کیا ریاست کسی کو غیر مسلم قرار دے سکتی ہے؟

بہت سادہ سا سوال ہے، اور سادہ ہی اس کا جواب ہے، البتہ سوال کو چونکہ آج کل پیچیدہ بنایا جا رہا ہے اس لئیے جواب بھی ذرا تفصیل و تجزیہ کا متقاضی ہے.

سوال کا سادہ اور مختصر جواب یہ ہے کہ ریاست کسی بھی شہری کو کافر قرار دے سکتی ہے، اب چونکہ اس بنیادی اور سادہ سوال کو پیچیدہ بنانے کے لئے اگلا سوال ہوگا کہ کیوں؟ اس لئے اس کیوں کا جواب ذرا تفصیل سے دینا پڑے گا، اس کے لئیے ہمیں درج بالا اصل سوال کو کچھ دیر کے لئیے ایک طرف رکھ کر ایک اور سوال پر غور کرنا ہوگا.

وہ سوال یہ ہے کہ کیا ریاست کو قانون سازی کا حق ہے یا نہیں؟

یقیناً جواب اثبات میں ہوگا، کیونکہ قانون سازی نہ صرف ریاست کا حق ہے بلکہ اس کی ذمہ داریوں میں سے اہم ذمہ داری ہے (اگر کسی کا جواب نفی میں ہے تو اس سے یہ مکالمہ ہی لا حاصل رہے گا کہ ریاست کسی کو کافر قرار دے سکتی ہے یا نہیں، اس سے مکالمہ اس نکتہ پر کیا جائے گا کہ ریاست کے لئیے قانون سازی کا حق کیوں کر تسلیم نہ کیا جائے …؟)

لہذا جب ریاست کے لئے قانون سازی کا حق تسلیم کر لیا گیا تو ریاست جب بھی کسی معاملہ میں قانون سازی کی ضرورت محسوس کرے گی وہاں قانون سازی کا اپنا حق استعمال کرے گی، ملکِ پاکستان میں اکثریت اگرچہ مسلمانوں کی ہے لیکن آئینِ پاکستان کی رو سے ملک میں موجود تمام مذہبی اقلیتوں کو حقوق حاصل ہیں، ان حقوق میں سے ایک حق مذہبی شناخت کا بھی ہے، اگر کوئی خود کو عیسائی کہتا ہے تو اسے آئین یہ حق دیتا ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کو نہ صرف واضح کرے بلکہ اس کے تحفظ و بقاء کے لئیے اقدامات بھی کرے، اسی طرح ملک میں اکثریت چونکہ مسلمانوں کی ہے اس لئے انہیں بھی آئینی و اخلاقی طور پر اس بات کا حق ہے کہ وہ اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ و بقاء کے لئے قانونی دائرہ کے اندر رہتے ہوئے اقدامات اٹھائیں.

1974 میں ہماری پارلیمنٹ نے اسی ضرورت کے تحت عوام کی خواہش پر اپنی آئینی ذمہ داری کو پورا کرتے ہوئے یہ قانون بنایا ہے کہ قادیانی مسلمانوں سے الگ ایک گروہ ہے لہذا انہیں آئینِ پاکستان کی رو سے ایک غیر مسلم اقلیت کے طور پر تسلیم کیا گیا، اور انہیں اپنی مذہبی شناخت کے تحفظ کا حق دیا گیا اس لئیے وہ خود کو اسلام کے علاوہ کسی بھی مذہبی شناخت کی طرف منسوب کرنے کا حق رکھتے ہیں.

اب اس پر یہ اعتراض اٹھایا جائے گا کہ یہ تو مذہبی معاملات میں ریاست کی مداخلت ہے اور مذہبی معاملات میں ریاست کو دخل نہیں دینا چاہئیے،

اب یہاں سے یہ بحث انتہائی اصولی حیثیت اختیار کر جاتی ہے، اس لئے ریاست اور مذہب کے باہمی تعلق کو واضح کرنے کے بجائے ہمیں پہلے اس بات کا جائزہ لینا ہوگا کہ ملکِ عزیز پاکستان میں قادیانیوں کو غیر مسلم اقلیت قرار دینا ایک مذہبی معاملہ ہے یا قانونی؟ اگر یہ ایک مذہبی معاملہ ہے تو ہمیں بلا چوں چراں اسے ٹھنڈے پیٹوں تسلیم کرنا پڑے گا، اس لئیے کہ اسلام کے تصورِ ریاست کے تناظر میں ایک اسلامی جمہوری ریاست کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس "مذہبی معاملہ” کو جمہور عوام کی خواہشات کے تناظر میں باہمی مشاورت سے حل کرے، چنانچہ "اسلامی جمہوریہ پاکستان” کے عوام کی منتخب پارلیمنٹ نے اس مذہبی معاملہ کو باہمی مشاورت کے ذریعے مکمل اتفاقِ رائے سے حل کرنے کے بعد اسے قانونی شکل دے کر بتادیا کہ قادیانیوں کا اسلام سے کوئی تعلق نہیں، لہذا وہ خود کو مسلمانوں یا اسلام کے علاوہ کسی بھی دوسرے نام سے منسوب کرسکتے ہیں، جہاں تک سیکولر تصورِ ریاست کا تعلق ہے تو اس کی روشنی میں تو یہ مسئلہ زیادہ قابلِ فہم ہونے کے ساتھ ساتھ خود اسس تصور کے بھی مطابق ہے، کیونکہ مذہبی معاملات میں سیکولر تصورِ ریاست کا دعوی غیر جانبداری کا ہے نہ کہ مخالفت کا، اس لئے جب کسی "مذہبی معاملہ” میں منتخب عوام کی پارلیمنٹ کوئی متفقہ فیصلہ کرلے تو سیکولر تصور کے مطابق ریاست کو مذہب کی مخالفت میں اسے رد نہیں کرنا چاہئیے بلکہ غیر جانبدار رہ کر اس فیصلہ کو تسلیم کرلینا چاہئے.

ممکن ہے اب یہاں آکر ایک اور سوال کیا جائے کہ ریاست مذہبی معاملے میں غیر جانبدار ضرور رہتی ہے لیکن از خود کسی مذہبی معاملے میں مداخلت نہیں کرتی.

اس سوال کا جواب یہ ہے اولاً تو یہ تصور سیکولر ریاست کا لازمہ ہے نہ اسلامی ریاست کا، ثانیاً یہ جاننا انتہائی ضروری ہے کہ مذہبی طور پر تو یہ مسئلہ بہت پہلے سے حل ہوچکا تھا، سماجی طور پر پہلے بھی انہیں غیر مسلم ہی سمجھا جاتا تھا ، مسلمان اہلِ علم اور عوام سب ہی مذہبی حوالے سے انہیں اپنے سے الگ ہی سمجھتے تھے، مسلمانوں کے تمام مکاتبِ فکر کے سرکردہ اہلِ علم نے روزِ اول ہی سے اس مسئلہ کو مکمل اتفاقِ رائے سے حل کرلیا تھا، اور تمام مکاتبِ فکر کے اس مسئلہ کے متفقہ حل میں ریاست کا کبھی کوئی کردار نہیں رہا، لیکن جب قادیانیوں نے دجل سے کام لیتے ہوئے مسلمانوں کی شناخت کو استعمال کرنا شروع کیا اور مسلمانوں سے الگ ہوکر بھی خود کو مسلمان کہتے رہے تو اس سے سماجی سطح پر اختلافات اور بعد ازاں فسادات شروع ہوئے کیونکہ یہ مسلمانوں کی صدیوں سے متفقہ و مسلمہ شناخت پر حملہ تھا جسے کسی بھی صورت مسلمان برداشت کرنے کے لئے تیار نہ تھے اس لئیے ملک میں فسادات کو روکنے کے لئے اور قانون کی رٹ کو برقرار رکھنے کے لئے ضروری تھا کہ اسے محض مذہبی مسئلہ کے طور پر نہ لیا جائے بلکہ اسے سماجی مسئلہ کے طور پر قانون کے دائرے میں لاکر قانونی سطح پر بھی اس بات کا تعین کیا جائے کہ کیا قادیانی واقعی مسلمان ہیں یا دائرہ اسلام سے خارج ؟

چونکہ اب یہ مذہبی سے زیادہ سماجی اور قانونی مسئلہ بن چکا تھا اس لئے اس بارے میں قانون سازی بالکل درست اور عوام کی خواہشات کے عین مطابق تھی، چنانچہ قانونی طور پر انہیں مکمل آزادی دی گئی کہ وہ اپنے موقف کو قانون ساز ادارے کے روبرو پیش کرکے خود کو دلائل سے مسلمان ثابت کریں، اس موقع پر چونکہ انہیں بعض اطراف سے یقین دہانیاں کرائی گئی تھیں کہ تمہارا کوئی بال بھی بیکا نہیں کرسکتا اس لئے وہ پارلیمنٹ میں جاری بحث و مکالمہ میں برضا و رغبت شریک ہوئے، لیکن دلائل کی دنیا میں مکالمہ بری طرح ہار گئیے، کیونکہ اس وقت کی اسمبلی میں سیاست، قانون اور مذہب کے صفِ اول کے ماہرین موجود تھے، لہذا تمام تر بحث و مکالمہ کے نتیجے میں انہیں قانونی طور پر بھی غیر مسلم اقلیت قرار دیا گیا، اس وقت اگر انہیں قانونی طور پر اس مسئلے کو حل کرنا منظور نہیں تھا تو اس وقت کہنا چاہئیے تھا کہ ہم اس مسئلہ کو قانونی طور پر نہیں بلکہ مسلمان علماء کی سطح پہ علمی طور پر پارلیمنٹ سے باہر ریاست کی سرپرستی کے بغیر حل کرنا چاہتے ہیں، لیکن اس وقت ایسا نہیں کیا گیا، اس لئے اب ان کی طرف سے قانون سازی پر اعتراض کرنے کا کوئی جواز نہیں بنتا.

جب ابتداء میں ہم ریاست کے لئے قانون سازی کا حق تسلیم کرچکے ہیں، اور ریاست نے اپنا حق استعمال کرتے ہوئے قادیانیوں سے متعلق قانون سازی کرلی تو اسے ہر فریق کو کھلے دل سے تسلیم کرنا چاہئے کیونکہ ریاست نے قانون سے متعلق اپنی ذمہ داری نبھائی ہے، پھر قانون سازی بھی ایسی نہیں کہ یک طرفہ قانون بناکے جبراً مسلط کردیا گیا ہو بلکہ ان کی خوشی سے پارلیمان کے تمام ممبران کے سامنے اکیس دن ان کے سیاسی مذہبی لیڈروں سے تفصیلی بحث و مباحثہ کے بعد متفقہ طور پر قانون سازی کی گئی، اب قادیانیوں کو چاہئے کہ یا تو پاکستان کے ساتھ ساتھ آئینِ پاکستان کو مانتے ہوئے خود کو غیر مسلم اقلیت کے طور پر تسلیم کرلیں، (اس صورت میں بھی انہیں وہ تمام تر انسانی و مذہبی حقوق حاصل ہوں گے جو پاکستان کے آئین میں کسی بھی غیر مسلم اقلیت کے لئیے تسلیم کئیے گئے ہیں ) یا پھر انتہائی دیانت داری کا ثبوت دیتے ہوئے مملکتِ پاکستان کو خیر باد کہتے ہوئے کسی ایسے ملک کا رخ کرنا چاہئیے جہاں انہیں مسلمان ہی سمجھا جاتا ہو اور ان کے ساتھ سلوک بھی وہی کیا جاتا ہو جو آج کل مسلمانوں کے ساتھ کیا جاتا ہے، لیکن قادیانیوں کا سابقہ ریکارڈ یہ بتاتا ہے کہ یہ خود کو مسلمان باور کرانے کے باوجود نہ تو کبھی ملکِ پاکستان کو ایک اسلامی ریاست کے طور تسلیم کریں گے اور نہ ہی اسے چھوڑ کر اس کے خلاف ریشہ دوانیوں سے باز آئیں گے

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے