ہم مردانہ حاکمیت والے معاشرے میں رہتے ہیں جہاں طاقت، جرات اور بہادری جیسی جنگجوانہ صفات مردوں سے منسوب ہوتی ہیں۔خواتین کے حقوق کی جدوجہد کے نتیجہ میں آج اگر ہم مجبور ہوکر باہمت خواتین کو داد بھی دیتے ہیں تو کہیں گے انہوں نے حالات کا مردانہ وار مقابلہ کیا۔
یہ صرف ہمارے مشرقی معاشروں میں ہی نہیں مغرب میں بھی ایسا ہی ہے جہاں ڈٹ جانے والی عورت کے لیے بھی یہی کہا جائے گا کہ ’واہ ! یہ بھی بالز رکھتی ہے‘۔معاملہ جنگ کا ہو تو کہا جاتا ہے’جنگ کھیڈ نئیں ہوندی زنانیاں دی‘ اور کسی کو بزدلی پر شرمندہ کرنا ہو تو چوڑیاں بھجوا دی جاتی ہیں کہ پہن لو یعنی عورت بن کر گھر بیٹھ جاؤ۔عورتوں کے لیے شرم و حیا، سجنا سنورنا اور پاکدامنی جیسی صفات مختص کر دی گئی ہیں۔ اگر کوئی بیٹا امن پسند ہو، آوارہ گردی نہ کرتا ہو اور اس کی محلے میں کوئی شکایت نہ ہو تو کہا جاتا ہے ’اے دھیاں ونگراں پتر اے‘۔
مختلف جنسوں کے ساتھ منسوب یہ صفات پدر سری نظام کا کیا دھرا ہے جہاں مرد حکمران اور عورت تابعدار ہے۔مرد اور عورت کی جنسی تقسیم کے درمیان اور بھی لوگ ہیں جو اپنی شناخت منوانا چاہتے ہیں۔ان میں ہم جنس پرست مرد و خواتین، دونوں جنسوں میں دلچسپی رکھنے والے مرد و خواتین، اور مخنث مرد اور عورتیں شامل ہیں۔
میں نے ٹرانسجینڈر کے لیے مخنث کی اصطلاح استعمال کی ہے اگر یہ مناسب نہیں ہے تو میں اپنی کم علمی کی پیشگی معذرت چاہوں گا۔ (پڑھنے والے اپنے تبصرے میں اس حوالے سے میری اصلاح کر سکتے ہیں)۔پاکستان میں روایتی مرادنہ صفات کا اگر تصور کریں تو سیاسی میدان میں آپ کو میر مرتضی بھٹو کا جوڑ شاید ہی ملے۔
دراز قد،ڈیل ڈول، بہادر، یار باش اور دشمنوں کے لیے موت کا پیغام، مرتضیٰ بھٹو میں وہ تمام گُن تھے جو کسی کو بھی معاشرے کی نظر میں آدمی کو مرد بناتے ہیں۔یہ جانتے ہوئے بھی کہ ریاستی اور غیر ریاستی قوتیں اس کا ’گھونٹ بھرنا‘ چاہتی ہیں، مرتضیٰ اپنے ایک وفادار ساتھی کو تھانے سے چھڑانے کا سزاوار ٹھہرا اور پولیس مقابلے میں مارا گیا۔
مرد کا بچہ تھا آخر۔اسی مرد کے بچے کے بچے کی بطور ’کویر‘(Queer) سامنے آنے پر اگر میں کہوں کہ میں حیران نہیں ہوا تو میں جھوٹ بولوں گا۔آپ ’الذوالفقار‘ کے جھوٹے سچے قصے سن کر جوان ہوئے ہوں اور ایک ظالم آمر کے خلاف مرتضیٰ بھٹو آپ کا اپنا چی گویرا ہو تو آپ اس کے بیٹے میں اس کا عکس دیکھنا چاہیں گے لیکن جو تصویر سامنے آئی وہ اس کے برعکس ہے۔
مرتضیٰ بھٹو کے بیٹے ذوالفقار علی بھٹو جونیئرپر بنی سات منٹ کی ایک مختصر ڈاکومنٹری دیکھنے کا اتفاق ہوا ہے جو اس کے فلم کے پروڈیوسر نے فیس بک پر 19 جون کو ہی اپ لوڈ کی ہے۔ذوالفقار بھٹو جونیئر کی داڑھی بھی ہے اور ہاتھوں پر نیل پالش بھی لگی ہوئی ہے۔ڈاکومنٹری میں وہ کڑھائی کرتے اور ڈسکو دھن پر ادائیں مارتے بھی دکھائی دیتے ہیں۔
یہ ہے کویر جس میں عورت اور مرد کی روایتی شناخت غائب ہو جاتی ہے، آپ دونوں ہو سکتے ہیں یا کچھ اور بھی۔یہ وکھری ٹائپ کے لوگ ہیں۔ ماضی میں کویرکی اصطلاح ہم جنس پرستوں کے لیے بطور ہتک استعمال ہوتی رہی ہے لیکن اب یہ ایک ابھرتی ہوئی تحریک ہے جس میں کویر افراد اپنی ڈھب پر زندگی گزارنے کی آزادی مانگ رہے ہیں۔مسلمانوں میں بھی اس رحجان کے افراد اب کھل کر سامنے آ رہے ہیں اور اپنے جیسے دوسرے افراد کا حوصلہ بڑھا رہے ہیں جو ویسے سماجی دباؤ کے تحت دوہری زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ذوالفقار بھٹو جونیئر بھی ’مسلم کویر‘ منظر کا حصہ ہیں۔
ڈاکومنٹری میں وہ پوچھتے ہیں کہ ’مردانگی کا مطلب سختی اور طاقت ہی کیوں ہے؟ حالانکہ یہ نرماہٹ بھی ہو سکتی ہے اور نسوانیت بھی‘۔وہ بتاتے ہیں کہ وہ چھ سال کے تھے جب ان کے والد کو قتل کیا گیا، اس سے پہلے دادا اور چچا کو قتل کیا گیا اور بعد میں پھوپی کو، یوں خاندان کی جو شناخت بنی وہ تشدد اور طاقت کے حوالے سے بنی، یہی پاکستان کی شناخت ہے اور یہی بھارت کی۔
’اس سب نے ہم پر جو شناخت تھوپی وہ جنگ اور المیے کی پیدا کردہ ہے۔‘فلم میں ذوالفقار بھٹو جونیئر شناخت، شانتی اور شخصیت کے ایسے سفر میں نظر آئے جو ان دنیاؤں میں طے کیا جا رہا ہے جہاں جمہوریت، انسانی حقوق اور شخصی آزادیاں تسلیم ہوچکی ہیں۔ عورت اور مرد کی دورنگی تقسیم کی جگہ جنسی شناخت کے کئی رنگ ابھر رہے ہیں۔لیکن اس کے دادا، باپ اور پھوپھی کا پاکستان تو ’پچھل پیری‘ ہوگیا ہے جہاں آزادیاں الٹا سکڑ رہی ہیں۔ جنسی پہچان کی آزادیاں تو دور کی بات وہاں بات کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
آصف زرداری کی سیاست سے تنگ پیپلز پارٹی کے لوگ جو مرتضیٰ بھٹو کے بچوں سے توقع لگائے بیٹھے تھے وہ ذوالفقار بھٹو جونیئر کے میلانات سے مایوس ہوں گے کیونکہ جہاں شیخ رشید جیسے بازاری زبان بولنے والے سیاستدانوں کی کمی نہ ہو وہاں ’بیگم نوازش علی‘ بن کر سیاست کرنا مشکل ہوگا۔ویسے ذوالفقار علی جونئیر نے کبھی سیاست میں آنے کا عندیہ دیا بھی نہیں لیکن جونیئر کے اس طرح کھل کر اپنے جنسی میلان کا اظہار کرنے سے پاکستان میں پسی ہوئی ایل جی بی ٹی اور کویر کمیونٹی کو آواز ضرورملے گی۔ جیے بھٹو!
ندیم سعید
ندیم سعید ڈان اور بی بی سی سے طویل رفاقت کے بعد اب اقوام متحدہ کے ادارے کے ساتھ بطور صحافی وابستہ ہیں۔ برطانیہ میں رہتے ہیں لیکن خود کو وطن سے دور نہیں ہونے دیا۔
بشکریہ سجاگ