جنریشن گیپ کا مسئلہ، اس کا حل اور اس عمل میں مکالمات اور آپ بیتیوں کا کردار

اس وقت معاشرے کو جن بڑے بحرانوں کا شدت سے سامنا ہے ان میں سے ایک جنریشن گیپ اور سماجی ناہم آہنگی کا مسئلہ، اپنے دور رس اثرات کی وجہ سے سنگین شکل اختیار کر چکا ہے۔ انسانوں کے درمیان مختلف وجوہ سے نفرتوں، حقارتوں، کشیدگیوں اور غلط فہمیوں کی اچھی خاصی موٹی دیواریں کھڑی ہو گئی ہیں۔ ایک ہی معاشرے میں رہنے والے مختلف افراد اور قومیتیں ایک دوسرے کے لیے اجنبی بن کر رہ گئیں ہیں۔ ان کے درمیان تقسیم و تفریق اور امتیاز و امتناع کی گہری لکیریں کھینچی گئی ہیں۔

بزرگ پریشان ہیں کہ اپنا اثاثہ حیات کسے سونپ کر اطمینان کا سانس لیں، جوانوں کو اپنی منزل نظر نہیں آتی اور یوں وہ دن بہ دن تناؤ کا شکار ہو کر اپنے ہی سماج اور ماحول کے لیے خطرناک بن رہے ہیں۔ اہل ثروت کی نظروں میں غریبوں کے کوئی اوقات نہیں جبکہ غریبوں کو بھی خوشحال لوگوں کے سب کچھ مشکوک اور حرام نظر آ رہے ہیں۔ معاشرہ ایک ہے، خیر و شر کا نتیجہ مشترک ہے، کامیابی اور ناکامی کے ثمرات اور اثرات یکساں ہیں، اخلاقی اور تہذیبی قدریں مشترک ہیں لیکن باہم ہم آہنگی نہیں، ہم دردی نہیں، خلوص نہیں، احترام نہیں، اشتراک نہیں، رابطے نہیں، مشورے نہیں، منصوبہ بندی نہیں، ایک دوسرے کے مناسب رہنمائی نہیں۔ ایک لامحدود خلا پیدا ہو گیا ہے جہاں کسی کو کچھ بھی اچھا یا ضروری نظر نہیں آتا۔ سب نزدیک ہونے کے باوجود دور ہیں، سب شریک ہونے کے باوجود لاتعلق ہیں، سب کئی اعتبارات سے موافق ہیں لیکن ساتھ ہی ساتھ کئی محاذوں پر متصادم بھی اور یہ کہ سب اپنے ہیں لیکن خود کو غیر سمجھے جاتے ہیں۔

اس نازک صورتحال میں سب سے اہم ذمہ داری معاشرے کے بزرگوں پر عائد ہوتی ہے۔ انہیں چاہیے کہ نوجوانوں کو آگے بڑھ کر شفقت اور محبت سے مخاطب کریں اور اپنی زندگی کے بیش قیمت تجربات اور مشاہدات کو ان کے ساتھ شیئر کریں، انہیں زندگی کی حقیقت اور زندگی میں کامیابی کے لیے درکار خوبیاں اور صلاحیتیں سمجھائیں، انہیں زندگی کے معنوی حقائق یعنی اخلاق و کردار، سکون و اطمینان اور دین و ایمان کا ادراک کرنے میں مدد دیں۔ کتنے جوان ہیں جو بروقت درست رہنمائی نہ ملنے سے تاریک راہوں کے مسافر بن جاتے ہیں؟ یوں وہ معاشرے کے لیے ایک ناسور بن کر رہ جاتے ہیں۔ کتنے لوگ ہیں کہ جو مشکلات کے گرداب میں امید کی کرن نہ پا کر مایوسیوں میں گم ہو جاتے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اصلاح احوال کس کی ذمہ داری ہے؟ جواب یہ ہے کہ ہم سب کی ذمہ داری ہے اور اس تناظر میں بہت اہم کردار پڑھے لکھے اور آسودہ حال بزرگوں پر عائد ہوتا ہے۔

مختلف نسلوں اور طبقوں کے درمیان بامقصد اور بامعنی رابطے، اشتراک اور تعامل کا ایک معتبر ذریعہ قلم اور زبان ہے۔ بزرگ اپنے معلومات، تجربات اور مشاہدات کو ترتیب دے کر تحریروں اور تقریروں کی صورت میں جمع کریں۔ بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے اوقات اور توجہ کا ایک قابلِ ذکر حصہ اپنے علمی اثاثے اور عملی تجربے دوسرے لوگوں کو منتقل کرنے میں لگائے۔ یاد رکھیں جو زندگی، علم، صلاحیت اور دولت خدا نے ہمیں عطا کیا ہے، یہ اس کی امانت ہے اور یہ کہ وہ صرف ہمارا نہیں بلکہ اس میں دوسرے مستحق لوگ ہمارے شریک ہیں۔ ہم اگر دوسروں کو رضاکارانہ طور پر شریک نہیں کریں گے اور یہ سمجھنا شروع کریں کہ جو کچھ ہمارے پاس ہے اس سب پہ صرف ہمارا حق ہے کسی اور کا نہیں تو یہ طرزِ فکر و عمل دنیا و آخرت دونوں میں تباہی کا باعث بنے گا۔

