یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں نیویارک میں رپورٹنگ کیا کرتا تھا ۔نیویارک کے میڈیسن ایونیو پر ہر سال اگست میں پاکستان ڈے پریڈ ہوتی ہے جس کے کرتا دھرتا ہمارے دوست عنایت شیخ اور منیر لودھی ہیں ۔اس پریڈ میں پہلی بار ایک خاتون کی رونمائی کی گئی جس نے پاکستان کے پرچم سے مشابہہ کپڑے زیب ِ تن کر رکھے تھے اور اس کے بعد جب بھی دیکھا انھیں ایسا ہی پایا ۔
یہ خاتون گرجدار آواز میں تقریر کرتیں ۔بھٹو ازم کا پرچار کرتیں اور آصف زرداری جو تب صدارتی عہدے پر براجمان تھے کونیلسن منڈیلا قرار دیتیں ۔ان کی مفاہمتی پالیسی اور ترقیاتی ویژن کے حق میں ایسے ایسے وصف سامنے لاتیں جو شاید خود آصف زرداری کی نظروں سے بھی اوجھل تھے ۔نیویارک میں تقریباً اسی ہزار پاکستانی ہیں جن کی درجنوں تنظیمیں ہیں ۔مگر ان اسی ہزار میں پچاس ساٹھ لوگ ایسے ہیں جن کے گرد یہ تمام سیاسی اور سماجی تنظیمیں گھومتی ہیں ۔ان میں یہ خاتون تنویر زمانی ایک نیا اضافہ تھیں ۔ یہ بات ہم ان سارے پاکستانی صحافیوں کے لئے اچنبھے کی تھی اور ہم اس کھوج میں رہتے تھے کہ یہ خاتون کون ہیں اور ان کا حدود اربعہ کیا ہے ۔جو باتیں ابتدائی طور پر معلوم ہو سکیں ان کے مطابق یہ خاتون سرجن ڈاکٹر ہیں اور بین الاقوامی تعلقات میں ڈاکٹریٹ کی بھی دعوے دار ہیں۔بعد میں یہ ہر اس تقریب میں نظر آتیں جہاں پیسوں کے عوض ان کو تقریر کا موقع دیاجاتا ۔ ایسی ہی ایک تقریب میں اس وقت بد مزگی ہو گئی جب یہ خاتون نیو یارک سے سینیٹر کرسٹین جلی برانڈ کے فنڈ ریزنگ میں بن بلائے پہنچ گئیں ۔یہ فنڈ ریزنگ ڈیموکریٹ پارٹی کے پاکستانی رہنما اور ہمارے دوست علی مرزا کی جانب سے ہو رہا تھا ۔یہ علی مرزا وہی ہیں جن کی ایک بار جہاز میں شرمیلا فاروقی سے لڑائی ہو گئی تھی ، میڈیا میں اس لڑائی کا بہت چرچا ہوا تھا ۔
امریکہ کی سیاست سے شد بد رکھنے والے جانتے ہیں کہ امریکہ میں سیاستدان اپنی جیب سے نہیں بلکہ اس فنڈ سے انتخابی مہم چلاتے ہیں جو ان کے حمایتی انھیں عطیہ کرتے ہیں ۔جس سیاستدان کے پاس جتنے زیادہ فنڈ اکھٹے ہوتے ہیں اس کے جیتنے کے ا مکانات زیادہ تصور کئے جاتے ہیں ۔ اس فنڈ ریزنگ میں طے ہوا تھا کہ جو پاکستانی کرسٹین جلی برانڈ کے ساتھ تصویر بنوائے گا وہ ان کے فنڈ میں دو ہزار ڈالر عطیہ کرے گا ۔جب محترمہ تصویر بنوا کر اتریں تو منتظمین نے ان سے پیسوں کا تقاضا کیا جس پر محترمہ انکاری ہو گئیں ۔حالانکہ انھیں اس پروٹوکول کا بخوبی علم تھا جس کے بعد وہ وہاں سے چلتی بنیں۔ہماری ان سے شناسی یہاں سے ہی شروع ہوئی ۔اور بعض دفعہ تو ان کی کال گھنٹوں پرمحیط ہو جاتی ۔میں انھیں سمجھنے کی کوشش کرتا مگر میرے ہاتھ کچھ سجھائی نہ دیتا ۔
میں سوچتا کہ اگر وہ دماغی سرجن ہیں تو امریکہ میں سرجن اتنا مصروف ہوتا ہے کہ اس کے پاس اپنے گھر والوں کے لئے وقت نہیں بچتا اور یہ خاتون تو ہر اس جگہ پہنچ جاتی ہیں جہاں چار آدمیوں کا اکٹھ ہوتا ہے ۔ اور اگر یہ واقعی سرجن ہیں تو پھر انھوں نے بین الاقوامی تعلقات میں پی ایچ ڈی کیوں کر رکھی ہے حالانکہ امریکہ میں ڈکٹروں کے خود اتنے ایڈوانس کورسز ہوتے ہیں کہ انھیں تو ان کی تکمیل کا بھی وقت نہیں ملتا جو ان کے پیشے کے اعتبار سے ناگزیر ہوتے ہیں ۔
میں اسی کشمکش میں تھا کہ اسی دوران آصف زردار ی بحیثیت صدر پاکستان امریکہ کے دورے پر تشریف لا ئے ۔جس پر تنویر زمانی نے مقامی کمیونٹی اخبارات میں خیر مقدمی اشتہارات چھپوائے جن کے ایک طرف بینظیر بھٹو اور دوسری جانب آصف زرداری اور تنویر زمانی کی تصویریں آویزاں تھیں ۔جتنے دن زرداری صاحب واشنگٹن میں مقیم رہے یہ خاتون وہیں رہیں ۔
اس دوران ایک بڑا دلچسپ واقعہ سننے کو ملا جس کے راوی اس وقت کے واشنگٹن میں سفیرِ پاکستان حسین حقانی تھے ۔انھوں نے بتایا کہ یہ خاتون عموماً زرداری صاحب کے ہوٹل کی لابی میں منڈلاتی رہتیں تاکہ وہ کسی طرح زرداری صاحب تک دسترس حاصل کر سکیں ۔
ایک روز تنگ آکر صدر کے ترجمان فرحت اﷲ بابر نے انھیں بلایا اور کہا کہ مجھے آپ کسی شریف گھرانے کی معلوم ہوتی ہیں یہ آپ کس چکر میں پڑ گئی ہیں ؟بہتر ہو گا کہ آپ یہاں سے چلی جائیں ۔
اس کے بعد کیا ہوا یہ تو معلوم نہیں مگر سوشل میڈیا پر وہ اکاؤنٹس جو فرضی تھے اور تنویر زمانی کی مشہوری کے لئے استعمال کئے جاتے تھے کے ذریعے معلوم ہوا کہ تنویر زمانی دوبئی چلی گئی ہیں اور یہ خبر دیتے وقت اس بات کا امکان ظاہر کیا گیا تھا کہ وہ صدر کے طیارے میں ان کے ساتھ گئی ہیں ۔اس خبر کے چند دن بعد انہی اکاؤنٹس سے یہ خبر بھی چلائی گئی کہ دونوں رشتہ ازدواج میں منسلک ہو گئے ہیں ۔خبر جاری کرنے والے نے جذیات کا اتنا خیال رکھا تھا کہ حقیقت کا گمان ہوتا تھا ۔
سوشل میڈیا کے یہی حوالے بعد میں اتنے بڑھ گئے کہ ایک خلیجی اخبار نے زرداری اور زمانی کی شادی کی خبر شائع بھی کر دی لیکن بعد میں حکومت پاکستان کی وضاحت کے بعد انھوں نے تردید کر دی ۔اس وقت پاکستان کے ایک بڑے اشاعتی ادارے اور زرداری کیمپ کے درمیان سرد جنگ عروج پر تھی۔ انھوں نے بھی موقع غنیمت جانا اور یہ خبر شائع کر دی۔ باوجود اس کے نیو یارک میں اس اخبار کے نمائندے اور ہمارے دوست عظیم ایم میاں اس خبرکی سچائی سے متفق نہیں تھے ۔وجہ اس کی بڑی سادہ تھی کیونکہ امریکہ میں آصف زرداری کی کئی ملین ڈالر کی جائیدادیں تھیں اور اگر وہ ایک ایسی خاتون سے شادی کر لیتے ہیں جو کہ امریکی شہری ہے تو علیحدگی کی صورت میں انھیں اس جائیداد میں سے آدھا حصہ اپنی بیوی کو دینا پڑتا ۔زرداری جو کہ ایک زیرک آدمی ہیں ان سے ایسی غلطی کا امکان ظاہر نہیں کیا جا سکتا تھا ۔ان خبروں میں اس وقت ایک نیا رنگ دینے کی کوشش کی گئی جب اخباروں میں یہ اطلاعات آئیں کہ زرداری اور بلاول کے درمیان اختلاف کی وجہ ان کی تنویر زمانی سے شادی ہے اور جس سے ان کا ایک بیٹا سجاول بھی ہے ۔
آج کل تنویر زمانی پاکستان آئی ہوئی ہیں وہ ایسے وقت پاکستان آئی ہیں جب زرداری اور فوج کے درمیان کافی گرما گرمی ہے ۔اس ماحول میں وہ آصف زرادری کے لئے مزید مشکلات کا باعث بن رہی ہیں۔وہ اپنے انٹرویوز اور خطابات میں یہ تاثر دینے کی کو شش کر رہی ہیں کہ ان کا اور آصف زرادری کاکوئی رشتہ ہے ۔اگرچہ پیپلز پارٹی نے واضح طور پر اس کی تردید بھی کر دی ہے مگر میڈیا کی مجبوری ہے کہ وہ کوئی رنگ آمیزی کرتا رہے اور اس میں تنویر زمانی کی بھی تشفی ہو رہی ہے اور ان لوگوں کی بھی جو تنویر زمانی کے پیچھے ہیں ۔
تنویر زمانی کے قصے کو سمجھنے کے لئے میں آپ کو ایک بار پھر نیویارک لئے چلتا ہو ں اور ایک اور بھارتی نژاد خاتون ڈاکٹر سے ملواتا ہوں جن کا نام ڈاکٹر انوریتا کمار ہے ۔ یہ بھی تنویر زمانی سے ملتا جلتا کردار ہیں ۔ یہ بھی ہر پاکستانی اور بھارتی تقریب میں موجود ہوتی تھیں۔ حتیٰ کہ میں اس وقت حیران رہ گیا جب نیو جرسی میں ایک تقریب کے منتظمین نے انھیں سابق صدر مشرف کے ساتھ فوٹو سیشن میں بھی کھڑا کر دیا ۔پھر ایک روز ڈاکٹر انوریتا کے سوشل پیج پر خبر آئی کہ بھارتی قونصل خانے کے دفاعی اتاشی جو بھارتی فوج میں کرنل ہیں نے انھیں جنسی زیادتی کا نشانہ بنایا ہے ۔وہ یہ خبر لے کر نیو یارک پولیس کے پاس بھی گئیں مگر شنوائی نہ ہوئی حالانکہ اس سے قبل آئی ایم ایف کے ایم ڈی ڈومنیک سٹراس کان جو کہ فرانس کے متوقع صدارتی امیدوار بھی تھے انھیں ایک معمولی ہوٹل ورکر نے اس وقت گرفتار کروا دیا تھا جب انھوں نے مبینہ طور اس کے ساتھ چھیڑ چھاڑ کرنے کی کوشش کی تھی ۔
ڈاکٹر انو ریتا کے ہینڈلر بھی ان سے کوئی ایسا ہی کام لینا چاہتے تھے مگر نیو یارک پولیس کو شک ہو گیا کہ معاملہ کچھ اور ہے ۔ یہاں بھی معاملہ کچھ اور ہے ۔آصف زرداری فوج کے خلاف بیان بازی کر کے دوبئی جا چکے ہیں ۔ان کے خلاف بہت کچھ ہو نے والا ہے۔ تنویر زمانی بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہیں ۔دیکھتے ہیں یہ کڑیاں کدھر جا کر ملتی ہیں ۔