یہ ایک حقیقت ہے کہ موجودہ دور میں کسی بھی پیشہ ورانہ میدان میں کامیابی کے لیے ہنر اور جدید تکنیکوں کی ضرورت ہے۔ مدارس کے فضلاء کو بھی اس حقیقت کو تسلیم کرنا ہوگا کہ دینی علوم کی تدریس و تبلیغ کے ساتھ ساتھ اپنے روزگار کو بہتر بنانے کے لیے عملی مہارتیں اور جدید ٹیکنالوجی کے استعمال کی اہلیت ضروری ہے۔ اور دینی علوم کیساتھ جدید علوم کی بیسک کی تعلیم دینا بھی ضروری ہے۔
ہمارے کچھ دوست اس حوالے سے الزامی جوابات دیتے ہوئے ان کا موازنہ ڈاکٹر، انجینئرز اور وکلاء وغیرہ سے کررہے ہیں۔ ان کی خدمت میں زیادہ سے زیادہ یہی کہا جاسکتا ہے کہ آپ کا یہ قیاس، قیاس مع الفارق کے زمرے میں آتا ہے۔
یہ سوال بار بار اٹھتا ہے کہ مدارس کے فضلاء کے لیے ہنر اور جدید تکنیکس اور جدید علوم کیوں ضروری ہیں؟۔ اس کی چند وجوہات جو سمجھ آ رہی ہیں آپ سے شئیر کرنے کو دل کررہا ہے۔ملاحظہ کیجئے اور اپنے خیال سے آگاہ بھی کیجئے ۔
1. معاشی استحکام
فضلاء کو اگر معاشی طور پر خود کفیل بننا ہے تو انہیں ایسے ہنر سیکھنے کی ضرورت ہے جو ان کی روزمرہ کی ضروریات کو پورا کر سکیں۔ ایک عالم کا مقام و مرتبہ اسی وقت محفوظ رہ سکتا ہے جب وہ دوسروں پر مالی طور پر انحصار نہ کرے۔ مالی طور پر دوسرے پر انحصار کرنے والے درجنوں جید علماء کا حال دیکھ کر دل خون کے آنسو روتا ہے۔
2. دینی کاموں کے لیے وسائل کی فراہمی
علماء کے پاس جب مستحکم مالی ذرائع ہوں گے تو وہ دینی تعلیمات کے فروغ میں زیادہ مؤثر کردار ادا کر سکیں گے۔ وسائل کی کمی تبلیغ دین میں ایک بڑی رکاوٹ بن سکتی ہے۔ میں ایسے درجنوں علماء سے شناسائی رکھتا ہوں جو مالی طور پر مستحکم ہیں اور آزادانہ طور پر بغیر کسی کے دباؤ میں آئے درس و تدریس اوت تبلیغ و تحریر کا کام کرتے ہیں اور خوب عزت بھی پاتے ہیں ۔
3. عصرِ حاضر کے تقاضے
موجودہ زمانے میں، جہاں دنیا ڈیجیٹل اور تکنیکی مہارتوں پر منحصر ہو چکی ہے، مدارس کے فضلاء کو بھی ان میدانوں میں قدم رکھنا ہوگا تاکہ وہ معاشرے کے ساتھ ہم آہنگ ہو سکیں۔
ہمارے ایک جید فاضل دوست مفتی عبدالغفار ہیں ۔ وہ کمپیوٹر اور جدید آف لائن اور آن لائن ایپلیکیشنز سے شاندار استفادہ کرتے ہیں۔ علم فلکیات اور دیگر کتب وغیرہ سے منٹوں میں ڈیٹا جمع کرتے اور مفصل فتویٰ تیار کرتے ۔ ایک طویل عرصے سے گلگت بلتستان کے مختلف علاقوں کے لوگوں رمضان کلینڈر تیار کرتے ہیں۔ اس طرح بہت سارے دوست ہیں جو عصر حاضر کے تقاضوں اور مطالبات کو پورا کرتے ہوئے دینی امور انجام دیتے ہیں۔
جدید تعلیم و ہنر کے لیے عملی تجاویز
اس حوالے سے سینکڑوں تجاویز ہوسکتی ہیں تاہم چند ایک تجاویز پیش خدمت ہیں جن کے اپنانے سے شاید فضلاء کرام سماج میں بہتر طریقے سے کام کرسکتے ہیں۔
1. مدارس میں پیشہ ورانہ تربیت کے پروگرام
دینی مدارس کے نصاب میں ایسے کورسز شامل کیے جائیں جو فضلاء کو آئی ٹی، بزنس مینجمنٹ، گرافک ڈیزائننگ، یا دیگر ہنر سکھائیں۔ اس سے وہ دینی تعلیمات کے ساتھ ساتھ عملی زندگی میں بھی کامیاب ہو سکیں گے۔
2. آن لائن پلیٹ فارمز کا استعمال
مدارس کے فضلاء کو آن لائن پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب، بلاگنگ، اور دیگر سوشل میڈیا کا استعمال سکھایا جائے تاکہ وہ دینی مواد کو وسیع پیمانے پر پھیلا سکیں اور اس سے آمدنی بھی حاصل کر سکیں۔
3. مدارس کے فارغ التحصیل افراد کے لیے ادارے
ایسے ادارے قائم کیے جائیں جہاں فضلاء کو روزگار کے مواقع فراہم کیے جائیں اور انہیں اپنے کاروبار یا پیشے کے آغاز کے لیے مالی معاونت دی جائے۔ اس کے لئے کچھ ٹیکنیکل ماہرین اور مالی ماہرین سے استفادہ کیا جاسکتا ہے کہ یہ کام کیسے بہتر انداز میں کیا جاسکتا ہے ۔
4. عالمی معیار کے مطابق تعلیم
دینی علوم کے ساتھ ساتھ انگریزی زبان، بنیادی سائنسی علوم یعنی بیسک سائنس، بنیادی سماجی علوم اور جدید ٹیکنالوجی کی تعلیم کو بھی مدارس کے نصاب کا حصہ بنایا جائے تاکہ فضلاء عالمی سطح پر بھی اپنا مقام بنا سکیں۔ میں گزشتہ 15 سال سے جدید یونیورسٹیوں کے گریجویٹ کیساتھ کام کر رہا ہوں۔ آپ یقین کیجئے بعض دفعہ مجھے انتہائی بنیادی چیزوں کے متعلق بھی ان پروفیسروں سے پوچھنا پڑتا ہے جن کیساتھ کام کرتا ہوں ۔ یہ بیسک سائنس سے ناواقفیت کی وجہ سے ہورہا ہے ۔
ہم ان باتوں کو درجنوں مثالوں سے سمجھ سکتے ہیں ۔ مثال کے طور پر مفتی تقی عثمانی صاحب ہیں جنہوں نے درس نظامی کیساتھ جدید معیشت اور بینکنگ کے علوم میں مہارت حاصل کی اور پھر پوری دنیا میں اپنا لوہا منوایا۔ ماضی قریب کے عبدالماجد دریابادی، شبلی نعمانی، ابوالکلام آزاد، امین احسن اصلاحی، مناظر احسن گیلانی، سید سلیمان ندوی، ابوالحسن علی ندوی، مولانا مودودی، ڈاکٹر محمود احمد غازی، ڈاکٹر حمید اللہ، ڈاکٹر اسرار احمد اور دیگر کئی شخصیات جنہوں نے دینی اور دنیاوی دونوں میدانوں میں نمایاں کارکردگی دکھائی۔
مدارس کے فضلاء کو جدید مہارتیں اور علوم سکھانے کا مقصد یہ نہیں کہ وہ اپنے دینی علوم کو بیچیں بلکہ یہ ان کے لیے ایک ذریعہ ہو کہ وہ خود مختار اور معاشرے کے لیے زیادہ فائدہ مند بن سکیں۔ یہ وقت کی ضرورت ہے کہ علماء کو جدید دور کے چیلنجز کا سامنا کرنے کے لیے تیار کیا جائے تاکہ وہ دینی اور دنیاوی دونوں ذمہ داریاں بحسن و خوبی انجام دے سکیں ۔