علماء دیوبندکی درگاہ اجمیرشریف میں حاضری

صبرو تحمل،برداشت اورررواداری محبت واعتمادکی فضاپیداکرتے،اختلاف کرنے کا ڈھنگ بتاتے اوررائے کا احترام سکھاتے ہیں۔جھگڑا اورنزاع تب پیداہوتاہے۔جب عدم برداشت اورتعصبات کسی کے دل ودماغ پرمسلط ہوجائیں۔پھر وہ نہ کسی کے مؤقف کو سننے کاروادارہوتاہے اورنہ کسی کی رائے کوبرداشت کرتاہے۔11؍نومبر کو جب علماء دیوبندکی اجمیرشریف میں حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری ؒ کی درگاہ میں حاضری کی خبرسوشل میڈیاکے ذریعے سامنے آئی تو یقین مانیں کہ دل خوشی سے سرشارہوگیا۔

جمعیت علماء ہندکے رہنماؤں کے اس عمل نے ماضی کی تابندہ روایات کی یاددلادی۔یہ ایک قابل تقلیدنمونہ ہے ۔اللہ کرے کہ یہ تسلسل جاری رہے اورپیارومحبت کی یہ بادِ بہاری ہمیشہ چلتی رہے۔تفصیلات کے مطابق جب جمعیت علماء ہندکے امیر مولانا قاری سید محمد عثمان منصورپوری، جنرل سیکرٹری مولانا سید محمود اسعد مدنی کی قیادت میں ورکنگ کمیٹی کے ارکان کا وفد شیخ المشائخ حضرت خواجہ معین الدین چشتی اجمیری رحمۃ اللہ علیہ کے مزار پر حاضری دینے اور فاتحہ پڑھنے پہنچا تو درگاہ کے سجادگان و خدام کی دونوں انجمنوں سید زادگان ا ور شیخ زادگان نے نہ صرف ان کاپرتپاک خیرمقدم کیا، بلکہ مجلس عاملہ کے اہم علماء کے سروں پر دستار باندھ کر اپنی محبت کابرملا اظہاربھی کیا۔

جمعیت علماء ہند اور دارالعلوم دیوبند کے اکثر علماء و مشائخ کی سلسلہ چشتیہ سے وابستگی رہی ہے اوروہ خواجہ اجمیریؒ کے روحانی فیض سے بھی فیض یاب ہوتے رہے ہیں۔جمعیت علماء کے موجودہ اکابر قاری سید محمد عثمان منصورپوری اور مولانا سید محمود اسعد مدنی کا سلسلۂ طریقت حضرت حاجی امدا داللہ مہاجر مکی رحمۃ اللہ علیہ سے ہوتے ہوئے 24 واسطوں سے سلطان الہند حضرت خواجہ اجمیریؒ تک پہنچتا ہے ۔جمعیت علماء کے رہنماؤں کا درگاہ اجمیر شریف سے بڑا قدیمی تعلق اور واسطہ ہے ، شیخ الاسلام مولانا سید حسین احمد مدنیؒ ، مجاہد ملت مولانا حفظ الرحمن سیوہارویؒ ، سحبان الہند مولانا احمد سعید دہلوی اؒ ور دیگر اکابردیوبند کا خواجہ اجمیریؒ کی درگاہ میں حاضری کا معمول رہا ہے ۔اس موقع پراکابر دیوبندکی درگاہِ حضرت خواجہ معین الدین چشتی سے دیرینہ وابستگی کا ذکر کرتے ہوئے انجمن سید زادگان درگاہ اجمیر شریف کے صدر جناب الحاج سیّدمعین حسین چشتی سرکار نے کہا کہ اگر جمعیت علماء نہ ہوتی توآج درگاہ اجمیرشریف غیروں کے قبضے میں ہوتی۔

انہوں بتایاکہ 1947میں آزادی کے بعد درگاہ کے ذمہ دارحضرات پاکستان چلے گئے تھے اوردرگاہ شریف پر غیروں کا قبضہ ہوگیا تھا، لیکن جمعیت علماء ہندکے عظیم رہنمامجاہد ملت مولانا حفظ الرحمان سیوہارویؒ نے نہ صرف سجادگان کو پاکستان سے واپس بلایا، بلکہ درگاہ پر اُن کا قبضہ بھی بحال کرایا تھا۔ بعدازاں جمعیت علمائے ہند کے 33ویں اجلاس منعقدہ اجمیر سے خطاب کرتے ہوئے شیخ العرب والعجم حضرت مولاناسید حسین احمد مدنی ؒ کے پوتے مولانا محموداسعد مدنی جنرل سیکرٹری جمعیت علماء نے کہا کہ تصوف کے ذریعہ خواجہ معین الدین چشتی رحمتہ اللہ علیہ نے دنیا کو جو روشنی دکھائی تھی۔ آج فکرونظر کے ظلمت کدے میں اس کی سخت ضرورت ہے۔ انہوں نے کہاکہ مسلک کے نام پر مسلمانوں کو تقسیم کرنے کی جو کوشش کی جاتی رہی ہے۔ اس سے مسلمانوں کو زبردست نقصان پہنچا ہے ۔ اب یہ سب بند کیا جانا چاہئے اور ایک امت بن کر پر ایک دوسرے کا ہاتھ تھامنا چاہیے ۔

انہوں نے کہا کہ اختلافات اچھی چیز ہیں لیکن جب یہ اختلافات عداوت میں بدل جائیں توامت کے لئے تباہ کن بن جاتے ہیں۔ انہوں نے مسلکی اختلافات کے تناظر میں کہا کہ اختلاف اچھی چیز ہے اور نیک مقصد کے لئے ہو تو یہ رحمت ہے لیکن جب یہ ایک دوسرے کے تئیں عداوت میں بدل جائیں تو اس سے امت کو بہت نقصان ہوتا ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایسا اس لئے ہوتا ہے ،کیو کہ ہم اپنی رائے کو حتمی اورفیصلہ کن مان لیتے ہیں اور دوسروں کی رائے کی گنجائش تسلیم نہیں کرتے ۔جس کی وجہ سے دشمنی پیدا ہوتی ہے ۔ انہوں نے کہا کہ ایک اہم مسئلہ مسلمانوں کے مختلف طبقات کے درمیان مسلکی کشیدگی کا ہے ۔ سب لوگ اپنے اپنے مسلک اور روایات پر قائم رہتے ہوئے ملت کیلئے کام کرسکتے ہیں ۔

انہوں نے کہا کہ حضرت خواجہ معین الدین چشتی ؒ نے ہمیشہ اتفاق کا درس دیا، خدمت خلق پر توجہ دی اور تصوف کے ذریعہ لوگوں کے درمیان امن چین قائم کیا۔اب ضرورت اس بات کی ہے کہ اس پیغام محبت کو ملک کے کونے کونے تک پہنچایا جائے۔ تاکہ مسلکی اختلافات کو کم کیا جاسکے اور یہ اختلافات چوراہے پر نہ آسکیں۔جمعیت علماء کے امیرمولانا قاری محمد عثمان منصورپوری نے اپنے صدارتی خطاب میں علماء کرام سے تصوف کے چاروں سلسلوں سے جڑنے کی بھی تلقین کی اور کہا کہ ہمارے اکابر ؒ سلسلۂ عالیہ چشتیہ سے وابستہ رہے ہیں ،بالخصوص شیخ الاسلام حضرت مولانا سید حسین احمد مدنی اور اُن کے مشائخ عظام حضرت حاجی امداد اللہ مہاجر مکی ؒ اورحضرت مولانا رشید احمد گنگوہی رحمۃ اللہ علیہ سلسلۂ چشتیہ کے اُن بلند مرتبہ بزرگوں میں سے ہیں۔ جن سے ماضی میں ایک عالم کو ہدایت ملی اور بے شمار لوگ وصول الی اللہ کی دولت سے مالا مال ہوئے۔

جمعیت کے اجتماع میں دیوبندی حضرات کے علاوہ درگاہ اجمیرشریف کے سجادگان بھی شریک ہوئے ۔خواجہ معین سرکارنے اپنے خطاب میں کہا کہ ہم سب کا ایک ہی مسلک ہے۔دیوبندوالے بھی سلسلۂ چشتیہ سے تعلق رکھتے ہیں اورمیں جمعیت علماء کو ملت اسلامیہ کو متحدکرنے پر مبارک بادپیش کرتاہوں۔اجتماع میں مولانا احمدرضاخان بریلوی کے پڑپوتے مولانا توقیررضاخان کی شرکت شرکائے اجتماع کے لیے بہت خوشی کا باعث بنی ۔پیشتر ازیں مئی 2016 میں دارالعلوم دیوبند کی ڈیڑھ سو سالہ تاریخ میں پہلی مرتبہ ایک بہت بڑا بریک تھرو تب ہوا تھا کہ جب مولانا توقیررضاخان نے دارالعلوم دیوبند کا دورہ کیا تھا اورکہا تھا کہ وقت آگیا ہے کہ اب دیوبندی اور بریلوی فرقے ایک ہوجائیں۔ ہم سب ایک ہیں، بریلوی یادیوبندی کے نام پرہم آپس میں لڑکر دوسروں کو اپنے اتحاد میں سیندھ لگانے نہیں دیں گے ،جبکہ مفتی ابوالقاسم نعمانی مہتمم دارالعلوم دیوبندنے جواباًبھی ایسے ہی جذبات کا اظہارکیا تھا۔ جمعیت علماء کے اس اجتماع میں بھی مولانا توقیررضا خان نے خطاب کیا۔انہوں نے کہا کہ مجھے یہاں آکر یہ احساس ہواہے کہ میں اپنوں میں آیاہوں۔عقیدہ پر سمجھوتہ کیے بغیراِتحادِ ملت وقت کی ضرورت ہے۔اب قومی مسائل کے حل کے لیے بلاتفریق مسلک کے باہم اتحاد ناگزیرہے۔

ہندوستان بھر کے تما م دینی حلقوں میں مولانا محمود مدنی اور درگاہ کے سجادگان و خدام کی جانب سے ملی اتحاد کے اس مبارک عمل کو ایک تاریخی قدم قرار دیتے ہوئے اسے ملکی پیش منظراور عالمی حالات کے تناظر میں لائق تحسین و لائق تقلید عمل قرار دیاجارہاہے۔پاکستان میں تمام مسالک کو ختم نبوت کے محاذپر اکٹھا کرنے کا سہرا مجلس احراراسلام کے سر ہے۔جب تحریک ختم نبوت1953 میں بریلوی ،دیوبندی،اہل حدیث،حتیٰ کہ شیعہ بھی فتنۂ قادیانیت کے خلاف یک جان وسربکف ہوگئے تھے۔ایسے ہی مظاہر پھر تحریک ختم نبوت 1974 اورتحریک نظام مصطفی 1977کے دوران دیکھنے کو ملے تھے۔

پچھلے مہینے (اکتوبر) کے آخر میں عمان ائیرپورٹ پر مفتی تقی عثمانی اورڈاکٹر طاہرالقادری کا آمنا سامنا ہواتو دونوں حضرات نے گرمجوشی سے ایک دوسرے کا خیرمقدم کیا اورگلے بھی ملے۔جس کا سنجیدہ دینی طبقوں نے خیرمقدم کیا۔ابھی چندروزپہلے قائدجمعیت مولانا فضل الرحمن ممتازرُوحانی بزرگ اورسرائیکی کے عظیم صوفی شاعر حضرت خواجہ غلام فریدؒ کی خانقاہ کوٹ مٹھن کے سجادہ نشین خواجہ معین الدین گوریجہ کی خصوصی دعوت پر کوٹ مٹھن تشریف لے گئے اوروہاں فاتحہ خوانی کی اورکافی دیرتک وہاں احباب کے ساتھ نشست جمائے رکھی۔

عالم اسلام بالخصوص پاکستان جن حالات سے گزررہاہے،ضرورت اس امر کی ہے کہ فروعی اختلافات کو پس پشت ڈال کر تمام دینی قوتیں طاغوت کے خلاف کمربستہ ہوجائیں۔تاکہ نفرت وکدورت کی جگہ امن ومحبت اوراخوت ورواداری کا چلن عام ہو اورپاکستان میں نفاذِ اسلام کی منزل قریب تر ہوسکے جو پاکستانیوں کے دلوں کی دیرینہ خواہش وآرزوہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے