ڈان لیکس کا معاملہ ایک بار پھر بین الاقوامی سطح پر پاکستان کے لئے بطور ریاست شرمندگی کا باعث بناہے ۔ڈان لیکس کے لئے قائم کی گئی تحقیقاتی کمیٹی کی رپورٹ پر وزیراعظم میا ں نواز شریف کی جانب سے جاری کئے گئے آرڈر کے فوری بعد ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ اس شرمندگی کی وجہ ہے ۔ان کی ٹویٹ سے وہ متکبرانہ لہجہ جھلکتا ہے جو جمہوریت کے لئے نقصان دہ سمجھا جا تاہے ۔وزیراعظم ہاوس سے حکم جاری ہونے کے فوری بعد ڈی جی آئی ایس پی آرلیفٹنٹ جنرل آصف غفورنے ٹویٹ کیا جس میں کہا گیا کہ ڈان لیکس پر نوٹیفیکشن نامکمل اور کمیٹی کی سفارشات کے مطابق نہیں،نوٹیفیکشن کو مسترد کیا جاتا ہے ۔
نہ صرف ریٹنگ کے بھوکے ملکی نیوز چینلز نے اس ٹویٹ کو موضو ع بحث بنایا بلکہ بین الاقوامی سطح پر بھی اس پر تبصرے کئے گئے ۔ خصوصا بھارتی نیوز چینلز نے اپنے روایتی انداز میں اس ٹویٹ پر تبصرے کئے اور پاکستان کے سول حکمرانوں اور فوجی قیادت کے درمیان اختلافات کی خبریں تواتر سے نشر کیں۔
اسی طرح اپوذیشن جماعتوں کے جانب سے بھی وزیراعظم کے حکم اور ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ پر اپنی سیاست چمکائی گئی ۔ ایک سیاسی جماعت کے سربراہ نے تو یہاں تک کہا کہ ملک کے دوبڑے اداروں نے میاں نواز شریف کو نااہل قراردیا ہے۔اس بدترین صورتحال میں اگر کسی نے بہترین تبصرہ کیا تو وہ وزیرداخلہ چودھری نثار تھے۔کراچی میں پریس کانفرنس کے دوران ڈی جی آئی ایس پی آر کی ٹویٹ کے حوالے سے پوچھے گئے ایک سوال کے جواب میں چودھری نثارعلی خان نے کہا کہ اس طرح کی ٹویٹس جمہوریت کے لئے زہر قاتل ہیں اور اس سے اجتناب کرنا ہی بہتر ہوگا۔
سوچنے کی بات یہ ہے کہ ڈی جی آئی ایس پی آر لیفٹیننٹ جنرل آصف غفور صاحب نے اتنے حساس معاملے کو سوشل میڈیا کی زینت کیوں بنایا اور وہ بھی اتنے متکبرانہ لہجے میں جس سے دنیا بھر میں پاکستان کی جگ ہنسائی ہوئی۔اگر فوج کو وزیراعظم کی جاری کر دہ ہدایات پر تحفظات تھے تو اس کے لئے مناسب ترین فورم سیکرٹری دفاع تھے جن کے ذریعے فوج اپنے تحفظات سے وفاقی حکومت کو آگاہ کر سکتی تھی ۔
ڈان لیکس کا معاملہ شروع کیسے ہوا،یہ 6اکتوبر 2016کی صبح تھی جب روزنامہ ڈان میں حکمرانوں اور فوجی قیادت کے درمیان پنجاب میں عسکریت پسندوں کے خلاف کارروائیوں کے معاملے پر تلخی کی خبرلیڈ کی صورت میں شائع ہوئی ۔رپورٹر سرل المائڈا نے خبر میں انکشاف کیا کہ وزیراعظم میاں نواز شریف کی صدارت میں ایک اعلی سطحی اجلاس کے دوران وزیراعلی پنجاب شہباز شریف اور اس کے وقت کے ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل رضوان اختر کے درمیان تلخ کلامی ہوئی ۔اجلاس میں وزیراعظم اور سابق آرمی چیف جنرل راحیل شریف کے علاوہ وزیر دفاع خواجہ آصف،سابق وزیراطلاعات ونشریات پرویز رشید،معاون خصوصی طارق فاطمی ،پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد ،ڈی جی آئی ایس آئی اورڈی جی آئی ایس پی آرسمیت دیگر اعلی سول و عسکری حکام شریک تھے ۔خبر لیک ہونے کے بعد فوج کی جانب سے اس کی تحقیقات کا مطالبہ کیا گیا اور اس خبر کو ملک کی سلامتی کے لئے خطرناک گردانا گیا۔
وزیراعظم نے ڈان لیکس کی تحقیقات کے لئے جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان کی سربراہی میں ایک کمیٹی قائم کی جس میں سیکریٹری اسٹیبلشمنٹ طاہر شہباز،محتسب اعلی پنجاب نجم سعید ،ڈائریکٹر ایف آئی اے عثمان انور اور ایم آئی، آئی ایس آئی اور آئی بی کا ایک ایک نمائندہ بھی شامل تھا تاہم سیاسی اور فوجی قیادت کے درمیان اختلاف کی خبر شائع ہونے پر اُس وقت کے وزیراطلاعات و نشریات پرویز رشید کو اپنے عہدے سے ہاتھ دھونے پڑے ۔وزارت داخلہ نے افراتفری میں صحافی سرل المائڈا کا نام ایگزٹ کنٹرول لسٹ میں ڈالا جو بعد میں تنقید کی وجہ سے ہٹالیا گیا۔
جسٹس ریٹائرڈ عامر رضا خان نے سیکرٹری اسٹیبلشمنٹ کی سربراہی میں ذیلی کمیٹی قائم کی جس کے 16اجلاس ہوئے جس کے بعد کمیٹی نے اپنی رپورٹ گزشتہ ہفتے میں وزارت داخلہ کو پیش کی۔ وزارت داخلہ نے وہ رپورٹ وزیراعظم ہاوس کو بھجوائی جس کے بعد گزشتہ روز پرنسپل سیکرٹری فواد حسن فواد کے دستخط کے ساتھ وزیراعظم میاں نوازشریف کا حکم جاری کیا گیا ۔حکم یا نوٹیفیکشن میں کہا گیا ہے کہ وزیراعظم نے کمیٹی کی سفارشات پر غور کے بعد مندرجہ زیل ہدایات جاری کی ہیں۔
1:کہ اس معاملے میں روزنامہ ڈان کے ایڈیٹر ظفر عباس اور رپورٹر سرل المائڈا کے کردار کے حوالے سے آل پاکستان نیوز پیپرز سوسائٹی انضباطی کارروائی کرے ۔
2:اے پی این ایس اپنے لئے ایک ایسا ضابطہ اخلاق تیار کرے جو ملکی سیکیورٹی اور حساس معاملات کی خبر دیتے وقت اس بات کو یقینی بنائے کہ خبر کہیں ملکی سلامتی کے خلاف تو نہیں تاکہ آئندہ اس قسم کی صورتحال سے بچا جا سکے ۔
3:کہ وزارت ا طلاعات و نشریات کے پرنسپل انفارمیشن آفیسر راو تحسین کے خلاف کمیٹی کی سفارشات کے مطابق محکمانہ کارروائی عمل میں لائی جائے ۔
4:وزیراعظم کے معاون خصوصی برائے خارجہ امور طارق فاطمی سے ان کا عہدہ واپس لے لیا گیا ہے اور اس حوالے سے ضروری نوٹیفیکشن جاری کیا جائے ۔سب سے آخر میں کہا گیا ہے کہ دیگر متعلقہ وزارتیں اور ڈویژن مزید ضروری کارروائی عمل میں لائے ۔
وہ جو انگریزی میں کہتے ہیں نہ کہ ایسپیکٹیشنز ہرٹس،جس کا سیدھا سادہ ترجمہ یہ بنتا ہے کہ زیادہ توقعات بسا اوقات انسان کو تکلیف پہنچاتی ہیں او ر فوجی ترجمان کی جانب سے عجلت میں دیا گیا ٹویٹ اس بات کا ثبوت ہے کہ شاید فوج طارق فاطمی اور راو تحسین کو نہیں بلکہ کسی اور بڑے کو ہٹائے جانے کی توقع کر رہی تھی ۔