وطن عزیز پاکستان میں اپنا وجود رکھنے والے مسالک کے وابستگان و متعلقین کے مابین فکری و نظریاتی طو رپر تشتت و افتراق اور باہمی تصادم و ٹکراؤ کی صورت میں جو خلیج حائل ہے اس کی بناپر یہ تاثر زبان زدعام ہے کہ مختلف مسالک کے لوگوں کا ایک پلیٹ فارم پر جمع ہونا گویا کہ جوئے شیر لانے کے مترادف ہے۔ ماضی و حال کے حالات و واقعات کو مدنظر رکھتے ہوئے مذکورہ تاثر کچھ غلط بھی نہیں کہ ہماری مسلکی تاریخ اپنے دامن میں ایسے ایسے ہولناک مناظر سمیٹے ہوئے ہے کہ جنہیں یاد کر کے اور دہر اکر روح تک لرزا اٹھتی ہے۔ لیکن یہ بات بھی ایک حقیقت ہے کہ دنیاایسے نفوسہائے قدسی کے وجود سے یکسر خالی نہیں ہوئی جو اپنی آنکھوں میں اصلاح احوال کے دیپ جلائے میدان افروز ہوتے ہیں تو کامیابی اور سرخروئی بانہیں پھیلائے ان کے استقبال کے لئے دیدہ و دل فرش راہ کرنے میں دیر نہیں لگاتی۔ ایسی ہی ایک سرخروئی اور کامیابی کا چشم کشا مظاہرہ ہم نے اپنے ان گنہگار آنکھوں سے گزشتہ ماہ کے آخر میں جگر ہوٹل جھنگ کی بالائی منزل پر دیکھا جہاں ادارہ امن و تعلیم اسلام آباد کے کوآرڈینیٹرجناب ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب نے بین المسالک امن کانفرنس کے نام سے ایک پروقار اور باعث افتخار تقریب منعقد کی۔ یہ تقریب کئی اعتبار سے ممتاز و منفرد تھی۔ مثلاً اس تقریب میں جہاں سیاسی و سماجی قائدین قدم رنجا تھے وہاں چاروں مسالک کے علماء و زعما نے اپنے قدوم میمنت لزوم سے اس تقریب کی رونقوں کو چار چاند لگا رکھے تھے۔ یعنی عام طور پرجو یہ خیال کیا جاتاہے کہ سیاسی و سماجی مندوبین اور اہل مذہب کا مل بیٹھنا بالکل عنقا ہے اور پھر مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے زعماء کا ایک ٹیبل پر جلوہ افروز ہونا جوئے شیر لانے کے مترادف ہے یہاں اس تصور و تاثر کے تار و پود بکھر کر رہ گئے اور محترم ڈاکٹر عبدالحفیظ نے دیکھتی آنکھوں کو عملی طور پر وہ جوئے شیر بہا کر دکھا دی۔
تقریب کا آغاز تلاوت کلام پاک سے ہوا۔ محترم جناب قاری بہرام صاحب نے اپنی آواز کی خوش الحانی سے ماحول میں خوشی کی روح پھونک دی۔ جبکہ نعت رسول مقبول صلی اﷲعلیہ وسلم کی سعادت معروف نعت خواں جناب رمضان ساقی صاحب کے حصہ میں آئی۔ ازاں بعد تقاریر کا سلسلہ شروع ہوا۔ ابتدائی خطاب جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب ہی کا تھا۔ اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری ہمارے علاقے کی معروف سماجی شخصیت اور پیر جوہر موج دریا آرگنائزیشن کے صدر اور روح رواں جناب حافظ نزاکت اﷲ شاہ کے ذمہ تھی۔ انہوں نے محترم ڈاکٹر صاحب کو دعوت خطاب دی۔ اتفاق و اتحاد باہمی کی افادیت اور تزاحم و تصادم کی مضرت پر روشنی ڈالی ، ڈاکٹر صاحب کا خطاب انتہائی جامع اور مدلل تھا۔ پھر باری باری جن مقررین نے “نقیب محفل” کی بات کو آگے بڑھایا ان میں قاری ابوسفیان، محمد حسین بلوچ، محمد ناصر اور ڈاکٹر یوسف یعقوب (قرآن اکیڈمی)، جناب حافظ نزاکت اﷲ شاہ ، سابق ناظم جناب شعیب شاہ، محترم مختار عباس صاحب، مولانا برکت اﷲ صاحب سوشل ویلفیئر جھنگ کے ڈسٹرکٹ آفیسر جناب فضل عباس صاحب اور آغا نجم الحسن صاحب کے نام شامل ہیں۔ جناب نجم الحسن کا خطاب ’’احسن الکلام ما قل و دل‘‘ کا آئینہ دار تھا۔ اور یہاں اگرچہ کہا جائے توکچھ غلط نہ ہو گا کہ وہ خطاب کے لئے کھڑے ہوئے تو تنہا وہ تھے اور تنہا ان کا دل لیکن جب گفتگو سمیٹ کر اسٹیج سے الگ ہوئے تو ان کے ساتھ تھے سبھی اہل محفل اور سبھی اہل دل!
مقررین کی تقاریر اس ’’دہائی‘‘ پر مشتمل تھیں اے افراد امت اور ملک پاکستان کے باسیو! آپس میں لڑ جھگڑ کر اور باہم دست گریباں ہو کر بہت دیکھ لیا بتاؤ قتل و استہلاک اور کشتم پچھاڑ سے کیا برآمد ہوا؟ سوائے ایک دوسرے کی گردنیں ناپنے اور بے پناہ نقصان اٹھانے کے اور کیا ہاتھ آیا؟ اسلام تو امن اور اخوت و بھائی چارہ کا درس دیتا ہے۔ بالآخر ہم اسلامی تعلیما ت سے روگرداں کیوں ہیں اور ایک دوسرے کو برداشت کرنے اور ایک دوسرے کے احترام کا وہ سبق وہ درس اور وہ جذبہ جو کہ ہمیں نبی کریم صلی اﷲ علیہ وسلم، صحابہ و اہل بیت عظام سے متوارث ملا ہے اسے ہم اپنے لئے متاع گراں بہا اور بیش قیمت سرمایہ کیوں خیال نہیں کرتے؟
میرے نزدیک اس کانفرنس کا سب سے اہم اور نمایاں پہلو یہ تھا کہ وہ دو مکاتب فکر (س۔ ش) ماضی میں جن کے درمیان رسہ کشی عروج پر رہی ان مکاتب فکر کے نمائندے بڑے دل گیر لہجے میں یہ صدا بلند کر رہے تھے کہ ماضی میں جو کچھ ہوا وہ ہر اعتبار سے ایک غلط اقدام تھا جس کی جتنی بھی مذمت کی جائے وہ کم ہے۔ آئندہ ہمیں احتیاط سے کام لیتے ہوئے وہ راستہ اختیار کرنا چاہیے جو نہ صرف امن و استحکام کی نوید ہو بلکہ اسلامی رواداری کی صدائے بازگشت جس راستے پر گامزن اور رواں دواں رہنے کا تقاضا کرتی ہے وہ راستہ ہی ہمارا انتخاب ہو ۔ تقریب کے آخر میں تمام شرکاء نے اپنے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پروگرام کی افادیت اور ادارہ امن و تعلیم کی کوششوں کو سراہا۔ ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب نے جس تپاک سے آنے والے مہمانوں (جن میں سرور کالونی شوگر مل سے راقم اور قاری امجد ماجد بھی شامل تھے) کا استقبال کیا تھااسی تپاک سے انہوں نے مدعوین کو الوداع کہا اور یوں یہ تقریب اختتام کو پہنچ گئی۔
ڈاکٹر صاحب نے جیسے ابتدا میں ادارہ امن و تعلیم کا تعارف کرایا تھا ویسے ہی الوداعی الفاظ بھی تعارف ادارہ پر ہی مشتمل تھے۔ ان کا کہنا تھا ادارہ امن و تعلیم 2009 میں رجسٹرڈ ہوا۔ یہ ادارہ اپنے روز قیام سے لے کر تادم تحریر ملک کے طول و عرض میں امن بین المسالک کے عنوان سے سینکڑوں پروگرامز عمل میں لا چکاہے جن کا نتیجہ انتہائی حوصلہ افزائی کی صورت برآمد ہوا۔ علاوہ ازیں ادارہ کےتربیتی پروگرامات میں شامل ہونے والے مذہبی قائدین اپنے علاقوں میں واپس جاکر مختلف مکاتب فکر کے دینی اداروں کا مطالعاتی دورہ کرتے ہیں۔ ادارہ کی جانب سے کی جانے والی ان کاوشوں کی بدولت بین المسالک ہم آہنگی کے ساتھ ساتھ بین المذاہب ہم آہنگی کے فروغ کے لئے بھی پوری تندہی سے کام کیاجا رہا ہے۔
اتفاق و اتحاد باہمی کی اہمیت و افادیت کو واضح و اجاگر کرنے کی غرض سے مختلف مسالک سے تعلق رکھنے والے علماء و زعماء اور مندوبین پر مشتمل مجلس و نشست کا پہلا انعقاد ادارہ امن و تعلیم اسلام آباد کے کوآردینیٹر جناب ڈاکٹر عبدالحفیظ کی شبانہ روز و انتھک کوششوں کی بدولت قریباً ایک ماہ قبل جگر ہوٹل جھنگ کی بالائی منزل پر ہوا تھا قریباً دو گھنٹوں تک جاری رہنے والی اس پروقار تقریب کا اختتام ہوا تو حاضرین و سامعین نے تقریب کے فوائد و ثمرات کو تہہ دل سے تسلیم کرتے ہوئے ڈاکٹر صاحب سے پورے اصرار کے ساتھ یہ التماس کی کہ ادارہ امن و تعلیم کو بہت جلد جھنگ میں اس طرح کی ایک اور تقریب کا اہتمام کرنا چاہیے ڈاکٹر صاحب جو کہ ہر دلعزیز شخصیت کے مالک ہیں اور دلوں کو ’’فتح‘‘ کرنے کا گر جانتے ہیں نے شرکاء محفل کے اصرار کو بھانپتے ہوئے بہت جلد ایسا کرنے کا وعدہ کر لیا ڈاکٹر صاحب چونکہ سچے جذبوں کے آبیار ہیں اور سچے جذبات کی تسکین پر تہہ دل سے یقین رکھنے والے ظاہر و باطن کے کھرے انسان ہیں اس لیے حاضرین و سامعین کو ان کی جانب سے ایفائے عہد کا کامل یقین تھا لیکن اتنی جلد آمد و ورود کے ’’ناقوس‘‘ کے بجنے کا تو کسی کو خیال تک نہ تھا کہ ڈاکٹر صاحب کے ٹیلیفونک رابطوں نے جھنگ میں ادارہ امن و تعلیم کے دوسرے ورود کے منتظرین کے کانوں میں یہ “روح پرور” خبر انڈیل دی کہ 21مئی کو صبح 10بجے ادارہ امن و تعلیم کی جانب سے ایک تربیتی ورکشاپ منعقد کی جا رہی ہے
ظاہر ہے کہ سبھی منتظرین کو شامل نشست ہونے کیلئے لمحہ مطلوب کا شدت سے انتظارتھا لہذا وقت مقررہ کے قریب آتے ہی سبھی منتظر پروانے جگر ہوٹل کے مقام پرفیروزاں شمع کی جانب لپکنے لگے۔ سرور کالونی شوگر مل سے راقم اور میرے ہمدم دیرینہ ماسٹر محمد اسماعیل صاحب جو کہ ایل ایل بی ہیں منزل مقصود پر پہنچے۔ سابقہ روایت کو برقرار رکھتے ہوئے سیاسی و مذہبی قائدین اور پرنٹ و الیکٹرانک میڈیا کے نمائندے شریک محفل ہو چکے تھے لہذا جوں ہی معزز مہمانان گرامی جناب حافظ غلام مرتضیٰ اور ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب ’’وارد محفل‘‘ ہوئے حاصرین نے کھڑے ہو کر آنے والے مہمانوں کا پرتپاک استقبال کیا۔ تلاوت کلام پاک اور نعت رسول مقبول ﷺ کے بعد تربیتی ورکشاپ کی کاروائی کا باقاعدہ آغاز ہوا۔ اب کی بار اسٹیج سیکرٹری کی ذمہ داری خود ڈاکٹر صاحب نے سنبھالی اور ابتدائی و استقبالی کلمات کے لئے جوہر موج دریا آرگنائزیشن کے صدر حافظ نزاکت اﷲ شاہ کو دعوت سخن دی۔ حافظ صاحب نے بالکل مختصر پیرائے میں مہمانان گرامی اور حاضرین محفل کا شامل تقریب ہونے پر شکریہ ادا کیا۔
تقریب کا پہلا سیشن شرکاء کے تعارف پر مشتمل تھا جبکہ دوسرا سیشن حافظ غلام مرتضیٰ کے خطاب کے لیے مختص تھا۔ حافظ صاحب نے آج کی نشست کے لئے جس موضوع کا انتخاب کیا وہ موضوع تھا ’’اختلاف کے دائرے میں رہتے ہوئے اتحاد و اتفاق کے مراسم کیسے نباہے جا سکتے ہیں؟ مختلف زاویوں اور مختلف پہلوؤں کو زیربحث لاتے ہوئے انہوں نے سامعین و حاضرین پر یہ واضح کیا کہ دنیا میں جو چیز بھی تخلیق کے قالب میں ڈھلی اس کی اپنی ایک ساخت ہے۔ کوئی چیز بھی ذات و وجودکے اعتبار سے کسی دوسری چیز کے مشابہ و مماثل نہیں۔ دامن سنگ و کوہ میں دو ایسے پتھر نہیں جو کہ بالکل ’’ہم شکل‘‘ ہوں او ر تو اور ا یک ہی بکری کے بطن سے متولد ہونے والے دو بچے ایسے نہیں جو کہ شکل و صورت کے اعتبار سے بالکل ایک دوسرے کا عکس ہوں اگر یہ حقیقت ہے اور یقیناًہے بھی حقیقت تو اس کا سیدھا اور صاف مطلب یہ ہے کہ دنیا میں اختلاف ایک فطری حقیقت کی صورت میں اپنا وجود رکھتا ہے۔ چنانچہ عقلوں، سوچوں اور خیالات کا مختلف ہونا کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ بات صرف اتنی ہے کہ ایک دوسرے سے اختلاف رکھتے ہوئے باہم شیر و شکر ہونا اصل سلیقہ مندی اور کمال جی داری ہے۔ درد دل رکھنے والے لوگو یہ وقت ہے خواب غفلت سے بیداری کا۔ وقت کی آواز کوسمجھو وہ سوچیں وہ رویے وہ بوسیدہ خیالات جو کہ اختلاف کو ضد اور ضد کو مخاصمت میں بدل دیتے ہیں ان سوچوں، ان خیالات اور ان رویوں کو خیرباد کہہ دو یہ وقت ایک دوسرے کے قریب آنے اور آپس میں بغل گیر ہونے کا ہے۔ نفرتیں چھوڑ دو کدورتوں کو جھٹک دو تعصبات کو نیک اور سچے جذبات کی رو میں بہا دو۔ یہی وقت کی آواز ہے اور یہی ہماری اصل متاع۔خوبصورت محفل کی خوبصورت ترین تقریر کا اختتام انہوں نے ایک خوبصورت شعر سے کیا ادھر ان کے شعر کا آخری لفظ وقت کی تہہ میں اترا ادھر سامعین کی زبانیں واہ واہ کے تحسین آمیز کلمات سے داد تحسین دینے لگیں۔ ازاں بعد ڈاکٹر عبدالحفیظ صاحب نے “ابلاغ” کے موضوع پر مختصر مگر نہایت ہی جامع گفتگو کی۔ آخر میں سامعین نے اپنی قیمتی آرا سے نوازا۔ قاری امجد ماجد نے تجویز دی کہ ادارہ امن و تعلیم جو کوششیں اتفاق و امن کے حوالے سے بجا لا رہا ہے خطباء حضرات کو چاہیے کہ وہ ادارہ کی ان کوششوں کا ذکر اپنے خطبات میں کریں۔سپاہ صحابہ کے قاری ابوسفیان نے تجویز دی کہ ایسے پروگرامز کا سلسلہ محلہ و مضافات تک پھیلنا چاہیے تاکہ امن و اتفاق کی آواز دور دور تک پہنچے خزاں کا سورج غروب ہو پھر سے صبح بہار آئے اور دکھی دلوں کو قرار آئے۔