سحر ہونے تک بول

پاکستان کا کریمنل پروسیکیوشن سسٹم انتا فرسودہ ہوچکا کہ اس کو یکسر تبدیل کیے بغیرنظام بہتر نہیں ہوسکتا۔ بعض اوقات تو والدین بچوں کو گود میں اٹھائے عدالتوں میں پیش ہوتے ہیں، یہ بچے مستقبل میں ریاست اور اس کے اداروں سے ضرور سوال کرینگے کہ کم عمری میں ہی آخر کیوں ان کو مجرم بنانے کی کوشش کی گئی۔۔۔؟ ہماری بدقسمتی تو یہ بھی ہے کہ افراد اور مقتدر قوتیں تفتیشی اداروں پر اثرانداز ہوئے بغیر نہیں رہتے۔ یہاں تک کہ بعض افراد اور ادارے ذاتی مفادات کی خاطر محلاتی سازشوں کے ذریعے بے گناہ کو مجرم بنانے کی ناکام کوشش کرتے ہیں۔ ایسا ہی ایک گھناؤنا کھیل مھٹی بھر میڈیا مالکان اور حکومت کی ملی بھگت سے بول ٹی وی کے خلاف کھیلا گیا۔ ستم تو یہ کہ بول ٹی وی تو ابھی پیدا ہی نہیں ہوا تھا کہ اس پر طرح طرح کی بندشیں لگا دی گئیں۔ میڈیا مالکان نے حکومتی اداروں کے ساتھ مل کر پے در پے حملے کیے۔ یہ میڈیا ٹرائل اس وقت تک جاری رہا جب تک بول کا این او سی اور لائسنس معطل نہ ہوا۔ اس کے علاوہ عدالتوں اور تفتیشی اداروں پر بھی اثرانداز ہوتے رہے، جو تاحال جاری ہے۔ ان مالکان کو یہ خیال نہیں آیا کہ بول ٹی وی سے والبستہ 2200 ملازمین اور ان کے خاندانوں کا کیا بنے گا۔۔۔؟ حکومت اور ریاستی اداروں کی طرف سے ظلم وبربریت، جبرواستبداد اور استحصال کا ایک نہ ختم ہونے والا سلسلہ شروع ہوا اور آج بھی ورکر دشمن حکومت اور ریاستی ادارے ایک وفادار منشی کی طرح چند میڈیا مالکان کی خدمت جانفشانی سے کررہے ہیں۔ کاش یہ میڈیا مالکان اپنے ماضی کا پاس رکھتے، یہ میڈیا ورکر اور بول ملازمین ہی تھے جوان اداروں کی بقا کی جنگ لڑتےرہے، لاٹھیاں کھاتے رہے، اسیری کی زندگی گزاری، یہاں تک کہ قتل بھی ہوتے رہے۔

یہ کس کا لہو ہے کون مرا

اے رہبر ملک و قوم بتا۔۔۔!

خیال رہے کہ کئی ویویڈ جرنلسٹ آج بھی معزوری کی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہیں۔ یہ میڈیا مالکان اپنے مفادات کےلیے شہدا کے ناموں پرسیاست کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، لیکن بے حس حکومت اور میڈیا مالکان ان متاثرہ خاندانوں کی داد رسی تک نہیں کرتے، ان کے زخموں پر مرہم نہیں رکھتے، کاش کہ متاثرہ خاندانوں کی کفالت اور بچوں کی تعلیم کے انتظامات ہی کر لیتے۔۔۔!!! چند میڈیا مالکان کویہ خطرہ لاحق ہے کہ کہیں بول آئے گا تو ان کو بھی ملازمین کی نتخواہوں میں اضافہ کرنا پڑے گا، مراعات دینی پڑینگی۔ بول ٹی وی کے ملازمین کو دی جانے والی مراعات کو دیکھ کر باقی ماندہ میڈیا مالکان نے بھی تنخواہوں میں خاطر خواہ اضافہ کرنے کا اعلان کیا اور ساتھ ہی اس چینل کی بندش کے لیے بھی گھناؤنی سازشیں کرتے رہے۔ ستم تو یہ ہے کہ ہمارے اینکر پرسنز نے بغیر کسی تحقیق کے بول ٹی وی کے خلاف منفی پروپگنڈہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔ آج 10 ماہ گرز چکے، ایف آئی اے بول ٹی وی انتظامیہ کے خلاف کوئی ثبوت عدالت میں پیش نہ کر سکی۔ اس دوران چھے ججز تبدیل ہوئے ، سولہ وکلا بدل دیےگئے لیکن کیس وہی پر کھڑا ہے۔ ایف آئی اے نے سرکاری خزانے پر بھاری بوجھ ڈالا، لیکن آج تک صرف عبوری چالان ہی پیش کیا جاسکا ہے۔ قومی اسمبلی کی قائمہ کمیٹی برائے اطلاعات کے حالیہ اجلاس میں بول کے ملازمین کی تنخواہوں کا مسئلہ اٹھایا گیا اور ساتھ ہی بول کی بندش کے حوالے سے حقائق جاننے کے لیے ان کیمرہ اجلاس بلانے کا بھی فیصلہ کیا۔ چیرمین پیمرا ابصار عالم نے انکشاف کیا کہ 90 فیصد میڈیا مالکان ملازمین کو وقت پر تنخواہ نہیں دیتے۔ صحافتی حلقوں کا کہنا ہے کہ میڈیا مالکان سازشوں پر پیسہ صرف کرنے کے بجائے ملازمین کو وقت پر تنخواہ ادا کیوں نہیں کرتے۔۔۔؟ ویسے تو بول ٹی وی کی بندش کے حوالے سے مظاہرے مئی 2015 سے شروع ہوئے، ملک بھر کے صحافی، میڈیا ورکرز اور سول سوسائٹی احتجاجی ریلیوں میں بول ٹی وی کے حق میں آواز اٹھاتے رہے، پارلیمنٹ کے ہاؤس کے باہر دھرنا بھی دیا گیا، لیکن ایک بار پھر مالکان کی منشی حکومت بول ملازمین کو دھوکا دینے میں کامیاب ہوئی۔ بدقسمتی سے بول کا این او سی اور لائسنس معطل ہوا تو ورکرز میں مزید مایوسی پھیل گئی۔ ایک میڈیا مالک نے تو آج تک بول ٹی وی کا پیچھا نہیں چھوڑا ہے۔

پاکستان کی صحافتی تاریخ میں ایک دور ایسا بھی گزرا ہے کہ جس میں مدیر کی اجازت کے بغیر سیٹھ نیوز روم میں داخل نہیں ہوسکتا تھا، سیٹھوں سے کوئی ڈیکٹیشن نہیں لی جاتی تھی، لیکن بدقسمتی سے آج مالکان کے حکم پر صحافی اپنے نام کے ساتھ ایسی خبریں شائع کرواتے ہیں جس کا زمینی حقائق سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔ گزشتہ دس ماہ سے بول ٹی وی کے ورکرز تنخواہوں کی عدم ادائیگی کے حوالے سے سراپا احتجاج ہیں۔ عدالتی احکامات، حکومتی وعدوں اور پیمرا کی طرف سے تنخواہوں کی ادائیگی کے حوالے سے وزارت اطلاعات کو لکھے جانے والے خط پرتاحال کوئی پیش رفت نہ ہوسکی۔ اس ساری صورت حال کے پیش نظر 5 جنوری 2016 کو بول ورکرز ایکشن کمیٹی اسلام آباد کی داغ بیل ڈالی گئی۔ سینئر صحافی سبوخ سید کو متفقہ طور پر صدر چنا گیا اور 15 رکنی کابینہ کا اعلان کیا گیا۔ ایکشن کمیٹی یک نکاتی ایجنڈے پر قائم کی گئی ہے۔ پہلے دن سے ایکشن کمیٹی حکومت، اپوزیشن جماعتوں کے سربراہوں اور سول سوسائٹی کے اہم افراد سے ملاقاتوں میں بول ملازمین کی تنخواہوں کی ادائیگی کا مسئلہ اٹھا نے میں مصروف ہے۔ دوسری جانب سوشل میڈیا مہم عروج پر ہے، بلاگ لکھے جارہے ہیں۔ اس کے علاوہ اسلام آباد کے مختلف مقامات پر واجبات کی ادائیگی کے حوالے سے بینرزآویزاں کیے گئے ہیں۔ 9 فروری 2016 کو بول ورکرز ایکشن کمیٹی اسلام آباد کی کال پر منعقدہ احتجاجی ریلی میں صحافتی تنظیموں، اخبارات اور ٹی وی چینلز کے کارکنان، سول سوسائٹی، طلبہ اور سیاسی جماعتوں کے کارکنان کی بڑی تعداد اظہار یکجہتی کےلیے جمع ہوئی اور حکومت سے مطالبہ کیا کہ بول ٹٰی وی کے ملازمین کی تنخواہوں کا معاملہ جلد از جلد حل کیا جائے۔

اسلام آباد کی طرح کراچی اور لاہور میں بھی بول ورکرز ایکشن کمیٹیاں بنائی گئی ہیں۔ بول ورکرز ایکشن کمیٹی کراچی کی کال پر کراچی پریس کلب میں 8 فروری کو ایک بڑا احتجاجی جلسہ منعقد ہوا، جس میں صحافتی تنظیموں کے عہدیداران، قلم کار، الیکڑانک اور پرنٹ میڈیا کے ورکرز اور مزدور یونینز کے سرکردہ لیڈران شریک ہوئے۔ تمام محنت کشوں نے اس عزم کا اظہار کیا کہ وہ بول کی بحالی اور ورکرز کے واجبات کی ادائیگی تک جدوجہد جاری رکھیں گے۔ کراچی یونین آف جرنلسٹ اور بول ورکرز ایکشن کمیٹی کے زیراہتمام مورخہ16 فروری کو سندھ اسمبلی کے باہر ہونے والے مظاہرے میں بول ٹی وی اور ایگزیکٹ کے ملازمین سے متحدہ قومی موومنٹ، پاکستان پیلپز پارٹی اور پاکستان تحریک انصاف سے تعلق رکھنے والے اراکین اسمبلی اور لیڈران نے یک آواز ہوکر حکومت وقت سے بول کی بحالی اور ورکرز کا معاشی قتل عام بند کرنے کا مطالبہ کیا۔

ادھر لاہور میں بھی بول ورکرز ایکشن کمیٹی کے اراکین نے سیاسی قائدین، صحافتی اور وکلا تنظیموں کے سرکردہ لیڈران سے ملاقاتوں میں بول ورکرز کے واجبات کی عدم ادائیگی کا معاملہ اٹھایا ہے اور ساتھ ہی لاہور پریس کلب میں مورخہ 23 فروری کو احتجاج کی کال دی ہے۔ ویسے تو ماضی میں آمروں نے عوام کی آواز کو دبانے کے لیے صحافیوں کو دیوار سے لگایا تھا لیکن جمہوریت کا راگ الاپنے والی موجودہ حکومت نے بول سے وابستہ ہرزاورں محنت کشوں کا معاشی قتل عام کر کے سابقہ ریکارڈ بھی توڑ ڈالے ہیں۔

آخر میں حبیب جالب کے دو اشعار۔

دس کروڑ انسانو !
زندگی سے بیگانو !
صرف چند لوگوں نے
حق تمہارا چھینا ہے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے