کراچی میں لاعلاج اورپراسرار بیماری سے شہری پریشان

کراچی میں پراسرار بیماری کا حملہ

کراچی کے علاقے ملیر میں مبینہ طور پر ‘چکن گونیا’ نامی بیماری کی اطلاع کے بعد سندھ کے محکمہ صحت (ہیلتھ ڈپارٹمنٹ) نے علاقے میں تیز بخار اور جوڑوں کے درد کے حوالے سے سامنے آنے والی رپورٹس کی تحقیقات کا فیصلہ کیا ہے۔

صوبائی محکمہ صحت نے یہ فیصلہ ملیر کھوکھراپار نمبر 2 کے ایک نجی ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ کی جانب سے حکام کو دی جانے والی اطلاع کے بعد کیا ہے جس میں بتایا گیا ہے کہ علاقے میں مچھر کے کاٹنے سے ہونے والی مبینہ طور پر ‘چکن گونیا’ بیماری کی اطلاع ہے جس سے مریض کو تیز بخار اور جوڑوں میں درد کی شکایت ہے۔

[pullquote] چکن گونیا کی اہم معلومات[/pullquote]

• یہ مرض مچھر کے کاٹنے سے انسان میں پھیلتا ہے۔

• اس مرض کی علامات میں تیز بخار، جوڑوں کا درد، پٹھوں کا درد، سر درد، متلی، تھکاوٹ اور خارش شامل ہیں۔

• جوڑوں کا درد اکثر کمزروی کا باعث بنتا ہے اور اس مدت میں ہر مرحلے میں مختلف ہوسکتا ہے۔

• اس مرض کی کچھ علامات ڈینگی وائرس سے مشابہت رکھتی ہیں اور جن علاقوں میں ڈینگی کا مرض عام ہیں ان میں یہ مرض غلط طور پر تشخیص بھی ہوسکتا ہے۔

• اس مرض کا علاج موجود نہیں تاہم علامات کے علاج سے مرض میں کمی آتی ہے۔

• چکن گونیا کے مرض میں اضافے کی وجہ انسانی رہائشی علاقوں میں مذکورہ وائرس سے متاثرہ مچھروں کی افزائش ہے۔

• مرض شاذ و نادر ہی مہلک ہے۔

• چکن گونیا افریقہ، ایشیا اور برصغیر کے علاقوں میں موجود ہے۔

ڈان سے بات چیت کرتے ہوئے ڈینگی کی روک تھام اور کنٹرول پروگرام کے ‘پروگرام مینجر’ ڈاکٹر مسعود سولنگی کا کہنا تھا کہ المصطفیٰ ویلفیئر سوسائٹی ہسپتال کے میڈیکل سپریٹنڈنٹ نے انھیں اطلاع دی کہ ان کے ہسپتال میں مبینہ طور پر ‘چکن گونیا’ کے مرض سے متاثرہ متعدد مریض لائے گئے ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ‘میں نے مذکورہ ڈاکٹر سے ان کے ہسپتال میں چکن گونیا کے ٹیسٹ کی سہولت موجود ہونے کے حوالے سے پوچھا ہے’، یہ سہولت مذکورہ ہسپتال میں موجود نہیں ہے۔

تاہم ان کا کہنا تھا کہ تیز بخار اور جوڑوں کے درد کی علامات کی وجہ سے شاید ہسپتال کے ڈاکٹر اس مرض کو چکن گونیا قرار دے رہے ہیں۔

انھوں نے کہا کہ ‘تاہم، ہم اس کی تحقیقات کریں گے اور اسلام آباد سے بھی ماہرین کی ٹیم کو طلب کیا گیا ہے، مذکورہ مرض کی علامات بھی ڈینگی کی طرح ہیں، جس میں تیز بخار، بدن میں درد اور خارش شامل ہے اور یہ غلط طور پر تشخیص بھی ہوسکتا ہےجبکہ یہ مرض شاذ و نادر ہی مہلک ہے’۔

ان کے مطابق شہر میں فوری طور پر ویکٹر کنٹرول کی ضرورت ہے، خاص طور پر فیومیگیشن اور فضلے کو ٹھکانے لگانے کے اقدامات کرنے ہوگے تاکہ ملیریا، ٹائیفائڈ اور ڈینگی جیسی بیماریوں سے بچا جاسکے۔

انھوں نے مزید کہا کہ ایک دہائی قبل ڈینگی کا مرض موسم سرما میں رپورٹ نہیں ہوتا تھا تاہم اب ایسا ہورہا ہے اور اس سے یہ بات واضح ہوتی ہے کہ مذکورہ مرض خود کو کامیابی سے شہر کے موسمی حالات کے ساتھ ڈھال رہا ہے۔

انھوں نے بتایا کہ یہ تھیوری کہ ڈینگی ویکٹر (مادہ مچھر) صرف صاف پانی میں نسل کی افزائش کرتی ہے اب غلط ثابت گئی ہے کیونکہ اب گندے پانی میں بھی مذکورہ مچھر کے لاروا کی پرورش اور موجودگی دیکھی گئی ہے۔

انھوں نے دعویٰ کیا کہ رواں سال شہر میں ایک بھی فیومیگیشن مہم انجام نہیں پائی۔

ادھر المصطفیٰ ہسپتال کے اسٹاف نے ڈان کو بتایا کہ ایک ماہ کے دوران تیز بخار اور بدن میں درد کے سیکڑوں مریض ہسپتال میں علاج کیلئے لائے گئے ہیں۔

نام ظاہر نہ کرنے پر ڈاکٹر نے بتایا کہ ‘ہم اصل میں نہیں جانتے کہ یہ مرض کیا ہے کیونکہ ہم ہر کیس کیلئے لیبارٹری ٹیسٹ کرانے کا خرچ برداشت نہیں کرسکتے جبکہ بیشتر مریضوں کو درد اور بخار کی معمول کے مطابق ادویات دی جارہی ہیں’۔

انھوں نے بتایا کہ جب تشخیص کی گئی تو متعدد مریضوں میں ڈینگی، ٹائیفائڈ اور ملیریا کی علامات پائی گئیں۔

محکمہ صحت کے ذرائع کا کہنا تھا کہ اس وقت چکن گونیا نامی بیماری کے ٹیسٹ کرنے کی سہولت صرف آغا خان یونیورسٹی ہسپتال کے پاس موجود ہیں۔

دوسری جانب ڈان نیوز کے نمائندے کے مطابق ملیر کھوکھراپار میں عوام کی بڑی تعداد وائرل فیور کے ساتھ ساتھ نچلے دھڑ کے شدید درد میں مبتلا ہونے کے حوالے سے شکایات لے کر ہسپتال کا رخ کررہی ہے۔

[pullquote]چکن گونیا کیا ہے؟[/pullquote]

ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (ڈبلیو ایچ او) کی ویب سائٹ کے مطابق چکن گونیا ایک وبائی مرض ہے اور مچھر کے کاٹنے کے باعث انسانوں میں منتقل ہوتا ہے۔

اس بیماری میں تیز بخار اور جوڑوں میں درد کی شکایات سامنے آتی ہیں۔

اس کے علاوہ دیگر علامات میں پٹھوں میں درد، سر درد، متلی، تھکاوٹ اور خارش بھی شامل ہیں۔

انھوں نے بتایا کہ ملیر کھوکھراپار نمبر 2 میں قائم ہسپتال المصطفی ویلفیئر سوسائٹی میں 600 مریض لائے لگے ہیں، اس کے علاوہ سندھ گورنمنٹ ہسپتال کھوکھراپار میں بھی مذکورہ بیماری سے متاثرہ مریضوں کو لایا گیا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ وبائی مرض مچھر سے پھیل رہا ہے اور کچرے کے ڈھیر بھی اس وائرس کے پھیلنے کا سبب ہیں۔

ماہرین کے مطابق مذکورہ مرض میں مریض 6 سے 10 روز تک تیز بخار میں مبتلہ رہتا ہے، جبکہ یہ مخصوص مچھر کے کاٹنے، گندگی اور غلاظت کے ڈھیر کی وجہ سے ہوتا ہے۔

ڈاکٹروں کا کہنا ہے کہ یہ وائرس مبینہ طور پر ‘چکن گونیا’ ہے جو جسم سے سوڈیم اور پوٹاشیم کو کم کردیتا ہے جس کی وجہ سے مریض کچھ دنوں کے لیے چلنے پھرنے سے معذور ہوجاتا ہے۔

ضلعی انتظامیہ نے دیگر اضلاع سے اضافی ڈاکٹروں کو ملیر طلب کرلیا ہے۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ سیکریٹری صحت سندھ عثمان چاچڑ نے عوام کو احتیاطی تدابیر اختیار کرنے کی تجویز دیتے ہوئے کہا کہ شہری مچھروں سے بچاؤ کے لیے مچھر دانی استعمال کریں۔

جبکہ شہر کے ڈپٹی مئیر ارشد وہرہ نے بیماری کا سبب کچرے کے ڈھیر کو قرار دیتے ہوئے دعویٰ کیا کہ بلدیہ عظمیٰ کراچی محدود وسائل میں ملیر سے کچرے کی صفائی کا کام کر رہی ہے۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے