وزیراعظم صاحب، میں غلام ابن غلام حاضر ہوں

جناب محترم وزیراعظم نواز شریف صاحب، میں آپ کے دربار میں جھک کر سلام عرض کرتا ہوں۔ میں غلام ابن غلام آج آپ سے کچھ عرض کرنا چاہتا ہوں۔

محترم وزیراعظم صاحب، میرے والد محترم عطااللہ مرحوم سکنہ نوشہرہ ورکاں آپ کے والد اور آپ کے چاہنے والوں میں سے تھے۔ انہوں نے مرتے دم تک صرف اور صرف آپ کی جماعت کو ووٹ ڈالا اور میرے خاندان کے سارے افراد ابھی تک آپ کی جماعت مسلم لیگ نون کو ہی ووٹ دیتے ہیں۔ ہم آپ کے اور آپ کی جماعت کے غلام ابن غلام ہیں۔

میرے والد صاحب ایک مستری تھے لیکن انہوں نے ایک لقمہ اچار کے ساتھ بھی کھایا تو ان سے ٹیکس لیا گیا، ایک پاؤ چینی بھی خریدتے تھے تو اس پر بھی ٹیکس دیتے تھے، ماچس کی ایک ڈبیا بھی خریدی تو اپنی حلال کی کمائی میں سے چند پیسے سرکاری خزانے میں بطور ٹیکس جمع کروائے، ایک سگریٹ پر ٹیکس دیا، منہ دھونے کے لیے سستا ترین صابن خریدتے تھے تو اس پر ٹیکس جاتا تھا۔

جناب وزیراعظم صاحب میرے والد نے تمام عمر محنت کی لیکن آخری عمر تک ان کا کوئی بینک اکاونٹ نہیں تھا۔ میرے والد کی ہڈیاں جون جولائی کی دھوپ میں کام کرتے ہوئے سوکھ گئیں لیکن جب وہ بیمار ہوئے تو مقامی ہسپتال میں ان کے علاج کی سہولت تک نہ تھی۔
وہ مزدوری کرتے تھے اور چٹختی ہڈیاں لے کر اس پاکستان کی سرزمین میں دفن ہو گئے۔ انہوں نے اپنا آخری ووٹ بھی آپ کے حق میں ڈالا تھا کیوں کہ انہیں امید تھی کہ آپ ان کے اولاد کو بہتر مستقبل دیں گے۔

جناب وزیراعظم صاحب میں آپ کے اس سیاسی غلام کا بیٹا ہوں، جو تادم مرگ آپ کے ایم این ایز کو ووٹ ڈالتا رہا۔

میرے والد آپ سے محبت کرتے رہے لیکن ان کی اولاد پرائمری اسکول نمبر چار کے اس اسکول میں دھکے کھاتی رہی، جس کی چھتیں تک نہ تھیں، بیت الخلاء تک نہیں تھا، پینے کا صاف پانی تک نہیں تھا۔

جناب میں غلام ابن غلام بھی آپ کی محبت میں بڑا ہوا۔ ہمارے علاقے کے ایم این اے کہتے تھے کہ بے نظیر مغربی ایجنٹ ہیں اور نواز شریف وطن سے محبت کرتے ہیں۔ بے نظیر اسلام مخالف ہیں اور نواز شریف اسلام کی محبت سے سرشار ہیں۔ ہم اسلام کی محبت، اپنے روشن مستقبل کے چراغ لیے اور پاوں میں ٹوٹی چپل پہنے آپ کے مقامی ایم این اے کے لیے نعرے لگاتا رہے۔

پھر ایک مشکل وقت آن پڑا۔ میرے والد مجھے شہر میں پڑھانا چاہتے تھے لیکن ان کے پاس اتنی رقم نہیں تھی کہ وہ مجھے لاہور یا گوجرانوالہ کے کسی کالج میں داخل کروا سکیں۔

میرے والد صاحب نے مجھے کہا کہ بیٹا میرے پاس تمہاری فیس کے لیے پیسے نہیں ہیں تم کوئی نوکری کر لو، لیکن جس نواز شریف سے وہ محبت کرتے تھے وہ ان کے بیٹے کے لیے نوکری حاصل کرنے کا کوئی مناسب نظام بھی نہ بنا سکا تھا، وہ تعلیم جیسا بنیادی حق بھی فراہم نہ کر سکا تھا۔

جناب آپ کہہ سکتے ہیں کہ پنجاب میں صرف آپ کی حکومت نہیں رہی، ان حالات کی ذمہ دار آرمی ہے، زرداری صاحب کی کرپشن ہے، پرویز مشرف کا سب کیا دھرا ہے۔ آپ حالات ٹھیک کرنا چاہتے تھے لیکن آپ کو کرنے نہیں دیے گئے۔ مجھے آپ کی نیت پر کوئی شک نہیں لیکن کرنے اور چاہنے میں فرق ہے۔

میرے محترم وزیراعظم صاحب آپ اپنی جگہ ٹھیک ہوں گے لیکن ہمارے خاندان غلاماں نے آپ کو ہی ووٹ دیے تھے اور آپ سے ہی چند سوالوں کے جواب چاہئیں۔

جناب وزیراعظم صاحب یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ کی اولاد بیرون ملک اعلی درجے کے اسکولوں اور کالجوں میں پڑھتی رہی اور آپ سے محبت کرنے والے پنجابی ووٹروں کی اولاد کے حصے میں بغیر چھتوں والے پرائمری اسکول آئے ؟

یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ کو سر دردر بھی ہوا تو گولیاں امپورٹیڈ منگوائی گئیں لیکن آپ کی محبت میں مرنے والے ووٹروں کو ٹی بی کی مرض بھی لگی تو انہیں سرکاری ہسپتال سے دیسی اور دو نمبر دوائیاں بھی نہ ملیں؟

یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ پر جان نثار کرنے والے ووٹروں کی وفات پر پر کھانا بھی ان کے اہلخانہ نے قرض لے کر پکایا اور آپ کے دستر خوان پر چھ ملکوں کی بیس بیس کھانے سجائے جاتے ہیں۔

یہ کیسے ممکن ہوا کہ آپ کی دختر نیک کے اربوں ڈالر بیرون ملک کی آف شور کمپنیوں سے نکل آتے ہیں اور آپ کے لیے دن رات دعائیں مانگنے والے ووٹر کی بیٹی کی شادی پچاس ہزار کے جہیز کی وجہ سے نہیں ہوتی۔

میں آپ پر قربان، یہ کیسے ہو گیا کہ آپ کے ووٹروں کے بیٹے پاکستاب میں روزگار نہ ملنے کہ وجہ سے پردیس کاٹیں، عربوں اور انگریزوں کے بیت الخلاء صاف کریں اور اپنی کمائی پاکستاب بھیجںیں لیکن آپ کے فرزند ارجمند پاکستان سے پیسے اور سرمایہ بیرون ملک لے جائیں۔

یہ کیسے ہو گیا کہ محترمہ مریم نواز امپورٹڈ پرفیوم، امپورٹڈ میک اپ کے ساتھ بہترین کولنگ کرنے والی بی ایم ڈبلیو پر پورے جاہ و جلال کے ساتھ عدالت میں حاضر ہوں اور آپ کے ووٹروں کی استاد بیٹیاں اسکول جاتے ہوئے کچے پکے راستوں کی دھول چاٹتے مر جائیں۔
جناب وزیراعظم صاحب یہ آپ کی پاکستان اور پاکستانی عوام سے کیسی محبت ہے کہ آپ کے وزیر خزانہ اسحاق ڈار صاحب ہمیں ٹیکس دینے کے لیے کہتے ہیں جبکہ خود آپ پر اور آپ کے وزیر خزانہ پر منی لانڈرنگ کے الزامات لگ جاتے ہیں۔

یہ پاکستان سے کیسی محبت ہے کہ آپ بیرونی دنیا سے پاکستان میں سرمایہ کاری کا کہیں لیکن خود آپ یا آپ کی اولاد نرینہ اپنی فیکڑیاں جدہ میں اور کاروبار لندن میں کریں۔

یہ کیسی محبت ہے کہ آپ اپنے ووٹروں سے تو دال خریدنے پر بھی ٹیکس لیں لیکن آپ کے اپنے ایم پی اے اور وزیر ٹیکس چوری کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہ دیں۔

جناب وزیر اعظم صاحب مجھے غلام ابن غلام کو بس اس بات کا جواب دے دیں کہ آپ پر اور آپ کے اہلخانہ پر اس وقت کرپشن کے الزامات ہیں تو اس غلام ابن غلام کو کیوں آپ کا اور آپ کی اولاد نرینہ کا ساتھ دینا چاہیے؟

کہا جا رہا ہے کہ وزیراعظم اور ان کی بیٹی کے لیے اٹھ کھڑے ہوں۔

میرے منہ میں خاک، اگر خدانخواستہ آئندہ ہفتے یا چند دنوں بعد آپ کی حکومت نہیں رہتی تو مجھ غلام ابن غلام پر اس کا کیا اثر پڑے گا؟

کیا میرے بیروں ملک پڑھنے والے بچوں کی تعلیم ختم ہو جائے گی؟ کیا میرے دستر خواں پر جو بیس بیس کھانے پکتے ہیں، وہ نہیں پکیں گے؟ کیا میں وزیراعظم نہیں رہوں گا؟ کیا میرے لیے لندن سے آنے والی ادویات بند ہو جائیں گی؟ کیا میری بی ایم ڈبلیو بک جائے گی؟
کیا میرا پروٹوکول ختم ہو جائے گا؟ کیا میں ایم پی ایز اور وزیروں کی طرح کرپشن نہیں کر سکوں گا ؟ کیا میں مقامی ایم این اے کی طرح نوے مربعے زمین نہیں بنا سکوں گا؟

میرے جہاں پناہ نہیں، ایسا ہر گز نہیں ہے۔ میرا ماضی بتاتا ہے کہ میں خاندان غلاماں کا غلام ابن غلام ہوں اور غلام ابن غلام ہی رہوں گا۔ یہ سارے ان جاگیرداروں، وڈیروں، وزیروں اور مشیروں کے مسائل ہیں، جو پارلیمان میں صرف دولت اور طاقت اور اقتدار کے مزے اڑانے کے لیے جاتے ہیں۔

سیاسی غلاموں اور غریبوں کے مسائل تو دو وقت کی روٹی ہے، بخار میں درد کی ایک گولی ہے، عید پر جوتوں کا ایک نیا جوڑا ہے، بیٹی کا جہیز ہے، گلیوں میں کھڑا گندہ پانی ہے، بارش میں ٹپکتی چھت ہے اور ایسے ہی کبھی کبھار گوشت سے روٹی کھانے کی معصوم سی خواہش ہے۔ کئی حکومتیں آئیں، کئی گئیں، کئی بوٹ والے آئے، کئی گئے، کئی زر والے آئے اور زر بھی ساتھ بیرون ملک لے گئے۔

لیکن ہم جیسے غلام ابن غلام پچاس برس پہلے تھے، آج بھی ویسے ہی ہیں۔
محترم وزیراعظم صاحب اب صرف آپ ہی نہیں، کوئی بھی آئے یا جائے ہم غلاموں کو تو کوئی فرق نہیں پڑتا۔
فرق پڑتا ہے تو حضور والا آپ کو، آپ کی آل اولاد، مشیروں اور وزیروں کو پڑتا ہے۔
گستاخی معاف کیجے گا لیکن مجھے یہ سمجھ نہیں آ رہا کہ چند دنوں بعد میں کیوں کر آپ کے حق میں احتجاجی مظاہرے کے لیے نکلوں گا ؟

میں جان کی امان پاوں تو ایک گساخی اور کرنا چاہتا ہوں۔ ظلی الہی شہباز شریف صاحب سے بھی ایک گزارش ہے۔ حضور آپ کا اقبال مزید بلند ہو ، آپ مزید ترقی کریں، ہو سکتا ہے آپ چند دنوں بعد وزیراعظم بن جائیں لیکن براہ مہربانی آپ خود کو خادم اعلیٰ نہ کہا کریں۔ یہ ہم غریبوں کے پاس آخری جائیداد بچی ہے، خادم اعلی کا لقب ہم غلاموں کی آخری متاع حیات ہے، یہ ہمارا آخری سرمایہ ہے، یہ ہم سے مت چھینیے۔

خدارہ اپنی ذات عالی اور اپنے خاندان کو ہم عملی طور پر شودروں، اچھوتوں اور غلاموں سے نہ جوڑیے۔ ہم خادم ، ہم نوکر، ہم غلام ابن غلام حاضر ہیں، غلام حاضر ہیں محبت کی سزا پانے کو۔

Facebook
Twitter
LinkedIn
Print
Email
WhatsApp

Never miss any important news. Subscribe to our newsletter.

آئی بی سی فیس بک پرفالو کریں

تجزیے و تبصرے