کرکٹ کا شور ہر طرف تھا۔ پاکستان کی جیت کا جوش، اور حامد میر کا ٹویٹ:
“Pakistanis love Bangladesh.” — Hamid Mir
ہاں ہم بنگلہ دیش سے نفرت نہیں کرتے۔ ہم اس سرزمین سے دشمنی نہیں رکھتے۔
لیکن حقیقت یہ ہے کہ محبت صرف کرکٹ کے میدان نہیں مانگتے-محبت انصاف بھی مانگتی ہے۔
اور جب انصاف نہیں ملتا…تو زخم بولتے ہیں۔
مسئلہ یہ نہیں کہ پاکستان اور بنگلہ دیش ایک دوسرے سے تعلقات بہتر کیوں بنا رہے ہیں—مسئلہ یہ ہے کہ وہ ایسا کرتے ہوئے “تین لاکھ انسانوں+” کے وجود کو کیوں بھول جاتے ہیں؟
تین لاکھ + صرف عدد نہیں۔
تین لاکھ + ایک اجتماعی چیخ ہے۔
یہ وہ غیر بنگالی پاکستانی جن کی کثیر تعداد نسلی لحاظ سے بہاریہے جو 1971 کے بعد نہ پاکستان کے ہوئے، نہ بنگلہ دیش کے۔ نسلیں گزر گئیں — مگر وہ آج بھی اسٹیٹ لیس اور سٹیٹس لیس ہیں۔
وہ لوگ جو متحدہ پاکستان کے لیے کھڑے ہوئے، پاکستان کے لیے مارے گئے، برباد ہویے -اپنی وفاداری کی قیمت خون میں چکائی —وہ آج بھی "کیمپوں”( چار چار فوٹ کے ڈربوں کو کیمپ کہنا چاہییے ؟) میں بے نام، بے حیثیت اور بے حق زندگیاں گزار رہے ہیں۔
وہ سوال جو کوئی حکومت پوچھنے کو تیار نہیں:آخر پاکستان اور بنگلہ دیش تین لاکھ +انسانوں کو نظرانداز کیسے کر سکتے ہیں؟یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے تاریخ میں سب سے بڑی سیاسی دھوکہ دہی سہی۔
پہلے کہا گیا: "آپ پاکستانی ہیں”-پھر 1971 میں کہا گیا: “ہم آپ کو نہیں لے سکتے”.
پھر 54 سال بعد بھی کہا جا رہا ہے: “آپ ہماری ذمہ داری نہیں”-کیا انسان یوں بھی بے وطن ہوتا ہے؟
کیا شناخت اس قدر سستی ہوتی ہے؟اور وہ عورتیں؟
جن پر جنگ کے نام پر ظلم ہوا—جنہیں کسی نے کبھی سنجیدگی سے سنا بھی نہیں؟
ان بہاری خواتین کی داستانیں آج بھی کیمپوں کی دیواروں میں دفن ہیں۔
ان کی عصمت دری — خواہ 1971 کی ہنگامہ خیزی تھی، خواہ انتقامی بھڑاس — آج تک کسی بین الاقوامی فورم پر پوری طرح درج نہیں کی گئی۔
ان پر ہونے والے ظلم کی بین الاقوامی سطح پر آزادانہ تحقیقات آج تک نہیں ہوئیں۔
یہ حقیقت خود اس بات کی گواہی ہے کہ ان کی تکلیف کسی ریاست کی ترجیح نہیں بنی۔
کیا کسی پاکستانی لبرل اور انسانی حقوق کے علمبردار میں یہ ہمّت تھی کہ شیخ حسینہ واجد سے ایوارڈ لینے والوں سے ایک سادہ سا سوال کر سکیں : کیا آپ نے بہاریوں اور غیر بنگالی لوگوں کا بھی موقف سنا ؟ کیا آپ "مکتی” کی تاریخ میں ان لوگوں کی چیخیں شامل کیے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں؟ کیا آپ کو پتا ہے کہ ان کی عورتوں کی لاشوں کو بنگالی عورتوں کی لاشیں بنا کر پیش کیا گیا ؟ آپ عظمت اشرف کے ساتھ میرا پوڈ کاسٹ ہی سن لیں .
کیا یہ سب “چُپ چاپ بھلا دینے” سے تاریخ ختم ہوجائے گی؟
نہیں۔
نسلیں گزر جائیں — مگر سچ مٹتا نہیں۔
وہ بہاری خاندان آج بھی موجود ہیں۔
ان کے زخم آج بھی تازہ ہیں۔
ان کی آواز آج بھی اتنی ہی دبی ہوئی ہے۔
اور وہ ہم سے پوچھتے ہیں:
“کیا محبت صرف کرکٹ جیتنے سے ہوتی ہے —یا محبت اُن کے لیے بھی ہوتی ہے جو آپ کے نام پر قربان ہوئے تھے؟”
پاکستان کے لیے بھی سوال ہے: کیا 1971 کے بعد آپ نے ان لوگوں کو واقعی اپنا سمجھا؟
کیا کسی حکومت نے ان کی آخری سانس تک ذمہ داری لی؟ کیا ریاست اپنے وفاداروں کو یوں چھوڑ دیتی ہے؟
بنگلہ دیش کے لیے بھی سوال ہے: کیا انصاف یک طرفہ ہو سکتا ہے؟کیا آپ ایک قوم کے دکھ کو تسلیم کیے بغیر آگے بڑھ سکتے ہیں؟کیا تین لاکھ + انسان صرف اس لیے نظرانداز رہیں گے کہ وہ تاریخ کے “غلط وقت” پر “غلط شناخت” رکھتے تھے؟
سچ یہ ہے:پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں ممالک اس مسئلے کو بھول کر آگے نہیں بڑھ سکتے۔
کوئی امن — کوئی محبت — کوئی تعلق — سچ کے بغیر نہیں چل سکتا۔
"No peace no friendship without truth.”
اور سچ یہ ہے:پاکستانی بہاری آج بھی ظلم، بے وطنی اور خاموش نسل کُشی جیسے حالات کا سامنا کر رہے ہیں۔
اگر دونوں ملکوں کے درمیان وفود آ سکتے ہیں، کھیل ہو سکتے ہیں، سفارت بڑھ سکتی ہے— تو پھر ایک مشترکہ کمیشن کیوں نہیں بن سکتا "جو محصور بے شناخت لوگوں” کے مسائل کو حل کرے؟ کون سا قانون، کون سی انسانیت، کون سی اخلاقیات اجازت دیتی ہے-کہ لوگ 54 سال بغیر شناخت کے زندہ رہیں؟
یہ بلاگ غصّہ نہیں —یہ ایک اجتماعی گواہی ہے۔ایک گواہی کہ تاریخ نے جنہیں چھوڑ دیا،
ہم کم از کم انہیں بھولنے نہ دیں۔یہ تین لاکھ انسان+ “نمبر” نہیں —یہ پاکستان کا دکھ،اور بنگلہ دیش کا امتحان ہیں۔
اُن 3 لاکھ+ بے بس بے شناخت انسانوں کی خاموش چیخ جنہیں پاکستان اور بنگلہ دیش دونوں نے بھلا دیا مجھ کو بیقرار رکھتی ہے .
بہت دکھ میں ہوں اس بے حسی اور بے انصافی کو دیکھ کر اور سب سے زیادہ دکھ ان اردو اسپیکرز اور بہاریوں کی جو اب پاکستان یا بنگلہ دیش یا کہیں اور آسودہ زندگی گزار رہے ہیں کے متکبرانہ لہجوں اور رویوں پر ہوتا ہے جو اس برادری کو اپنے برابر نہیں جانتے اور اپنی زندگی میں مگن ہیں مختلف سمجھوتوں کے ساتھ – کتنی بار مقتدرہ سے اپیل کی صحافیوں سے درخواست کی معروف فیمنسٹ کے آگے ہاتھ جوڑے کہ ان کی واپسی محبّت کی واپسی ہے کچھ کریں مگر بے سود سب مفت میں بنگلہ دیش سے پاکستان اور پاکستان سے بنگلہ دیش کی سیریں کر رہیں ہیں – کیسے وکیل کریں کس سے منصفی چاہیں ؟