گلگت بلتستان کے باسی ہر سال گرمیوں کے آغاز کے ساتھ ہی ایک جانی پہچانی اور دکھ بھری صورتحال کا سامنا کرتے ہیں۔ خبر ہے کہ جوتل، کھاری بسین، سکارکوئی کے کئی مکانات اور آبادیوں پر دریا داخل ہوچکا ہے یا داخل ہونے جارہا ہے اور دیگر ندی نالوں و دریا کے کنارے واقع بستیوں سے بلند ہونے والی آوازیں ہمارے کانوں سے ٹکراتی ہیں کہ
"دریا گھروں میں داخل ہو چکا ہے، خدارا اقدامات کیے جائیں!”
یہ منظر نیا نہیں، مگر عبرت ناک ضرور ہے۔ برسوں پہلے گلگت کنوداس کے قریب ایک علاقہ، جو سردیوں میں خشک اور پرسکون دکھائی دیتا تھا، لوگوں نے وہاں آبادی بسا لی اور کچھ تعمیرات کر ڈالا۔ جب گرمیوں میں برف پگھلی اور دریا گلگت نے اپنی پرانی راہ اپنائی تو پانی ان مکانوں اور زمینوں کو نگلنے لگا۔ اہل علاقہ ایک وفد کی صورت میں چیف سیکرٹری گلگت بلتستان کے پاس پہنچے اور مطالبہ کیا کہ دریا ہماری زمین کاٹ رہا ہے، ہمیں معاوضہ دیا جائے۔ چیف سیکرٹری نے موقع پر جا کر حالات کا جائزہ لیا، اور دو ٹوک الفاظ میں جواب دیا.
"یہ آپ کی زمین نہیں، دریا کی ہے۔ سردیوں میں آپ نے اس کی جگہ پر قبضہ کیا، اب وہ واپس آیا ہے تو شور کیوں؟ لہذا دریا کی زمین پر قبضہ کرنے سے گریز کیا جائے”
یہ سادہ سی بات نہ صرف ایک حقیقت بیان کرتی ہے بلکہ پورے معاشرے کے طرزِ عمل پر سوالیہ نشان بھی ہے۔
قدرت کے اصول ناقابل تردید و ناقابل ترمیم ہوتے ہیں۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ دریا اور ندی نالے محض پانی کی لہریں نہیں، قدرت کا طے کردہ راستہ ہیں۔ ان کے راستوں پر تعمیرات کرنا صرف قانونی یا انتظامی جرم نہیں بلکہ فطرت سے جنگ کے مترادف ہے۔ اور یہ فساد فی الارض بھی ہے۔قرآن مجید میں اللہ کا فرمان ہے۔
"وَلَا تُفْسِدُوا فِي الْأَرْضِ بَعْدَ إِصْلَاحِهَا”
زمین میں اس کی اصلاح کے بعد فساد مت پھیلاؤ” (الاعراف: 56)
جب ہم دریا کی زمین پر عمارتیں بناتے ہیں، پانی کے فطری بہاؤ کو روکتے ہیں، یا تجاوزات کرتے ہیں، تو ہم زمین کی اصلاح کے بعد اس میں فساد ہی تو برپا کرتے ہیں۔ اور پھر اسی فساد کا خمیازہ بھی بھگت رہے ہیں۔
اور یہ بات بھی نوٹ کرنے کی ہے کہ پانی نعمت ہے تو کھبی قہر بھی بن جاتا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے۔
"وَجَعَلْنَا مِنَ الْمَاءِ كُلَّ شَيْءٍ حَيٍّ”
"اور ہم نے ہر جاندار چیز کو پانی سے پیدا کیا”
یہ پانی جب زندگی بخشتا ہے تو نعمت بن جاتا ہے، اور جب اس کے راستے پر دیواریں چنی جائیں تو وہ قہر بن کر آتا ہے۔ اور مزہ چھکاتا ہے۔
سردیوں میں جب دریا خشک نظر آتا ہے، تو لوگ اسے "فالتو زمین” سمجھ کر نہ صرف پلاٹ کاٹنے لگتے ہیں بلکہ مکان، دکان، حتیٰ کہ دفاتر بھی بنا لیتے ہیں۔ پھر گرمیوں میں جب قدرت اپنے بہاؤ پر واپس آتی ہے، تو انسانی تعمیرات کو بہا لے جانا اس کی مجبوری بن جاتی ہے، جسے ہم تباہی کہتے ہیں۔ اور اس تباہی کے داعی ہم خود ہیں۔ ایسے موقع پر ریاستی ادارے بھی دباؤ میں آ جاتے ہیں، اور متاثرین کے نام پر مافیاز فائدہ اٹھاتے ہیں۔ حالانکہ حقیقت یہ ہے کہ وہ زمین پہلے ہی "دریا کی جاگیر” تھی۔
آج جب دنیا موسمیاتی تبدیلیوں کی زد میں ہے، ہمارے خطے میں ہر سال سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور زمین کٹاؤ جیسی تباہیاں بڑھتی جا رہی ہیں۔ ان مسائل کے مستقل حل کے لیے ہمیں سنجیدہ اقدامات اٹھانے ہوں گے۔
یہ اقدامات عوامی سطح پر بھی ہونی چاہیے اور حکومتی سطح پر بھی، صرف عوام بھی کچھ نہیں کرسکتی اور نہ ہی اکیلے حکومت کے بس کی بات ہے۔
عوامی سطح پر جن اقدامات کی ضرورت ہے وہ درجنوں ہوسکتی ہیں تاہم دو چیزیں بہت اہم ہیں۔
ہر سطح پر شعور و آگہی پیدا کی جائے۔ اس کے لیے مساجد مدارس، تعلیمی ادارے ، یونیورسٹیز، اخبارات، ریڈیو، ٹی وی اور سوشل میڈیا مل کر عوام کو یہ باور کروائیں کہ دریا کے کنارے زمین نہیں، پانی کا راستہ ہے۔
اور دوسری بات یہ کہ تعمیرات سے گریز کیا جائے۔سردیوں میں خشک نظر آنے والی زمین پر تعمیر کو ایک "فریب” سمجھا جائے۔
حکومتی سطح پر بھی بہت سارے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ تباہی سے بچا جاسکے۔
دو تین باتیں بہت اہم ہیں جن پر فوری عملدرآمد کی ضرورت ہے۔
1. دریا اور ندی نالوں کے اطراف کو مستقل "ریڈ زون” قرار دیا جائے جہاں تعمیرات قانوناً ممنوع ہوں۔
2. حکومتی ادارے مستقل بنیادوں پر غیرقانونی تعمیرات کو ہٹائیں اور ان میں ملوث اہلکاروں کا احتساب کریں۔
3. ان علاقوں میں پہلے سے بسنے والے لوگوں کو مناسب متبادل فراہم کر کے محفوظ علاقوں میں منتقل کیا جائے۔
ہم سب کو یہ معلوم ہونا چاہیے کہ قدرت اپنے اصولوں پر قائم رہتی ہے، اور جو اس کے دائرے میں مداخلت کرتا ہے، وہ آخرکار نقصان اٹھاتا ہے۔ دریا کی زمین کو "زمین” نہیں بلکہ "راستہ” سمجھا جائے۔ ہم نے اگر ہوش کے ناخن نہ لیے، تو ہر سال وہی تباہی، وہی چیخ و پکار، وہی مطالبات، اور وہی غفلت دہرائی جاتی رہے گی۔
یاد رکھیے! دریا کا حق صرف پانی کا نہیں، فطرت کا حق بھی ہے۔ اور فطرت کا بدلہ، وقت پر، خاموشی سے، مگر پوری شدت سے آتا ہے۔