گزشتہ دنوں مدارس کی رجسٹریشن کا معاملہ زیر بحث رہا اور اس مسئلے پر ہمارے دیوبندی حضرات میں کافی بحثا بحثی چلتی رہی۔ سیاست بازی اور جذبے کی طغیانی میں بڑے بڑے بزرگوں کا بھی کوئی لحاظ نہیں کیا گیا ،اس لیے میرا اس مسئلے پر لکھنے کا من نہیں تھا۔ لیکن ابھی تھوڑی دیر پہلے الشریعہ کا جنوری کا شمارہ موصول ہوا، اور اس میں عزت مآب محترم مفتی محمد تقی عثمانی صاحب، عزت مآب محترم منیب الرحمٰن صاحب اور محترم جناب ڈاکٹر محمد مشتاق صاحب کے ارشادات گرامی کا مطالعہ کرنے کے بعد سوچا کہ اس مسئلے پر میری گزارشات شاید مسئلے کی تفہیم میں معاون ہوں۔
میری نظر میں یہ مسئلہ ایک non-issue ہے اور سیاست گری کی ضروریات سے اس میں ایک غیر ضروری جوش سا پیدا ہو گیا۔ اس مسئلے کا اسلام اور تعلیم وغیرہ سے براہ راست کوئی تعلق نہیں ہے، اور جو اصل مسئلہ ہے اس کی کوئی نشاندہی بھی نہیں کی گئی۔ اس مسئلے پر جیسے گفتگو ہوئی ہے وہ اس امر کی ایک کلاسک مثال ہے کہ ہمارے ہاں تہذیبی اور دینی مسائل کو کس طرز پر زیر بحث لایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ضروری تھا کہ مسئلے کو سمجھا جاتا۔
بنیادی مسئلہ یہ ہے کہ جدید ریاست قرارداد مقاصد کے علی الرغم ایک absolute sovereign ہے، اور اپنی اس حیثیت کی وجہ سے وہ اپنی territorial jurisdiction میں بشمول انسان ہر چیز کی وجودیات اور عمل کو مکمل طور پر define کرنے کا مطلق اختیار رکھتی ہے۔ جدید ریاست کی اس territorial jurisdiction میں کسی بھی چیز کی ما بہ الموجودیت فطرت نہیں، جدید ریاست کی juridical power ہے۔ یعنی ریاست بشمول انسان ہر چیز کی وجودیات کو متعین کرنے کا مکمل ترین اختیار رکھتی ہے، اور اس متعین کردہ شے پر اس کے عمل کی تحدیدات قائم کرنے کا مکمل اختیار بھی جدید ریاست کے پاس ہے۔ ایک غیرمتعلق مثال سے شاید بات زیادہ واضح ہو جائے کہ کووڈ وبا کے دوران یہ بات بھی مطلقاً واضح ہو گئی تھی کہ فرد کی بیماری بھی ایک سیاسی مسئلہ ہے اور جدید ریاست اس میں براہ راست اور فیصلہ کن طور پر دخیل ہے۔ تعلیم کی اہمیت کے پیش نظر جدید ریاست اس کے بھی ہر پہلو کو اپنی ترجیحات پر متعین کرتی ہے۔
پہلا سوال: تعلیم کون دے گا؟
جدید ریاست اس کا جواب یہ دیتی ہے کہ فطرت کا پیدا کردہ انسان یہ اختیار نہیں رکھتا، اور اس سوال کا فیصلہ کرنے کا مطلق اختیار صرف اُسی کو حاصل ہے۔ ہو سکتا ہے کہ جدید ریاست کی oversight کی وجہ سے کوئی فطری انسان، دوسرے کسی فطری انسان کو تعلیم دینے کے ’لاقانونی عمل‘ کا مرتکب ہو جائے لیکن اس عمل کی سرکاری عدم authentication کی وجہ سے معاشرے اور جدید ریاست کے سامنے اس تعلیم اور علم کی کوئی حیثیت نہیں ہو گی۔ لہٰذا جدید ریاست کا فیصلہ یہ ہے کہ اس کا طے کردہ شخص غیر معین (organization) ہی تعلیم دینے کا اختیار رکھتا ہے۔ جدید ریاست کے نزدیک تعلیم کوئی مذہبی، روحانی یا اخلاقی عمل نہیں ہے بلکہ سیاسی طاقت کی فرع اور اس کی توسیع ہے، اس لیے اسے کسی انسان کے سپرد نہیں کیا جا سکتا۔ جدید ریاست کی نظر میں تعلیم دینے کا مجاز صرف ایک ایسا وجود ہو سکتا ہے جسے یہ خود تشکیل کرے اور وجود میں لائے، اور وہ آرگنائزیشن ہی ہے۔ اس کی تعریف یہ ہے:
Organization is an entity set up by the force of law.
