ممتاز پشتو شاعر جناب اطلس گل اطلس مختصر دورے پر اسلام آباد تشریف لائے ، اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کی لائبریری کے لیے ناظم اکادمی جناب عاصم بٹ اور لائبریری انچارج محترمہ ثمینہ خان کو اپنی تصنیفات پیش کی گئی ۔ بعد ازاں اکادمی کے زیر اہتمام پروگرام ” بیاد شہید ” اور پاکستانی زبانوں کے نعتیہ مشاعرہ میں شرکت اور نعت پڑھنے کی سعادت حاصل کی ۔ صدر نشین اکادمی ادبیات پاکستان ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ممتاز شاعر ادیب دانشور سابق ایمبسڈر سید ابرار حسین شاہ کو اپنا نعتیہ مجموعہ پیش کیا ،تینوں صاحبان علم و دانش نے جناب اطلس گل اطلس کا شکریہ ادا کیا لائبریری انچارج محترمہ ثمینہ خان اکادمی نے لائبریری کو اپنی تصنیفات اور تالیفات دینے پر اکادمی کی جانب سے شکریہ کا مراسلہ پیش کیا ۔
یاد رہے جناب اطلس گل اطلس پاکستان کے ہوائی افواج سے ریٹائرڈ ہے 1980-1990 کی دہائی میں یادادبی تنظیم "سرحد پختو ادبی ٹولنه پشاور کے بانی اراکین میں سے ہے،اور رحمان ادبی جرگہ پشاور کے صدر ہے، جناب اطلس گل کے چار شعری مجموعے تین نعتیہ مجموعے اور حمد پاک کا ایک مجموعہ حسن طباعت سے آراستہ ہوکر منظر عام پر آچکا ہے ۔ جناب اطلس گل وہ خوش قسمت شاعر ہے کہ کہ جن کے دو نعتیہ مجموعوں پر حکومت پاکستان وزارت مذہبی امور کی جانب سے ایوارڈ سے نوازا گیا ہے ۔”رحمان بابا کی فصاحت و بلاغت کی موضوع پر بھی جناب اطلس گل نے ایک کتاب تصنیف کیا ہے ۔” مجتھد رحمان ” جناب اطلس وہ ضحیم کتاب ہے جس میں اب تک رحمان بابا کی مختلف جہتوں پر پشتو پر زبان میں اب تک لکھیں گئیں مقالات شاملِ ہے ۔
چار ستمبر 2025 کواکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد نے بسلسلہ عشرہ رحمت اللعالمین ایک سیمینار کا اہتمام کیا گیا تھا موضوع تھا ” معاصر عہد میں سیرت نگاری :رحجانات و اصالیب اس سیمینار کی صدارت جناب خورشید ندیم چیرمین رحمت العالمین اتھارٹی نے کی مہمانان خصوصی میں جناب عکسی مفتی ، ڈاکٹر محمد طفیل اور جبار مرزا تھے نظامت ڈاکٹر شازیہ اکبر نے کی اکادمی کے صدر نشین ڈاکٹر نجیبہ عارف اور ڈاریکٹر جنرل سلطان محمد نواز ناصر بھی سٹیج پر تشریف فرما تھے سیمینار کا باقاعدہ آغاز تلاوت کلام سے ہوا۔
جناب خورشید ندیم نے اپنے صدارتی خطاب میں سیرت نگاری کی ابتدا سے لے کر دورِجدید تک سیرت پر لکھی گئیں مختلف کتب کا تذکرہ کیا ۔انھوں نے کہا کہ سیرت نگاری میں انسان جزوی پرایک بہت بڑی شخصیت کو ان ﷺکی تمام خوبیوں سمیت اپنی گرفت میں لانے کی سعی کرتا ہے۔ان کا کہنا تھا کہ سیرت تہذیبی ،ادبی اور تنقیدی پس منظر کے تحت بھی لکھی گئی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن مجید میں سیرت النبی ﷺکی گواہی دی ہے۔جناب خورشید ندیم نے جناب عکسی مفتی اور جناب جبار مرزا کی سیرت النبی ﷺپر تحریر کردہ کتابوں اور ڈاکٹر محمدطفیل کےکام کابھی حوالہ دیا اور انھیں موجودہ دور کے تقاضوں کے مطابق بے حد اہمیت کا حامل قرار دیا۔
جناب عکسی مفتی نے “ سیرت النبی ﷺ: لوک ادب اور ثقافت کے تناظر میں” کے موضوع پر گفتگو کی اور کہا کہ حضور ﷺکی حقیقی شخصیت کو سمجھنے کے دو رخ ہیں ایک زمینی اور دوسرا آسمانی یا روحانی میں نے حضور ﷺکو زمینی رخ سے پہچانا اور انھیں نعتوں، قوالیوں، صوفیا کے کلام ، ماہیوں، ہیر رانجھااور مختلف زبانوں کے ٹپوں سے جاناہے۔ انھوں نے کہا کہ لیلتہ القدر میں جس رات حضور پاک ﷺنے رب سے ملاقات کی دراصل اسی دن انسانیت کی تکمیل ہوئی۔جس انسان کو جنت سے نکالا گیا تھا اسی رات پھر سے اس انسان کو عظمت نصیب ہوا۔
ڈاکٹر محمد طفیل نے”ادب اور سوشل میڈیا: سیرت النبی ﷺ کی روشنی میں”پر گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ زمانۂ جاہلیت میں عربی زبان ایک عام زبان تھی لیکن محمد ﷺ کےعرب کی سر زمین پر تشریف لانے سے قرآن مجید عربی زبان کا اہم ترین جزو بن گیا۔قرانی آیات کے علاوہ احادیث مبارکہ ،آپ ﷺ کےارشادات،اسوۂ حسنہ غرض بنی نوع انسان کی فلاح بلکہ تمام عالمِ انسانیت کے لیے قرآن مجید ایک مکمل ضابطہ حیات بن کر نازل کیا گیا۔یہ سب محمد ﷺ کی بعثت کی وجہ سے ہوا۔ڈاکٹر طفیل احمد نے سوشل میڈیا کے حوالے سے کہا کہ ہمارے مفکرین کو چاہیے کہ وہ نئی نسل کو سوشل میڈیا کا مثبت اور تعمیری رخ دکھائیں تاکہ ہماری نسل گمراہی کے بجائے ترقی کی طرف سفر کرے۔
جناب جبار مرزا نے”دفاعِ وطن، ادب اور سیرت النبی ﷺ” کو موضوع بناتے ہوئے حضور ﷺ کی سیرت، پاکستان کی ریاست مدینہ سے مماثلت اور قائد اعظم کے فرمودات کی روشنی میں گفتگو کی۔ انھوں نے کہا کہ محمد ﷺ کی سیرت ہمیں نہ صرف روحانی تربیت دیتی ہے بلکہ ایک منظم،خود دار اور باوقار ریاست کے قیام کا نظریہ بھی دیتی ہے۔انھوں نے کہا کہ دنیا میں ۵۷مسلم ممالک ہیں لیکن پھر بھی وہ دوسروں کے دست نگر ہیں۔آج کے عالمی منظر نامے میں سیرت محمد ﷺ کو اسی تناظر میں دیکھنے کی ضرورت ہے۔
صدر نشین اکادمی پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے کہا کہ آج کی یہ محفل اس لیے یاد رہے گی کہ آج اس بابرکت موقعے پر بہت بڑی شخصیات موجود ہیں۔ انھوں نے کہا کہ صدرِمحفل اور تمام مقررین نے حاضرین کے دلوں میں سیرتِ مصطفیٰ ﷺ کے حوالے سے جو شوق اور شعور پیدا کیا، وہ یقیناً ایک مثبت فکری اور ادبی پیش رفت ہے۔ انھوں نے آخر میں صاحبِ صدارت،مقررین اور حاضرین کی شرکت پر ان کا ۔شکریہ ادا کیامجموعی طور پر یہ فکری و ادبی نشست نہ صرف سیرتِ رسول ﷺ کے فہم میں وسعت کا باعث بنی بلکہ اس نے معاصر ذہنوں کو اس عظیم الشان ورثے سے وابستہ رہنے کی ایک نئی جہت بھی عطا کی۔
آج مورخہ 5, ستمبر 2025 کو اکادمی ادبیات پاکستان کے چمنستان ادب میں مون سون شجرکاری قومی مہم کے حوالے سے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا جس میں معروف شاعر و دانشور پروفیسر ڈاکٹر احسان اکبر نے چمنستان ادب اکادمی ادبیات پاکستان میں اپنے شہید بیٹے لیفٹیننٹ کمانڈر احمد شہریار شہید کے نام کا پودا لگایا گیا۔
احمد شہریار شہید پاکستان نیوی میں پائلٹ تھے۔۱۹۹۹ء میں جنگی مشقوں کے لیے جاتے ہوئے ان کے جہاز کے تمام انجن بند ہوگئے جس کے سبب وہ گوادر اور پسنی کے درمیان پانی میں لاپتہ ہوگئے۔چار ماہ بعد ان کا جسدِ خاکی ملا جو شہادت کے باوجود بالکل درست حالت میں تھا۔انھی کی یاد میں ڈاکٹر احسان اکبر نے شجر کاری کی۔
بعد از شجر کاری حاضرین نے شہید کے لیے دعاکے ساتھ ساتھ ملک کی ترقی،خوش حالی، استحکام اور قومی یک جہتی کے لیے بھی اجتماعی دعا مانگی۔اس موقعے پر نامور اہلِ قلم بھی موجود تھے۔ صدر نشین اکادمی پروفیسر ڈاکٹر نجیبہ عارف نے ڈاکٹر احسان اکبر اور تمام شرکا کا شکریہ ادا کیا۔
بعد ازاں اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کے شیخ آیاز کانفرنس ہال نعتیہ مشاعرہ کا انعقاد ہوا جس کی صدارت ڈاکٹر احسان اکبر نے کی جبکہ جناب وفا چشتی مہمان خصوصی تھے ، اعزازی مہمانان خصوصی میں جناب عرش ہاشمی اور ضیاء الدین نعیم تھے نظامت جناب کاشف عرفان نے کی نعتیہ مشاعرے میں راولپنڈی ، اسلام آباد میں مقیم پاکستانی زبانوں کے شعراء کے ساتھ فصیل آباد اور پشاور سے آئے شعراء نے نبی کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کو گل ہاے عقید پیش کی ۔ صدر محفل نے ڈاکٹر نجیبہ عارف کی سربراہی میں اکادمی ادبیات پاکستان اسلام آباد کاؤشوں کو سراہا ۔
مشاعرے کے آغاز سے قبل ایک نئی روایت کےطور پر جناب اقدس ہاشمی نے جناب پیر مہر علی شاہ کی معروف و مقبول نعت “اج سک متراں دی” مترنم پیش کی،جس نے مشاعرے سے قبل ہی ایک سماں باندھ دیا۔ بعد ازاں جناب کاشف عرفان نے حسب روایت اپنے اردو نعتیہ اشعار سے مشاعرے کا باقاعدہ آغاز کیا اور پھر مختلف شہروں سے آئے ہوئے پاکستانی زبانوں کے شعرا نے اردو، پشتو، پنجابی، ہندکو، سرائیکی، بلوچی اور فارسی میں اپنا نعتیہ کلام پیش کر کے مشاعرے کو عروج پر پہنچا دیا۔
اس نعتیہ مشاعرے میں جن پاکستانی زبانوں کے شعرا نے بحضور سرور کونین ﷺ نذرانۂ عقیدت پیش کیا ان میں ڈاکٹر احسان اکبر(اردو)، جناب وفا چشتی(اردو،سرائیکی) جناب ضیاء الدین نعیم ( اردو،سرائیکی) جناب عرش ہاشمی(اردو)، جناب اخترعثمان(اردو، فارسی)، ڈاکٹر نجیبہ عارف(اردو)، جناب سید ابرار حسین(اردو)، جناب طارق ہاشمی(سرائیکی)،جناب اقبال حسین افکار ( پشتو)،کرنل خالد مصطفی(اردو)، جناب احمد ترمذی(اردو)، جناب اطہر ضیاء(اردو)، جناب اقدس ہاشمی(اردو)، جناب حسن شہزاد راجہ(اردو)، جناب الیاس بابر اعوان ( پنجابی) ڈاکٹر مہناز انجم(اردو)، جناب اطلس گل اطلس( پشتو)،جناب نصرت یاب نصرت(اردو)، جناب سعید شارق(اردو)، جناب ناصر بلوچ(بلوچی)،محترمہ سبین یونس(اردو)، جناب جمال محسن(اردو)، محترمہ نویدہ مقبول بھٹی(اردو)، محترمہ ساره خان(پشتو)،جناب محمد وسیم فقیر (ہندکو )،محترمہ ثمینہ تبسم(اردو مترنم)اور جناب اختر رضا سلیمی(اردو)شامل تھے۔
اس موقعے پر صاحبِ صدارت ڈاکٹر احسان اکبر نے کہا کہ اکادمی نے عشرہ رحمتہ للعالمین ﷺ کی نسبت سے بہت ہی بابرکت محفل سجائی ہے جس پر میں صدر نشین اکادمی ڈاکٹر نجیبہ عارف کو مبارک باد پیش کرتا ہوں ۔ پاکستانی زبانوں کا یہ نعتیہ مشاعرہ ان کی ندرتِ افکار کانتیجہ ہے اور ہمیں ان کی اسی صلاحیت کے سبب نئی نئی باتیں دیکھنےاور سننے کو ملتی ہیں۔ اللہ ان کی توفیقات میں اضافہ فرمائے۔انھوں نےمزید کہا کہ یہ محفل اس لیے بھی اہم ہے کہ اس میں پاکستان کے مختلف زبانوں کے شعرا نے حضرت محمد ﷺسے عقیدت کا اظہار اپنی اپنی زبان میں کیا، جس سے پاکستان کے مختلف حصوں کی مناسب نمائندگی ہوئی۔اللہ پاک ہم سب کی حاضری قبول فرمائے۔
یہ روح پرور نعتیہ مشاعرہ نبی کریم ﷺ سے عقیدت و محبت کا ایک خوبصورت مظہر تھا، جو اڑھائی گھنٹے تک جاری رہا اور جس نے سامعین کے دلوں کو منور کر دیا۔اکادمی ادبیات پاکستان کی اس بابرکت کاوش نے نہ صرف قومی یکجہتی بلکہ لسانی ہم آہنگی کو بھی فروغ دیا۔