عوام اور عوام صرف عوام

عید کا دن غم میں ڈوب گیا،ان چند دنوں میں کوئٹہ میں تیرہ ، کراچی میں چار، پارہ چنار میں ایک سو سے زائد اور بہاولپور میں ایک سوچالیس افراد کا خون ناحق بہہ گیا۔

کس حادثے میں کون کتنا قصوروار ہے ، اب اس پر بحثیں ہوتی رہیں گی، سیاستدان بیانات داغتے رہیں گے اور ٹسوے بہاتے رہیں گے ، میڈیا نت نئی سرخیاں منتشر کرتا رہے گا اور یہ سلسلہ یونہی چلتا رہے گا ،یہانتک کہ تھک ہار کر لوگ اپنے گھروں کو سدھار جائیں گے اور پھر کسی نئے واقعے کا انتظار کریں گے۔
آئیے سب سے پہلے بہاولپور چلتے ہیں جہاں ایک سو چالیس انسان جل کر خاکستر ہوگئے ہیں۔ یہ لوگ ایک الٹے ہوئے آئل ٹینکر سے بہنے والا تیل بالٹیوں اور برتنوں میں بھر کر لے جا رہے تھے، اس دوران ٹینکر دھماکے سے پھٹ گیا اور ۔۔۔

جہاں پر سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا آج کے دور میں بھی موٹر وے پولیس اتنی بے خبر ہے کہ اسےٹینکر الٹنے کی خبر نہیں ہوئی اور یا پھر پولیس نے حسبِ عادت موقع پر پہنچ کر حفاظتی اقدامات نہیں کئے؟

وہیں پر یہ سوال بھی پیدا ہوتا ہے کہ کیا وہاں کوئی ایک بھی سمجھدار شخص نہیں تھا جو لوگوں کو ایسا کرنے سے روکتا۔افسوس کی بات ہے کہ لوگوں کی اتنی بڑی تعداد موت کے منہ میں چلی گئی لیکن شاہراہِ عام پر کسی نے انہیں نہیں روکا ۔

بعض ذرائع کے مطابق وہاں موٹر وے پولیس کے اہلکار لوگوں کو منع کرتے تھے لیکن لوگوں نے نہیں توجہ نہیں دی ، اگر ایسا ہے تو یہ سانحہ مشال خان کے قتل کے بعد دوسرا انسانیت سوز واقعہ ہے جو پاکستان پولیس کی کارکردگی پر سوالیہ نشان ہے۔

دوسری طرف یہ بھی خبر ہے کہ وزیراعظم نوازشریف نے سانحہ احمد پور شرقیہ میں انسانی جانوں کے ضیاع کے اور ملک میں دہشت گردی کے واقعات کے پیش نظر دورہ برطانیہ مختصر کردیا ہے۔ وہ آج وطن پہنچتے ہی بہاولپور تحصیل احمد پور شرقیہ جائیں گے۔ یہ ایک اچھی خبر ہے تاہم وزیراعظم کو فوری طور پر پارہ چنار بھی جانا چاہیے جہاں گزشتہ چار دن سے لوگ دھرنا دئیے ہوئے ہیں۔

پارہ چنار میں شہدا اور زخمیوں کے لواحقین کے مطالبات میں سے سر فہرست مطالبہ یہ ہے کہ کرنل عمر اور کرنل اجمل ملک سمیت ان سیکورٹی فورسز کے اہلکاروں کے خلاف کارروائی کی جائے ، جنہوں نے شہدا کے ورثا پر گولیاں چلا کر مزید لوگوں کو شہید کیا ہے۔

پارہ چنار کے عوام علاقہ کا کہنا ہے کہ موجودہ سیکورٹی فورسز میں دہشت گردوں کے سہولت کار موجود ہیں، اس لئے ان کے بجائے مقامی ملیشیا اور رضاکار فورسز کو متعین کیا جائے ۔