انسانی معاشرہ مختلف النسل، مختلف المذہب اور مختلف الثقافت لوگوں کا مرکب ہے۔ ایسے میں اگر ہم آپس میں میل جول، تعاون، اشتراک، رواداری اور باہمی احترام کو فروغ دینا چاہتے ہیں تو ہمیں لازماً ایک دوسرے کی زندگیوں، معلومات، تجربات، مشاہدات اور جذبات کو سمجھنا ہوگا۔ یہی وہ مقام ہوتا ہے جہاں "جنریشن گیپ کا مسئلہ، اس کا حل اور اس عمل میں مکالمات اور آپ بیتیوں کا کردار جنریشن گیپ کا مسئلہ، اس کا حل اور اس عمل میں مکالمات اور آپ بیتیوں کا کردار آپ بیتیاں” واضح اہمیت اختیار کرتی ہے۔ آپ بیتیاں، یاداشتیں اور سوانح عمریاں نہ صرف ہمیں دوسروں کے علم، تجربے، آگہی، دکھ سکھ، جدوجہد اور کامیابیوں سے روشناس کراتی ہیں بلکہ یہ نسلی اور سماجی ہم آہنگی کو بھی مضبوط بناتی ہیں۔

انسانی تاریخ کا مطالعہ کریں تو یہ معلوم ہوتا ہے کہ ہر عہد کے دانشوروں، مصلحین اور بزرگوں نے اپنے تجربات کو قلمبند کیا تاکہ آنے والی نسلیں ان سے سبق حاصل کریں۔ حضرت مولانا رومیؒ کی "مثنوی”، شیخ سعدیؒ کی "گلستان” اور بابا بلھے شاہؒ کے کلام میں بھی جا بجا ان کی ذاتی حالات اور مشاہدات شامل ہیں، جو ہمیں انسان دوستی، نرمی، صبر اور رواداری کا درس دیتے ہیں۔ اسی طرح جدید دور میں بھی کئی ادیبوں، سیاستدانوں اور سماجی کارکنوں نے اپنی آپ بیتیاں لکھی ہیں، جو کہ معاشرے کو متحد کرنے میں معاون و مددگار ثابت ہو رہی ہیں۔ حالیہ تاریخ میں پاکستان کے اندر "شہاب نامہ”، "آواز دوست”اور "زاویہ٫ وغیرہ اس طرزِ تحریر کے بہترین نمونے ہیں۔

قومی اور اجتماعی زندگی میں جب بھی ہم کسی دوسرے فرد یا گروہ کے تجربات اور مشاہدات پڑھتے ہیں تو ہمارے اندر شعور، آگہی، بیداری، ہمدردی اور قبولیت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے۔ مثال کے طور پر، اگر کسی اقلیتی برادری کا فرد اپنی مشکلات بیان کرے تو اکثریتی طبقہ اس کی تکالیف کو سمجھ سکتا ہے۔ اسی طرح اگر کوئی بزرگ اپنی جوانی کے دنوں میں پیش آنے والے سماجی اور معاشی مسائل بیان کریں تو نئی نسل اس سے بہترین سبق لے سکتی ہے۔

آپ بیتیاں صرف انفرادی کہانیاں نہیں ہوتیں، بلکہ یہ پورے معاشرے کا ایک اجتماعی ورثہ ہوتی ہیں۔ یہ ہمیں بتاتی ہیں کہ ہمارے آباؤ و اجداد کن حالات سے گزرے، انہوں نے کس طرح کی مشکلات کا مقابلہ کیا اور کس طرح سے باہمی احترام و اشتراک کے ذریعے مسائل پر قابو پا کر شاہراہِ حیات پہ آگے بڑھیں۔ یہ حقیقت ہے ماضی میں افراد اور اقوام کے درمیان اختلافات موجود تھے لیکن ان کو کبھی بے قابو نہیں ہونے دیا گیا، مسائل پائے جاتے تھے لیکن ان پر باہمی اتحاد اور تعاون سے قابو پایا جاتا تھا۔ علم کے حصول میں مشکلات حائل رہیں لیکن محنت، ہمت اور مستقل مزاجی سے اس عظیم سفر کو جاری رکھا گیا۔ یاد رکھیں یہ سب معلومات آنے والی نسلوں کے لیے مشعل راہ ثابت ہوتی ہیں۔

آج کی نوجوان نسل اکثر و بیشتر الجھنوں کا شکار رہتی ہے۔ اس کے پاس جذبہ ہوتا لیکن صبر نہیں، توانائی ہوتی ہے لیکن مستقل مزاجی نہیں، صلاحیت پائی جاتی ہے لیکن بصیرت کا فقدان بھی ہوتا ہے، تیزی موجود ہوتی ہے لیکن ٹھہراؤ نہیں ایسے میں وہ بزرگوں کے تجربات سے مستفید ہو سکتی ہے، لیکن بدقسمتی سے بزرگوں اور نوجوانوں کے درمیان رابطہ کم ہوتا جا رہا ہے۔ اگر بزرگ اپنے زندگی کے حال احوال، تجربات و مشاہدات، ناکامیوں اور کامیابیوں کو قلمبند کریں یا مختلف پلیٹ فارمز پر انہیں زبانی طور پر نئی نسل تک پہنچانے کا اہتمام ہو جائے تو یہ ایک بہترین رہنمائی کا ذریعہ بن سکتا ہے۔

معاشرے کے تعلیم یافتہ اور تجربہ کار افراد، خاص طور پر بزرگ جنہوں نے زندگی کے بہت سے نشیب و فراز دیکھے ہیں، ان کی ذمہ داری بنتی ہے کہ وہ اپنے علم و تجربے کو نئی نسل تک پہنچائیں۔ ہم چند ایک ایسے طریقوں کی نشان دہی کرتے جن کے ذریعے وہ اپنے قیمتی "اسباق حیات” موثر انداز میں لوگوں تک پہنچا سکتے ہیں۔

باقاعدگی سے اپنی یاداشت لکھیں چاہے وہ ایک کتاب کی شکل میں ہو یا پھر مختصر مضامین کی صورت میں، اپنے تجربات کو بس تحریری شکل لازم دیں۔ لکھنے پڑھنے کو میں نے خوشی کا ایک بہت بڑا ذریعہ پایا ہے یہ اس کا نقد فائدہ ہے اور بہت سارے فوائد اس کے علاؤہ بھی ہیں۔ یاد رکھیں لکھنے پڑھنے کا بنیادی تعلق بہت زیادہ علم و فضل سے نہیں بلکہ ذاتی دلچسپی اور غور و فکر سے ہے۔ لکھنا ایک خدا داد صلاحیت ہے۔

اگر تحریری کام کسی وجہ سے مشکل لگ رہا ہے تو سوشل میڈیا موجودہ دور میں ایک مؤثر پلیٹ فارم ہے اس پہ بلاگز، ویڈیوز یا سوشل میڈیا پوسٹس کے ذریعے اپنے خیالات کا منظم اظہار کریں۔

مکالمات کا اہتمام کریں۔ مغربی دنیا میں بیداری اور آزادی نے جب ایک تحریک کی شکل اختیار کی تو اس عمل میں مکالموں نے اہم کردار ادا کیا۔ لوگ سوالات پوچھتے اور جوابات پاتے، مسائل کا تذکرہ ہوتا اور حل کی راہیں کھل جاتی وغیرہ وغیرہ۔ مکالمہ اجتماعی شعور اور بیداری میں ایک حد درجہ موثر عامل ہے۔ بزرگ اور تجربہ کار لوگ باقاعدہ نوجوانوں سے گفتگو کریں۔ مساجد، کمیونٹی سنٹرز اسکول، کالجز یا دوسرے مقامی اجتماعات اس سرگرمی کے لیے بہترین مقامات ہیں۔

اس طرح خاندانی محفلوں میں اپنے تجربات سنائیں، گھر کے بچوں اور نوجوانوں کو اپنی زندگی کے مختلف واقعات بتائیں تاکہ وہ ماضی سے جڑے رہیں۔

انسانی تعلقات کو مضبوط بنانے، لوگوں میں قوت عمل کو حرکت دینے اور سماجی ہم آہنگی کو فروغ دینے کے لیے اپ بیتیاں ایک طاقتور ذریعہ ہے۔ یہ نہ صرف ہمیں دوسروں کے جذبات سے جوڑتی ہیں بلکہ ہمیں ماضی کے ثمر بار اسباق سے روشناس بھی کراتی ہیں۔ پڑھے لکھے بزرگوں کو چاہیے کہ وہ اپنے علم و تجربے کو نسل در نسل منتقل کریں تاکہ معاشرہ زیادہ ہم آہنگ، روادار، وسیع النظر اور پرامن بن سکے۔ یاد رکھیں، آپ کی کہانی کسی دوسرے کی زندگی بدل سکتی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے