کا ایمان کی حد تک یقین ہے کہ ’’مہربان‘‘ کسی اشارے پر ریاستی فوج کے خلاف اور اس کے ایجنڈے پر کام کر رہا ہے چنانچہ وہ اسے روکنے کیلئے آخری حد تک جانے کو تیار ہیں۔ تحریک انصاف نے پے درپے تحریکیں، جلسے اور مارچ کرکے اپنی مقبولیت کو خود بے اثر کردیا ہے۔ سٹریٹ پاور اور چیز ہے اور ووٹ پاور اور چیز۔ تحریک انصاف کی ووٹ پاور ایک حقیقت ہے مگر دوسری طرف تحریک انصاف کی سٹریٹ پاور کا نہ ہونا بھی ایک تلخ حقیقت ہے پورے پنجاب سے لانگ مارچ کیلئے ایک بندے بشر کا بھی نہ نکلنا یہ ثابت کرتا ہے کہ تحریک انصاف کی اپنے ووٹرز پر گرفت بہت کمزور ہورہی ہے۔
فروری کے بعد کے حالات میں عدلیہ تحریک انصاف کے حق میں فیصلے دے رہی تھی، مقتدرہ اس وقت عدلیہ کے فیصلوں سے پریشان تھی اور صلح صفائی کو ان معاملات کے حل کا واحد راستہ تصور کیا جارہا تھا مگر اب جبکہ مقتدرہ یک جان ہو چکی ہے حکومت مخالف عدلیہ بے جان ہو چکی ہے، مقبولیت کی جان نکل چکی ہے، سوشل میڈیا کی گالیاں بے روح اور بے اثر ہو چکی ہیں، مالیاتی مشکلات ختم تو نہیں ہوئیں لیکن بہت حد تک کم ہو چکی ہیں اب ڈیفالٹ کا خطرہ نہیں رہا۔ سٹاک مارکیٹ اوپر سے اوپر جا رہی ہے شرح سود کم ہو رہی ہے مہنگائی میں بھی مجموعی طور پر کمی آئی ہے ۔ظاہر ہے ان علامات و واقعات سے مقتدرہ اور حکومت زیادہ پراعتماد اور زیادہ مضبوط ہوئے ہیں، پی ٹی آئی اس وقت کمزور ترین پوزیشن پر ہے بغیر کسی شرط کے مذاکرات پر آمادہ ہونا بھی یہی ظاہر کرتا ہے کہ پی ٹی آئی سول نافرمانی کی طرف نہیں جانا چاہتی کیونکہ جیل سےباہر کی قیادت کو یقین ہے کہ سول نافرمانی کی تحریک کی کامیابی کا کوئی امکان نہیں۔
فی الحال مذاکرات کی عدم سنجیدگی کا اندازہ اس سے بھی ہوتا ہے کہ پی ٹی آئی نے سول نافرمانی کی کال دے رکھی ہے اور دوسری طرف حکومت نے کسی ایک قیدی تک کو رہا نہیں کیا۔ اگر مذاکرا ت سنجیدہ ہوتے تو تحریک انصاف سول نافرمانی کی کال واپس لیتی اور حکومت اعتماد سازی کیلئے کچھ نہ کچھ قیدی رہا کرتی۔ اس لئے فی الحال مذاکرات کی بات NON STARTER ہے۔
تحریک انصاف کے مخالفوں کو اب پتہ چل چکا ہے کہ یہ پنجاب سے بندے نکالنے کی پوزیشن میں نہیں۔ تحریک انصاف جتنا بھی زور لگالے اس کے اپنے لوگ بھی بجلی، پانی یا گیس کے بل دینا بند نہیں کریں گے۔ ابھی ریاست نہ تو اس قدر کمزور ہوئی ہے کہ سول نافرمانی آسان ہو گئی ہو اور نہ تحریک انصاف اس قدر مضبوط ہے کہ لوگ پارٹی وفاداری کی بنیاد پر ریاست سے براہ راست متصادم ہو جائیں۔
مذاکرات، مصالحت اور پھر حتمی طور پر قومی حکومت کی تجاویز میں سب سے بڑی رکاوٹ بے اعتباری ہے۔ حکومت کو آج بھی شک ہے کہ مہربان خان واقعی مذاکرات کے سنجیدہ خواہشمند ہیں یا نہیں؟ حکومت کو بے یقینی ہے کہ مذاکرات کو مہربان خان کسی بھی دن سبوتاژ کر سکتے ہیں ،مذاکراتی کمیٹی کو چارج شیٹ کرسکتے ہیں۔ دوسری طرف تحریک انصاف کو بھی مکمل یقین نہیں ہے کہ ان مذاکرات کے نتیجے میں اسے کوئی ریلیف ملے گا وہ تو چاہتی تھی کہ فوج سے براہ راست مذاکرات کرے مگر مقتدرہ کے مسلسل انکار سے تحریک انصاف کی مایوسی میں اضافہ ہو گیا ہے۔ تحریک انصاف کو اعتبار قائم کرنا ہوگا اور حکومت کو اسےاعتماد دینا ہو گا تبھی کچھ پیشرفت ممکن ہے وگرنہ نتیجہ صفر جمع صفر ہی نکلے گا…..
حکومت کوئی بیوقوف تو نہیں جو اپنی سرپرست مقتدرہ کو چھوڑ کر یا ناراض کرکے تحریک انصاف سے کوئی معاہدہ کرے۔ حکومت پہلے مقتدرہ سے مشورہ کرے گی پھر مذاکرات پر آمادہ ہوگی۔ حکومت کا فائدہ تحریک انصاف کا نقصان ہے اور تحریک انصاف کا فائدہ حکومت کا نقصان ہے ،جب تک مقتدرہ مائل بہ کرم نہیں ہوتی، جب تک مقبولیت کو قبولیت کا گرین سگنل نہیں ملتا۔ بامعنی مذاکرات نہیں ہو سکتے اور بامعنی مذاکرات تب ہونگے جب معقولیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے تحریک انصاف مقتدرہ اور پارلیمان کے موجودہ سیٹ اپ کو تسلیم نہیں کرلیتی اور 9مئی اور دسمبر کے واقعات پر دفاعی رویہ نہیں اپناتی۔ گو یا مذاکرات میں مقبولیت کارڈ نہیں معقولیت کارڈ چلانا پڑے گا وگرنہ قبولیت کا گیٹ عبور نہیں ہو گا۔
بشکریہ جنگ