آج پاکستان کے اندر شاید کوئی ایک بھی ذی شعور ایسا نہیں ہے جو پوری دیانت داری سے یہ سمجھتا ہو کہ شریف خاندان کرپٹ نہیں اور اس نے ملکی وسائل کو اپنی تجوریاں بھرنے کے لئے بے دردی سے نہیں لوٹا۔
شریف خاندان کی کرپشن کی یہ داستان کئی دھائیوں پر پھیلی ہوئی ہے لیکن بدقسمتی سے چند ماہ پہلے تک، جب سپریم کورٹ نے پانامہ کا کیس سننا شروع نہیں کیا، اس خاندان کا کبھی حقیقی احتساب نہیں ہوا۔
پی پی پی کے دور حکومت 1993 سے 1996 تک میں شریف خاندان پر کچھ مقدمات قائم ضرور ہوئے لیکن اس دوران نہ تو یہ جیل گئے اور نہ ہی ان کی کوئی گرفتاری عمل میں آئی۔
جب پرویز مشرف نے 1999 میں نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تو قریب ایک سال کے لئے یہ جیل میں ضرور رہے لیکن پھر فورا ہی سعودی عرب کی “مقدس” مدد آن پہنچی اور یہ اٹک جیل سے اہل و عیال، ملازمین اور سازو سامان سمیت سعودی محل میں جا پہنچے۔
پھر افتخار چوہدری کے دور حکومت(جس دوران وہ سپریم کورٹ کے چیف جسٹس تھے) میں میاں صاحب کے خلاف فوجی جرنیلوں سے پیسے لے کر آئی جے آئی بنوانے کا کیس سپریم کورٹ میں سنا گیا لیکن وہاں واضح ثبوت اور گواہ ہونے کے باوجود بھی ان کے خلاف کوئی موثر کارروائی نہ ہو سکی۔
جب بے پناہ کرپشن اور لوٹ مار کے باوجود بھی شریف خاندان کو کوئی سزا نہ ہو سکی اور وہ سعودی عرب سے جلا وطنی کاٹ کر نہ صرف بخیر و عافیت واپس آئے بلکہ آتے ساتھ ہی پہلے پنجاب اور پھر 2013 میں مرکز میں حکومت بنائی تو ملک کے اندر یہ تاثر راسخ ہو گیا کہ اس ملک کی کوئی عدالت، کوئی ادارہ شریف خاندان کا احتساب تو دور کی بات انہیں چھو بھی نہیں سکتا۔
جب پچھلے برس کے آخر میں سپریم کورٹ نے پانامہ سکینڈل کے حوالے سے جماعت اسلامی اور پی ٹی آئی وغیرہ کی درخواستیں سماعت کے لئے قبول کیں تو انہیں نواز شریف نے بھی آگے بڑھ کے خوش آمدید کہا کیونکہ عوام کی طرح وہ بھی اس تاثر کے خُمار میں گم تھے کہ ہمیشہ کی طرح اس دفعہ بھی وہ سپریم کورٹ سے با آسانی کلین چٹ حاصل کر لیں گے۔
لیکن اب تک کے آثار بتاتے ہی کہ اس دفعہ معاملہ تھوڑا الٹ ہو گیا ہے ۔
تاریخ میں پہلی دفعہ شاید پاکستان کے ریاستی اداروں (اس کا یہ قطعا مطلب نہیں کہ باقی ریاستی ادارے ایمان داری اور دیانت داری کا پیکر ہیں) نے شریف خاندان کے احتساب کو منطقی انجام تک پہنچانے کا فیصلہ کر لیا ہے لیکن احتساب کا یہ عمل ریاستی اداروں میں بیٹھے افراد کی نا اہلی اور غیر زمہ داری کی وجہ سے مشکوک ہوتا جا رہا ہے۔
پانامہ سکینڈل کے حوالے سے شریف خاندان نے اپنی کرپشن چھپانے کے لیے سپریم کورٹ کے اندر اور باہر جتنے جھوٹ بولے ہیں اس کے بعد ان کا اقتدار میں رہنے کا کوئی جواز نہیں رہتا اور اس حوالے سے جسٹس سعید کھوسہ کا اختلافی فیصلہ اکثریتی فیصلے سے ہر حوالے سے زیادہ مستند اور جامع ہے لیکن آصف سعید کھوسہ نے اپنے اختلافی فیصلے میں وکی پیڈیا کا حوالہ دے کر بہت اس کے حقیقی تاثر کو بہت حد تک مجروح کر دیا ہے ۔
وکی پیڈیا کا حوالہ کسی بھی سنجیدہ علمی بحث میں بہت مستند نہیں سمجھا جاتا ہے چہ جائیکہ ملک کی اعلی ترین عدالت ملک کی تاریخ کے اہم ترین کیس میں اس کا حوالہ دے ۔ علمی حلقوں میں تو ‘ وکی پیڈیا مارکہ دانش ‘ ایک معروف پھبتی ہے جو سطحی معلومات کے حامل لوگوں پر کسی جاتی ہے.
جس ملک کی یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز جعلی پی ایچ ڈی کی بنا پر معطل کیے جا چکے ہوں وہاں وکی پیڈیا کا حوالہ شاید کوئی بڑا مسئلہ نہ سمجھا جاتا ہو لیکن ماننا چاہئے کہ اس نے آصف سعید کھوسہ کے شان دار فیصلے کو بہت حد تک گہنا دیا ہے۔
اسی طرح پانامہ فیصلے کے نتیجے میں بننے والی جے آئی ٹی نے جس انداز میں چیزوں کو مشکوک بنانے کا عمل جاری رکھا ہوا ہے اس سے احتساب کے سارے عمل پر سوالیہ نشان اٹھنا شروع ہو گئے ہیں۔ وہ احتساب جس کے نتیجے میں پہلی دفعہ یہ امید پیدا ہونا شروع ہوئی تھی کہ اس ملک میں ایک سرمایہ دار اور پنجابی اسٹیبلشمنٹ کے ایک وقت کے سب سے بڑے نمائندے کا حقیقی احتساب ہو گا۔
لیکن آج بہت سے لوگ یہ سوال اٹھانے میں حق بجانب ہیں کہ جب جے آئی ٹی کے ممبران کو چننا سپریم کورٹ کا اختیار تھا تو پھر واٹس ایپ کال کے ذریعے اس سادہ عمل کو انتہائی مشکوک کیوں بنایا گیا؟
جو رپورٹ جے آئی ٹی نے سپریم کورٹ میں پیش کی ، اس میں یہ تاثر دیا گیا کہ وزیر اعظم ہاؤس کے اندر کی خبریں بھی جے آئی ٹی کو موصول ہو رہی ہیں۔ اب جہاں ایک طرف جے آئی ٹی، آئی بی پر یہ الزام لگا رہی ہے کہ وہ اس کے ممبران کی غیر قانونی جاسوسی کر رہی ہے اور انہیں ڈرا دھمکا رہی ہے تو دوسری طرف اس کی اپنی رپورٹ سے بھی یہ تاثر ملتا ہے کہ وہ خود بھی اس طرح کے غیر قانونی کاموں میں ملوث ہے۔
اسی طرح سے جو الزام جے آئی ٹی نے نیب کے اوپر لگایا وہ بھی انتہائی بوگس اور بے بنیاد تھا اور پھر جس طرح سپریم کورٹ میں جے آئی ٹی کی پیش کردہ رپورٹ کا ایک بہت بڑا حصہ میڈیا کے حوالے سے تھا تو اس نے بھی جے آئی ٹی میں بیٹھے لوگوں کی پیشہ وارانہ مہارت پر سخت سوال اٹھائےہیں۔
یہاں اس حقیقت سے بھی مفر ممکن نہیں کہ اگر جے آئی ٹی یہ مشکوک حرکتیں نہ بھی کرتی تو بھی میڈیا کے ایک بہت بڑے حصے نے اس کو متنازع بنانے کی پوری کوشش کرنی تھی کیونکہ اس وقت پاکستان کے الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کا ایک بہت بڑا حصہ مسلم لیگ ن کی ذاتی تشہیر کی دکان بنا ہوا ہے لیکن المیہ یہ ہے کہ جے آئی ٹی نے بھی ان دکانوں کو مصالحہ جات فراہم کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
آج تک کی ہمارے ریاستی اداروں کی تاریخ ہمیں یہ بتاتی ہے کہ انہوں نے ہر آسان سے آسان کام کو بھی اپنی نا اہلی کی وجہ سے مشکل سے مشکل تر بنایا ہے اور ہر صحیح کام کو غلط طریقے سے کرنے کی کوشش کر کے اسے خراب کیا ہے۔
جے آئی ٹی کی کارروائی کے بعد ہم یہ بات سوچنے پر مجبور ہیں کہ جے آئی ٹی میں شامل چھ لوگ جنہیں سپریم کورٹ نے اس ملک کے بہترین آفیسرز کے طور پر چنا ہے،اگر ان کی صلاحیت کا یہ عالم ہے تو ریاستی اداروں میں بیٹھے عام لوگوں کا عالم کیا ہو گا۔
اس ملک کے ریاستی اداروں کے یہ چھ قابل ترین لوگ اگر کرپشن اور چوری کی ایک کھلی واردات کی اچھے طریقے سے تفتیش نہیں کر سکتے تو باقی ریاستی ادارے اپنی ذمہ داریوں کو کیسے نبھا رہے ہوں گے۔
اب جبکہ تمام قرائن اس بات کی طرف اشارہ کر رہے ہیں کہ اس دفعہ نواز شریف کا بچنا شاید ممکن نہ ہو سکے تو جاتے جاتے نواز شریف صاحب اپنی ساری عمر کے گناہوں کا کفارہ اس طرح ادا کرسکتے ہیں کہ وہ ایک آزاد اور شفاف احتساب کمیشن تشکیل دیں جو بنا کسی خوف، ڈر اور تفریق کے اس ملک کے ہر اس جرنیل، جج، سیاستدان، صحافی، جاگیردار اور سرمایہ دار کا احتساب کرے جو کسی بھی قسم کی معاشی اور آئینی بدعنوانی میں ملوث رہا ہو۔ شاید نواز شریف صاحب اس شکل میں اپنی سیاسی میراث کو زندہ رکھ سکیں۔