لوگوں کے مطابق ریڈزون اور خندقیں صرف دکھاوے کے لئے اور مقامی لوگوں کو تنگ کرنے کے لئے ہیں، اگر ان کا مقصد عوام کی سہولت اور حفاظت ہے تو انہیں شہر سے باہر نکالا جائے۔

لوگوں کا یہ بھی مطالبہ ہے کہ ملیش خیل بارہ ہزار کنال اراضی پر حکومتی قبضے کو فوری ختم کرکے فی الفور اصل مالکان کے حوالے کیا جائے اور پارہ چنارکو تقسیم کرنے کی کوششیں ترک کی جائیں۔

عوام کا مطالبہ ہے کہ حکومت ، مقامی مسائل کو پولیٹیکل ایجنٹ کے مراعات یافتہ عناصر کے بجائے مقامی اور حقیقی رہنماوں کے مشوروں سے حل کرے۔
یہاں پر انتہائی افسوس ناک بات یہ بھی ہے کہ دھماکے کے بعد سے اب تک لوگوں کو محصوررکھنے کے لئے پارا چنار میں ہر طرح کی کمیونیکیشن سروس معطل ہے۔ عوامی اطلاع کے لئے عرض ہے کہ پارہ چنار کے لوگوں کی ایک بڑی تعداد روزگار اور تعلیم کے سلسلے میں بیرون ملک اور پاکستان کے دیگر علاقوں میں مقیم ہے۔ اس وقت دیگر ممالک اور علاقوں سے لوگ اپنے عزیزوں کی خیروعافیت جاننے کے لئے بے قرار ہیں لیکن بے حس انتظامیہ ٹس سے مس نہیں ہو رہی۔
ہماری انسانیت کے نام پر وزیراعظم پاکستان اور چیف آف آرمی اسٹاف سے اپیل ہے کہ فوری طور پر کمیونیکیشن سروسز بحال کی جائیں اور عوام علاقہ کے مطالبات منظور کئے جائیں۔

اس وقت ہمیں عوام کو یہ شعور دینے کی ضرورت ہے کہ جو سیاست دان اور ادارے مسائل پیدا کرتے ہیں ، اور مسائل پیدا کرنے کی وجہ سے جن کی سیاست اور نوکریاں چلتی ہیں ، ان سے مسائل حل کرنے کی امید رکھنا عبث ہے۔

اگر ہم نے اس ملک کو بحرانات سے نکالنا ہے تو ہمارے مسائل کا حل صرف اور صرف یہی ہے کہ ہمارے باشعور اور پڑھے لکھے لوگ بطور عوام ، عوام کے ساتھ کھڑے ہو جائیں، عوام کوپارٹیوں، فرقوں، علاقوں، زبانوں اور قبیلوں میں تقسیم نہ ہونے دیں، عوام کو اسلامی ، پاکستانی اور انسانی بنیادوں پر متحد کریں، لوگوں کو سیاسی وڈیروں اورحکومتی اداروں کے مقابلے میں تنہا نہ چھوڑیں،عوامی ایشوز پر سمجھوتہ نہ کریں، عوامی مسائل کو اجاگر کریں اور عوام کو عوام کی مدد کرنے کے لئے میدان میں لا ئیں، عوام کو آوے ہی آوے اور جاوے ہی جاووے کے بجائے ظالموں کو پہچاننا اور ان کے خلاف بولنا سکھائیں۔

عوام بیدار ہو جائیں تو ایران کی طرح اڑھائی ہزار سالہ شہنشاہیت کو روند سکتے ہیں اور دنیا کے نقشے پر پاکستان کی صورت میں ایک آزاد اور نیا ملک بنا سکتے ہیں، لیکن اگر عوام سو جائیں تو وہ اپنے ہی ملک میں اپنے ہی حکمرانوں اور اداروں کے ہاتھوں لٹنا شروع ہو جاتے ہیں۔ ممالک اور اقوام کی تاریخ کی سب سے بڑی سچائی یہی ہے کہ بیدار اور باشعور عوام ہی اپنے حقوق کا دفاع کر سکتے ہیں۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

مزید تحاریر

تجزیے و تبصرے