کتاب کوئی نہیں پڑھتا: قلم، قاری اور کلک کی ڈیجیٹل کہانی

کچھ روز پہلے میں نے سوشل میڈیا پر اعلان کیا کہ اس بار میں اپنی نئی اردو کتاب "کالم کہانی: ڈھاکہ سے غزہ تک، وطن سے محبت کرنے والوں کی تباہی کا صرف ڈیجیٹل ورژن کروں گی، روایتی ہارڈ کاپی پرنٹ نہیں۔ اور بس پھر کیا تھا. پیغامات، تبصرے اور سوالات کی ایک چھوٹی سی برسات شروع ہوگئی۔

محترم محبوب ظفر صاحب (ہمارے جڑواں شہروں کی ادبی و فنون کی دنیا کا روشن نام، شاعر اور زاویہ تنظیم کے بانی) نے لکھا:
"جو کتاب پڑھنا چاہتے ہیں ان کا کیا ہوگا؟”

ادھر کچھ نامور لکھنے والوں نے ڈی ایم کر کے مجھ سے ڈیجیٹل فارمیٹ کے ٹیکنیکل پہلوؤں پر سوالات کیے۔

کتاب چھاپنا آسان نہیں۔ کمپوزنگ، ڈیزائننگ اور پرنٹنگ کے اخراجات اپنی جگہ، اصل امتحان تو بعد میں آتا ہے: پبلشرز، ڈسٹری بیوٹرز اور پروموٹرز کی تلاش۔

پچھلے سال میں نے اپنی کتاب "بے وقت کی راگنی” اپنے وسائل سے پرنٹ کروائی۔ اس سے قبل میری نثری نظموں کا مجموعہ "مجھے محبت سے ڈر لگتا ہے” 1996 میں شائع ہوا تھا۔ اُس وقت پی ٹی وی پر ایک نوجوان خاتون ڈاکٹر کا لائیو شو کر لینا بڑی خبر تھی۔ شاید اسی لیے میں ایک "ہاؤس ہولڈ نیم” بھی کہلائی۔ کئی اینکرز آج بھی اعتراف کرتے ہیں کہ انہوں نے اپنے لڑکپن میں مجھے آئیڈلائز کیا۔

اب تو سب کچھ مختلف ہے۔ خیر، اُس وقت بھی میں مارکیٹنگ اور تشہیر سے دور رہی اور بھریا میلہ چھوڑ کر پوسٹ گریجویشن کرنے یورپ چلی گئی۔

میں بھی "بے وقت کی راگنی” چھیڑ بیٹھی — بات ہو رہی تھی کتاب کی۔ جناب، 2024 میں بھی پروموشن نہ کر سکی۔ ڈسٹری بیوشن کا کوئی باقاعدہ انتظام نہ تھا۔

انٹرنیٹ کی بندش نے ایک وقت پر مجھے مجبور کیا کہ ہارڈ کاپی چھپواؤں، حالانکہ اس کا ڈیجیٹل ایڈیشن پہلے سے ویب پر مفت موجود تھا۔ افسوس یہ کہ جن کے ہاتھ کتاب پہنچی، انہوں نے بھی زیادہ بات نہ کی۔ سوائے چند دوستوں اور احباب کے — ڈاکٹر شاہد اقبال کامران جنہوں نے جامعہ کالمز لکھ کر عزت افزائی کی، ڈاکٹر حیّام کا مختصر تبصرہ، ریڈیو پاکستان کے کامران صاحب اور وقاص صاحب کے پروگرامز، اور ایک نجی چینل پر ردا عمران اور سبین ناز کی گفتگو۔ میں ان سب کی ممنون ہوں۔ لیکن یہ گلہ نہیں، ایک المیہ ہے: کتاب کوئی نہیں پڑھتا۔

تو اب سوال ہے: ڈیجیٹل ورژن کیوں؟

سیدھی سی بات: ڈیجیٹل کتاب = سافٹ کاپی۔
یعنی پی ڈی ایف یا ای بُک کی شکل میں، جسے آپ موبائل، کمپیوٹر یا ٹیب پر پڑھ سکتے ہیں۔

یہ ہارڈ کاپی نہیں ہوتی، لیکن اگر کوئی چاہے تو وہی فائل پرنٹ کر کے پرائیویٹ کاپی بنا سکتا ہے۔

لاگت کا معاملہ:

اگر آپ خود ہی کتاب کو ٹائپ، کمپوز اور ڈیزائن کر لیں تو لاگت تقریباً صفر ہے۔ لیکن اگر آپ یہ کام آؤٹ سورس کریں تو عام طور پر یہ 5000 سے 20000 روپے میں ہو سکتا ہے، صفحات اور ڈیزائن پر منحصر ہے۔

شیئرنگ آسان:

ویب سائٹ ہو تو وہاں سے ڈاؤن لوڈ کے قابل۔ ورنہ سیدھا ای میل یا واٹس ایپ سے شیئر کیجیے۔
مفت یا معاوضے کے ساتھ—دونوں ممکن ہیں۔

میرا مقصد صرف یہ ہے کہ میرا لکھا ہوا کسی نہ کسی شکل میں آپ تک پہنچے۔ چاہے وہ ہارڈ کاپی ہو یا ڈیجیٹل، اصل خوشی تب ہے جب آپ پڑھیں، سوچیں اور شاید کچھ محسوس بھی کریں۔

ڈیجیٹل کتاب ماحول دوست بھی ہے اور اس فیصلے کو کئی لوگوں نے سراہا۔ پروفیسر ڈاکٹر سلمہ صدیقی (کلینیکل سائیکالوجسٹ) نے تبصرہ کیا: "جرأت آمیز تاب سخن”۔
صحافی فہیم اختر نے لکھا: "اس کتاب کے طفیل ایک ویب سائٹ سے ناطہ قائم ہوگیا جہاں ایک فرد نہیں، شخصیت سے تعارف ہوا۔”

کچھ سینئرز جو جدید تکنیک سے زیادہ واقف نہیں، وہ اب بھی ہارڈ کاپی کا تقاضہ کرتے ہیں۔ لیکن حقیقت یہ ہے کہ وقت بدل گیا ہے۔

اب صفحہ کاغذ کا ہو یا اسکرین کا — اصل اہمیت اس بات کی ہے کہ لفظ دل تک پہنچتے ہیں یا نہیں۔

لہٰذا دعا کیجیے کہ میرا یہ نیا ڈیجیٹل سفر بھی محبت اور مکالمے کی ایسی ہی زمین ہموار کر سکے، جہاں خیال اور احساس زندہ رہیں۔

ورنہ محبت کسی بھی شکل میں مجھے راس نہیں آتی — پھر میری تحریر کے موضوعات بھی شاید "ہٹ” ہوتے ہی نہیں ہیں۔ ایسے میں مجھے مایوسی سے بچاتا ہے سنجیدہ قارئین کا ایک محدود طبقہ اور وہ لوگ جو میری تحریر کے درد کو سمجھ سکتے ہیں۔

مثال کے طور پر میری فیس بک وال پر پوسٹ کیا گیا یہ جملہ:
"آپ تاریخ مرتب کر رہی ہیں۔” — جو کراچی کے سینئر صحافی محمد آفتاب عالم کا ہے۔

یہ جملہ میرے جیسے لکھاری کے لیے قیمتی خزانہ ہے۔ کتاب چاہے ہارڈ کاپی ہو یا ڈیجیٹل، اس کی اصل جان قاری کے ردِعمل میں ہے۔ آپ پڑھتے ہیں، سوچتے ہیں، اور کبھی ایک جملہ لکھاری کو نئی زندگی دے دیتا ہے۔

میرے لیے محمد آفتاب عالم کا جملہ — "آپ تاریخ مرتب کر رہی ہیں” — بھی ایسا ہی سہارا ہے، جو تھکن کو امید میں بدل دیتا ہے۔ یہ جملہ میرے لیے کتنا قیمتی ہے۔ پھر وہ ڈیجیٹل فورمز، جیسا کہ آئی بی سی اردو جو ایسی تحریر کو جگہ دیتے ہیں، میرے جیسے لکھاریوں کے لیے یہ ایک نیا حوصلہ ہیں — تھکن کو امید میں بدل دینے والا سہارا۔

اور شاید اسی لیے—لکھنا اب بھی میرا سب سے مضبوط رشتہ ہے۔

ڈاکٹر رخشندہ پروین
بنگلہ دیش میں محصور پاکستانیوں کے انسانی حقوق کی ایک توانا آواز، اردو اور انگریزی کی دو لسانی صحافی، کالم نگار اور قلم کار، عوامی صحت کی ماہر اور محققہ، جو اپنے قلم اور اپنی جدوجہد سے معاشرتی مسائل کو اجاگر کرتی ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے