۱۱ جون ۷۱۰۲ کو لیبیا کے شہر زنتان میں قائم ایک جیل سے ایک شخص کو چھ سال بعد رہا کر دیا گیا،یہ شخص جو چھ سال تک پابند سلاسل رہا اسے ۹۱ نومبر ۱۱۰۲ کو ایک ویران سی جگہ پر واقع ایک کھنڈر نما مکان سے گر فتا ر کیا گیا تھا۔یہ شدید زخمی اور بیمار حالت میں پانچ یا چھ ماہ سے اس کھنڈر نما مکان میں پناہ لیئے ہوئے تھا ۔اس مکان کے جس کمرے سے اسے گرفتار کیا گیا تھا وہ کمرہ قبر کا منظر پیش کرتا تھا۔گھٹا ٹوپ اندھیرا اور تازہ ہوا آنے کا کوئی راستہ نہ ہونے کی وجہ سے دم گھٹنے لگتا تھا مگر یہ شخص گزشتہ پانچ یا چھ ماہ سے وہاں پناہ لیئے ہوئے تھا ۔باتھ روم نہ ہونے کی وجہ سے اس شخص کا کھانا،پینا اور پیشاب وغیرہ اسی چار دیواری میں محدود تھا ۔بدبو کا یہ عالم تھا کہ کچھ لمحے وہاں رکنے سے دماغ چکرانے لگتا تھا ۔گرفتار ہونے والے شخص کو دیکھ کر لگتا تھا کہ یہ شخص سالوں تک پانی کے نزدیک سے بھی نہیں گزرا۔اس شخص کو ہاتھ لگانا تو دور اسے دور سے دیکھ کر گھن آتی تھی۔اس کے چہرے پر بے بسی عیاں تھی اور اس بے بسی کی حالت میں گرفتار ہونے والا یہ شخص کوئی عام آدمی نہ تھا بلکہ کچھ عرصہ پہلے تک اس شخص کا شمار دنیا کے بااثر ترین اور امیر ترین لوگوں میں ہوتا تھا۔
یہ وہ شخص تھا جس کے بارے میں کہا جاتا تھا کہ یہ مقدر کا بادشا ہ ہے اور یہ وقت کو اپنے ساتھ لے کر چلتا ہے ۔یہ شخص اپنی آسائش پر کروڑوں ڈالرز سکینڈز میں خرچ کر دیا کرتا تھا۔یہ شخص ایک بار لندن میں تھا تو اسے شمالی لندن کا ایک گھر پسند آگیا اس نے گھر کو خریدنا چاہا لیکن گھر کا مالک بیچنے کو تیار نہ تھا لیکن اس نے ضد میں آکر گھر کی دگنی قیمت ادا کر کے ایک کروڑ برٹش پاؤنڈز میں گھر وہیں کھڑے کھڑے خرید لیا ۔اس نے ۹۰۰۲ میں اپنی سالگرہ منائی تو اس میں دنیا کے امیر ترین لوگوں نے شرکت کی یہ سالگرہ دنیا کی مہنگی ترین سالگرہ تصور کی جاتی ہے۔
اس شخص کو پینٹنگ سے بہت لگاؤ تھا اس نے اربوں ڈالرز کی پینٹنگ کو اپنے محل کی زینت بنایا ہو اتھا۔
۶۰۰۲ میں اسے اسرائیلی اداکارہ ’’اورلے ونئیرمن ‘‘ سے دل لگی ہو گئی تو اس نے اس کے گرد دولت کے انبار لگا دیئے اور ’’اورلے‘‘ اس کی گرل فرینڈ بن گئی ۔یہ دنیا کی مہنگی ترین گرل فرینڈ تھی۔
برطانیہ کے سابق وزیر اعظم ’’ ٹونی بلیئر‘‘ اسے اپنا قریبی دوست مانتے تھے ۔برطانیہ کے شاہی خاندان کا یہ بیسوں مرتبہ مہمان بنتا رہا۔
یہ شخص لندن اور پیرس میں ’’پلے بوائے‘‘ کی زندگی گزارتا تھا۔یہ شخص قانون توڑنے میں فخر محسوس کرتا تھا۔اس نے ایک بار پیرس کی shanzelize streetپرایک سو تیس کلومیٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے گاڑی چلا کر دنیا کو حیران کر دیا تھا۔پیرس کی سٹی حکومت کی بھرپور کوشش کے باوجود اسکا چلان تک نہ ہوسکا تھا۔یہ شخص اپنے ملک کی ’’انوسٹمنٹ اتھارٹی تھا اوریہ اتھارٹی اتنی پاور فل تھی کہ یہ دنیا کے کسی بھی ملک میں کسی بھی وقت دس بلین ڈالرز کی سرمایہ کاری کر سکتا تھا۔
۹۱ نومبر ۱۱۰۲ کو بے بسی کی تصویر بنے گرفتار ہونے والا یہ شخص مرد آہن معمر قذافی کا بیٹا سیف السلام قذافی تھا۔یہ معمر قذافی کا جانشین اور ولی عہد تھا۔
سیف السلام نے چھ سال قید کی زندگی گزاری اور اس کی یہ زندگی موت سے بدتر تھی ۔اسکی ہاتھ کی انگلیاں تک کاٹی گئی تھی ۔یہ وہی سیف السلام تھا جس کا ایک قدم لیبیا اور دوسرا لندن اور پیرس میں ہوتا تھا،یہ وہی سیف السلام تھا جسے شاہی خاندان لنچ اور ڈنر دیا کرتے تھے،مگر اسی سیف السلام کو وقت بدلنے پر کسی ملک نے پناہ تک نہ دی ۔یہ وہی سیف السلام تھا جس کے لیئے لندن کی پرفیومز کمپنیاں سپیشل پرفیومز تیار کرتی تھی مگر جب یہ گرفتار ہوا تو اسے دور سے دیکھ کر گھن آتی تھی۔یہ وہی سیف السلام تھا جس کی سالگرہ پر دنیا بھر کے بزنس ٹائیکون آتے تھے ،مگر یہ ایک وقت کے کھانے کو ترس گیا،کئی دنوں تک بھوکا پیاسا بھی رہا۔ایک کروڑپاؤنڈز کا گھر خریدنے والاسیف السلام کھنڈر نما مکان میں پناہ لینے پر مجبور ہوا۔پلک جھپکتے ہی سیف السلام آسمان سے زمین پر گر گیا ۔بادشاہ سے فقیر ہوگیا۔
سیف السلام کی یہ کہانی چیخ چیخ کر اقتدار میں نشے میں بہکنے والوں کو کہہ رہی ہے کہ اقتدار کا سورج اک دن غروب ہوجاتا ہے ،مقدر کا ستارہ ہمیشہ نہیں چمکتا،حالات اور وقت کو بدلتے دیر نہیں لگتی ،بادشاہت سے فقیری کا سفر پل بھر میں طے ہو جاتا ہے ۔یہ دنیا فانی ہے یہاں کوئی بھی چیز باقی نہیں۔
مناظر بدلتے ہیں۔جغرافیے بدلتے ہیں۔دریا رخ بدلتے ہیں۔سمندر خشک ہوجاتے ہیں۔پہاڑ ٹوٹ جاتے ہیں۔آباد کاریا ں اجڑ جاتی ہیں۔شان و شوکت افسانے بن جاتے ہیں۔
ہمارے حکمران نہ جانے کیوں بھول جاتے ہیں کہ فنا کے دیس میں کسی چیز کو دوام نہیں۔انہیں کیوں یقین نہیں آتاکہ عارضی قیام کے بعد نہ فرعون رہ سکا ،نہ شداد رہ سکا اور نہ حسن بن صباح کی جنت باقی رہی۔،مرد آہن معمر قذافی کو گلیوں میں گھسیٹا گیااور سیف السلام کا حال بھی ہمارے سامنے ہے پھر بھی بے حس حکمرانوں کو اپنے انجام سے خوف کیوں نہیں آتا۔؟
بڑے بڑوں کے نقارے خاموش ہوگئے ۔میاں جی اور خان کے نعرے کب تک گونجیں گئے؟
عبرت کے ہزاروں نشان موجود ہیں لیکن حیرت ہے کہ کوئی دھیان ہی نہیں دیتا۔میاں صاحب کو اقتدار سے رخصت ہونے کے لیئے بیسیوں وجہ گنوائی جاسکتی ہیں لیکن سب سے بڑی وجہ ان کا ’’لمن الملک‘‘کا کوس بجاناہے یعنی کون ہے جو میرے سامنے کھڑا ہو سکتا ہے یا یارا رکھتا ہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ آئین نے وزیراعظم کو با اختیا ر بنایا ہے لیکن میاں صاحب یہ کیوں بھول گئے کہ آئین میں یہ اختیارات بھٹو صاحب نے اپنے لیئے سمیٹے تھے لیکن بعد میں ان کا بوریا سمٹ گیا۔یہی آئین تھا اور میاں صاحب وزیر اعظم تھے اور مشرف صاحب نے میاں صاحب کا بوریا سمٹ دیا تھا،اور پھرمشرف صاحب جنہوں نے ۹ سال تک بادشاہت کی جن کے نام سے لوگ کانپتے تھے ۔وہ آج جلا وطنی کی زندگی گزار رہے ہیں۔
حکمران یہ کیوں بھول جاتے ہیں کہ اختیار کسی کو کچھ نہیں دیتا کسی کو کچھ نہیں بناتا۔اعتبار فیصلہ کن ہوتا ہے کردار زندہ رہتا ہے ۔کردار نہ رہے تو اختیار مٹھی میں بھری ہوئی ریت ہے جو پھسلتے دیر نہیں لگتی ۔
انسان کتنا کم ظرف ہے ذرا اختیار ہاتھ لگے تو بے کنار ہونے لگ جاتا ہے اس کا دل کرتا ہے کہ وہ عزت وذلت،حیات و موت کے فیصلے اپنے ہاتھ کرے، اگر اللہ کی سنت میں یہی ہوتا تو آج کے حکمرانوں کے مقابلے میں فرعون اور شداد،چنگیز اور ہلاکو،ہٹلر اور مسولینی اس کے زیادہ حقدار تھے،لیکن سنت الہیٰ یہ نہیں وہ اقتدار کسی کو یا تو انعام کے طور پر دیتا ہے یا امتحان کے طور پر ۔انعام والے کو چاہیے کہ شکر کرے اور امتحان والے کو چاہیے صبر کرے ،لیکن جو شخص حکومت کو اپنی ملکیت اور اقتدار کو اپنا ذاتی خدمتگار بنا لے وہ اپنے اس انجام کے لیئے تیار ہوجائے جو ایسے لوگوں کے لیئے سنت الہیٰ کے مطابق ہے۔بڑے بڑے ستونوں والے شہر اوندھے ہوگئے ،اونچی گردنوں والے سرنگوں ہوگئے،آہنی فیصلوں والے مٹی کے ڈھیر میں دب گئے،زر و جواہر سے کھیلنے والے غربت میں دھکیل دیئے گئے،یہ الگ بات ہے کہ ان میں سے ہر ایک سر بلند بھی تھا اور قلعہ بند بھی۔۔
ہر عہدے کے حکمران کو چاہیے کہ وہ انسان ہی بن کر رہے کیونکہ اسکی ہستی نیستی ہے اس لیئے دیوتا بننے یا خدا کہلانے کا ارمان نہ پالے ۔اکثر خواب تشنہء تعبیر رہ جاتے ہیں اور بہت سے ارمان پاؤں کی زنجیر بن جاتے ہیں۔