سوسائٹیز ایکٹ کے تحت جدید ریاست یہی کام سرانجام دیتی ہے۔ یہ مدرسے کی رجسٹریشن نہیں ہے بلکہ مدرسے کو ظہور میں لانے والے وجود کا قیام ہے جو فرد انسانی سے منفک اور ماورا ہے۔ مدرسہ اس وجود کا فعل ہے۔ یہاں مسئلہ یہ ہے کہ مدرسہ تعلیمی عمل کو ظاہر کرتا ہے جبکہ اول مسئلہ موجودیت (existence) ہے، جو سوسائٹیز ایکٹ کے ذریعے ہی ظہور پذیر ہو سکتی ہے۔ یہ رجسٹریشن تعلیم کے لیے نہیں ہے بلکہ تعلیم دینے والے وجود کے قیام کی اجازت اور اس کی جدید ریاست کے ذریعے منظوری سے ہے۔
دوسرا سوال: تعلیمی عمل کی ثقاہت (validation)، توثیق (approval) اور استناد (authentication) کون طے کرے گا؟
تعلیمی عمل کے حوالے سے ان ساری چیزوں کا اختیار بھی جدید ریاست کے پاس ہے جسے وہ خود یا اس کی وجود دادہ کوئی آرگنائزیشن ہی انجام دے سکتی ہے۔ یہ بات اتنی اہم نہیں کہ وہ آرگنائزیشن نجی شعبے میں کام کرتی ہے یا سرکار کے زیرِ انتظام ہے۔ اس کام کے لیے جدید ریاست کے قائم کردہ امتحانی بورڈ ہیں جو نجی اور سرکاری دونوں شعبوں میں کام کرتے ہیں۔
اس لیے محکمہ تعلیم یا محکمہ صنعت کے تحت رجسٹریشن کا مسئلہ اتنا پیچیدہ نہیں ہے۔ اگر کسی ادارے کو چارٹر ملا ہوا ہو تو اس کی رجسٹریشن لامحالہ محکمہ تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے ساتھ ہو گی۔ چونکہ جامعۃ الرشید ایک چارٹر یافتہ ادارہ یا جامعہ ہے، اس لیے محکمہ تعلیم یا اعلیٰ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن ان کی ایک قانونی ضرورت ہے۔ اس طرح کی رجسٹریشن آرگنائزیشن کی وجود پذیری کے لیے نہیں ہوتی، آرگنائزیشن کے عمل کی نگہداری کے ہوتی ہے۔ یہی شرط ان اداروں پر بھی عائد ہو گی جو مجمع العلوم کے ساتھ امتحانات کے لیے الحاق شدہ ہیں۔ ایسے تعلیمی ادارے بطور مدرسہ وجود پذیر ہونے کے لیے محکمہ تعلیم یا اعلیٰ تعلیم سے رجسٹریشن کے بھی مجاز ہوتے ہیں۔ یعنی سوسائٹیز ایکٹ کے تحت ایک ایسی آرگنائزیشن کو وجود عطا کیا جاتا ہے جو آگے مزید وجودوں یعنی مدارس وغیرہ کا قیام عمل میں لا سکے۔ جبکہ محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹر شدہ وجود آگے کسی کو وجود عطا نہیں کر سکتا۔
دوسری طرف وفاق المدارس بھی جدید ریاست ہی کے ایک قانون کے تحت منظورہ شدہ اور وجودہ یافتہ ہے اور جس کا مقصد تعلیم دینا نہیں ہے، بلکہ امتحانات کے ذریعے تعلیمی عمل کا استناد (authentication) فراہم کرنا ہے۔ جہاں تک محکمہ صنعت کے ساتھ رجسٹریشن کا تعلق ہے، اس حوالے سے محترم جناب مفتی تقی عثمانی صاحب اور ان کے احباب کا فیصلہ درست ہے کیونکہ سوسائٹیز ایکٹ، جو وجود پذیری کا قانون ہے، کے تحت بننے والی آرگنائزیشن کو اپنا داخلی نظام چلانے کے لیے اوک بھر آزادی حاصل ہو جاتی ہے۔ اس طرح کی آرگنائزیشن کو یہ اختیار بھی حاصل ہوتا ہے کہ وہ ایک یا کئی مدارس کا قیام عمل میں لا سکے۔ ایسے اداروں کی محکمہ تعلیم کے ساتھ رجسٹریشن ضروری نہیں ہو گی کیونکہ وہ وفاق سے امتحانوں کے لیے الحاق حاصل کرتے ہیں۔ وفاق ان سے کسی دوسری رجسٹریشن کا مطالبہ نہیں کرتا۔ لیکن ایسے ادارے اگر عصری تعلیم کے لیے امتحان دلوانا چاہتے ہیں تو سرکاری امتحانی بورڈ ان سے محکمہ تعلیم سے رجسٹریشن کے بغیر ان کا امتحان نہیں لے سکتے۔
آزادی اور جدید ریاست کی ساورنٹی
جس طرح سے جدید ریاست میں تعلیمی ادارے وجود پذیر ہوتے ہیں اس سے اُن کی وجودیات قطعی بدل جاتی ہے اور وہ اصلاً ریاستی طاقت اور اس کی سیاسی اور جیوریڈیکل ساورنٹی ہی کی ایک توسیع ہوتے ہیں۔ بھلے وہ مدرسہ ہو یا سکول، جدید ریاست سے وجود یافتگی کے بعد، سیاسی اور قانونی ترجیحات اولیت حاصل کر لیتی ہیں، اور تعلیم کے روحانی، اخلاقی اور جمالیاتی عناصر کا یک قلم خاتمہ ہو جاتا ہے۔ یہ بات زیادہ درست نہیں ہے کہ سوسائٹیز ایکٹ کے تحت بننے والے وجود کو بہ نسبت محکمہ تعلیم سے رجسٹر شدہ ادارے کے زیادہ آزادی حاصل ہوتی ہے۔ تندور میں سادہ روٹی، خمیری روٹی اور پراٹھا لگتا ہے تو وہ سب ہوتے تندوری ہی ہیں۔ ان میں کوئی substantive فرق نہیں ہوتا۔ جدید ریاست کی وجودیات قانون کے ذریعے ان اداروں میں سرایت کر کے فعال ہو جاتی ہے، اور وہ اپنے لب لباب میں سیاسی ہوتی ہے، اور وہ ہرگز، ہرگز اخلاقی، جمالیات اور روحانی وغیرہ نہیں ہوتی۔ اس لیے جلد یا بدیر اس طرح کے ادارے ایک ہی جیسے نتائج سامنے لاتے ہیں۔
جدید ریاست کے روبرو جامعۃ الرشید کے احباب کی پوزیشن بھی درست ہے کیونکہ اس کی قانونی نوعیت وفاق المدارس کے احباب کی قانونی پوزیشن سے بہت کچھ مختلف ہے۔ وفاق المدارس کے احباب نے جو فیصلہ کیا ہے وہ ان کی قانونی پوزیشن کے لحاظ سے درست ہے۔ ان دونوں گروہوں کی قانونی پوزیشن میں چونکہ کچھ فرق ہے اس لیے انہوں نے اپنی اپنی جگہ درست فیصلہ کیا ہے۔ میرے خیال میں دور رس نتائج کے اعتبار سے جامعۃ الرشید کو زیادہ فائدہ پہنچے گا کیونکہ ان کے ہاں واقعاتی صورت حال اور اس کے بیان میں تضادات نہیں ہیں۔
اس پورے معاملے میں جو اصل سوال ہے وہ یہ ہے کہ کیا جدید ریاست کے پیدا کردہ legal regime میں کوئی دینی تعلیم دی بھی جا سکتی ہے یا نہیں؟ اس کا دیانتدارانہ جواب نفی میں ہے۔ جب فاطمی مصر کی تعلیمی پالیسیوں کے توڑ کے لیے جامعہ نظامیہ قائم کیا گیا تو اس وقت کے علما کا رد عمل بہت سخت تھا حالانکہ اس میں سیاسی طاقت کسی طور بھی دخیل نہیں تھی اور یہ کام صرف formalization تک محدود تھا، اور سیاسی طاقت نے تعلیم کے کسی بھی جز کو اپنے اختیار میں نہیں لیا تھا۔ جدید عہد میں ہر جگہ تعلیم مکمل طور پر ریاست کے کنٹرول اور تصرف میں چلی گئی ہے۔ تعلیم کو اب سیاسی طاقت اور سرمائے کی حرکیات متعین کرتی ہے اور اس میں کسی بھی طرح کی روحانی، اخلاقی یا جمالیاتی اقدار کو باقی نہیں رکھا جا سکتا۔ موجودہ معاملے میں قانون کی معمولی شقوں پر جو طوفان برپا ہوا، اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ ہمارے اہل علم جدید تعلیم اور طاقت اور سرمائے کی حرکیات کے تعاملات کو کس حد سمجھ پائے ہیں اور مستقبل سے کیا امیدیں وابستہ کی جا سکتی ہیں۔ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر رحم فرمائے۔